ماؤں کا صرف ایک ہی دن کیوں؟

پاکستان سمیت دنیا بھر میں ماؤں کا عالمی دن منایا گیا۔ اس دن کی مناسبت سے مختلف مقامات پر مختلف تقریبات کا اہتمام کیا گیا جن میں ماؤں کو بھر پور طریقے سے خراج تحسین پیش کیا گیا۔

آج مغربی دنیا میں سال کے تمام دنوں کو تقسیم کر دیا ہے۔ ایک دن ماں کا ہوتا ہے۔ ایک باپ کا۔ ایک بچوں کا۔ ایک فلاں کا ، ایک فلاں کا۔ اسی دن کے مناسبت سے اسی طبقہ کو توجہ دی جارہی ہے۔ باقی پورا سال ان کی معاشرے گویا کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ انسانیت کو سال بھر میں ایک دن دینے پر مغرب چرچے کرتاپھرتا ہے جب کہ کم علم عوام ان کے قصیدے گاتے ہوئے نہیں تھکتے۔

آج سے چودہ سو سال پہلے اﷲ تعالیٰ نے ہمیں آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعے ایک ایسا دین اور ایسا نظام دیا ہے جس پر عمل کرکے نہ صرف ہم ایک پرامن معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے حقوق کو ملحوظ رکھ کر خوشحال اورترقی یافتہ معاشرہ بنا سکتے ہیں۔ آج دنیا میں مزدوروں کو دن منایا جاتا ہے مزدوری نہ ہونے کی وجہ سے اسی دن مزدور کے گھر میں فاقہ ہوتا ہے۔ جبکہ رحمت اللعالمین ﷺ نے آج سے چودہ سو سال پہلے فرمایا کہ اپنے غلاموں کے ساتھ نیکی کا سلوک کرو۔ ان کو وہ کھلاو اور پہناو جو تم خود کھاتے اور پہنتے ہو۔ اسی طرح پڑوسی کے بارے اتنے احکام آئے کہ قریب تھا کہ وہ میراث میں بھی شامل ہو۔ حقوق اﷲ کے ساتھ حقوق العباد کا سختی سے حکم دیا گیا ہے۔

اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ’’میں اپنے حقوق معاف کر سکتا ہوں لیکن اپنے بندوں کے حقوق کبھی بھی معاف نہیں کرتا‘‘۔ اگر کسی کے ذمہ اﷲ کے بندوں میں سے کسے کا حق ہو اور وہ جہاد جیسے عظیم عبادت میں شریک ہوجائے تو اس کا خون بھی اس بندے کے حق سے دستبرداری کے لیے کافی نہیں۔ آج ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑائے تو ہمیں دوسروں کے مقابلے میں اپنے حقوق ہی نظر آتے ہیں۔ ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ جن حقوق کا ہم دوسروں سے مطالبہ کرتے ہیں ایسے ہی حقوق دوسروں کے ہم پر بھی لازم ہیں۔ اگر ہم دوسروں کے حقوق ادا نہیں کرتے تو اپنے حقوق کیونکر حاصل کر سکتے ہیں۔ اس سے معاشرے میں عدم استحکام پیدا ہوگا اور برائیاں جنم لیں گی۔ یوں رفتہ رفتہ بات جرائم تک پہنچ جائے گی اور ایک نہ ختم ہونے والا معاشرتی بگاڑ پیدا ہوجائے گا۔

بات ہورہی تھی ماں کے عالمی دن کے حوالے سے۔ ایک ماں بچے کو 9ماہ تک اپنے پیٹ کے اندر رکھ کر مشقت برداشت کرتی ہے۔ پھر اس کے دنیا میں آنے کی خوفناک تکلیف کوبرداشت کر کے اسے زندگی دیتی ہے۔ دو ڈھائی سال تک اپنے جسم سے بچے کے خوراک کا بندوبست کر لیتی ہے۔ راتوں کو اٹھ اٹھ کر بچے کے راحت و سکون کا سامان فراہم کردیتی ہے۔ گرمی اور سردی کی سعوبتیں برداشت کرکے بچے کی خدمت میں لگی رہتی ہے۔ پھر جب بچہ کچھ بڑا ہوجائے تو اس کی پرورش کر تی ہے۔ اچھے اور برے کا تمیز کراتی ہے۔ بچے کو اچھا خوراک، اچھا لباس اور اچھی تعلیم فراہم کر دیتی ہے۔ جب بچہ اور بڑا ہوجائے تو اس کی تعلیم کی فکر میں لگی رہتی ہے۔ تعلیم کے بعد بچے کی نوکری کی فکر ماں کو کھاتی رہتی ہے۔ اس کے بعد بچوں کی شادی کا غم اس کو لگا رہتا ہے۔ اور بلا خر بڑے تگ و دو کے بعد بہترین جگہوں کا انتخاب کرکے ان کی شادیاں کرا دیتی ہیں۔ اسی پر بس نہیں ہوتا۔ بہو کی ناز نخرے اٹھانا، اس کا خیال رکھنا، اس کے آنے والے بچوں کے بارے فکرمند ہونا اور ان کی پیدائش کے بعد پرورش کا بھی اسی ماں کو غم لاحق ہوتا ہے۔

ایک ایسی ہستی جو بچے کو پیٹ میں پالنے سے لے کر خود قبر میں جانے تک اپنا سب کچھ اپنے بچوں پر لٹا ئے اور اپنے بچوں کی بہتر اور آرام دہ پر سکون مستقبل کے لیے خود کو خاک کر دے۔ ایسی ہستی کے لیے سال میں ایک دن کہا کا انصاف ہے؟ کیا والدین جب بوڑھے ہو جائے تو ان کو اولڈ ہومز بھیجنا مناسب ہے یاوہ ہمارے توجہ کے مستحق ہوتے ہیں جیسے بچپن میں انہوں نے ہم پر شفقت کی تھی۔

آئیں ! آج عہد کرتے ہیں کہ 8 مئی کو ماؤں کا عالمی دن نہیں منائیں گے۔ پورا سال ماؤں کی خدمت میں گزاریں گے۔
Abid Ali Yousufzai
About the Author: Abid Ali Yousufzai Read More Articles by Abid Ali Yousufzai: 97 Articles with 76272 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.