معاشرہ…… عدم تحفظ کا شکار

 روز بروز بڑھتی مہنگائی، بے روزگاری، عدم تحفظ جان و مال ، نت نئے بحرانوں اور افراتفری کے اس پرفتن دور میں عزت سے دو وقت کی روزی روٹی کمانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے۔ ایک عام مزدور سے لے کردرمیانے طبقے تک ہر شخص مشکلات کے ہاتھوں زخم زدہ ہو نے کا شکوہ گوہے۔ چار دن کی زندگی میں زوری کمانے کے چکر میں ہر شخص روزگار کے گرداب میں ایسا پھنسا ہے کہ ہر شخص کی معاشرتی زندگی کی رنگ رلیوں اور مخصوص ثقافتی روایات پر معاشی الجھنوں کی دھند سی چھا ئی دکھائی دیتی ہے۔ کاروبار میں عدم استحکام، ملازمت میں عدم تحفظ، دفتری سازشوں، افسران اعلیٰ کے دباؤ، ٹرانسفر، برطرفی کے خوف، کم تنخواہ اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی بنا ہ پر ہونے والی مالی مشکلات ، معاشرتی ناہمواریوں اور ازدواجی الجھنوں نے افراد کو ذہنی ٹینشن کا شکار کردیا ہے ۔ جبکہ بڑا کاروباری ہے یا ملازم وہ بھی نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہو نے کی بنا ہ پر خواب آور ادویہ اور ذہنی سکون پہنچانے والی ادویات (اینٹی ڈپریشن)کے استعما ل پر مجبور ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر میں خاص طور پر ایگزیکٹوز پوسٹ کے حامل افراد کے بریف کیس اور الماریوں میں کاغذات کے علاوہ خواب آور گولیاں،برین ٹانکس، ملٹی وٹامنز کی گولیاں اور بلڈپریشر کو معتدل رکھنے والی گولیاں بکثرت ضرور ملیں گی۔ ڈیپریشن بائی پروفیشن کی نفسیا تی بیماری جو چند عشروں قبل تک ترقی یافتہ ممالک کی بیماری تصور کی جاتی تھی آج پاکستان میں تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے ، اس طرح معاشرے میں ڈیپریشن اور ذہنی امراض میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔

معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے اطمینانی،ناگواری کی کیفیت، مایوسی، گھریلو رنجشیں، مالی تنگد ستی، فکرمعاش ، افلاس،نعمتوں کے چھن جا نے کا خوف، خواہشات کی عدم تکمیل، احساس محرومی، ناجائز سختی اور معاشرتی ناہمواریاں تیزی سے لو گوں میں ذہنی دباؤ اور افسردگی کا باعث بن رہی ہیں، یہی وجہ ہے اس وقت ایک چپڑاسی سے لے کر اعلیٰ افسر تک ، مزدور سے لے کر مل مالک تک سب اپنی معاشرتی زندگی اور ملازمت کی مجبوریوں کی بنا ہ پر چڑ چڑے پن ، یاداشت کے متاثر ہونے، کا م پر عدم توجہ، زندگی اور خود کو بے کار سمجھنے،خوشیوں اور دلچسپیوں سے کنارہ کشی کرنے، ذمہ داریوں سے فرار، قوت فیصلہ میں کمی، بلاوجہ جسمانی تھکن محسوس کرنے، بھوک کا بہت زیادہ یاکم ہونے ، نیند نہ آنے یا پھر بہت دیر تک سونے، غمگین افسردہ اور چپ چاپ رہنے، معاشرتی میل جول سے کترانے ، بات بات پر اشتعا ل انگیز ہونے، ہر وقت شکوہ گو رہنے، احساس کمتری یا برتری کے اظہار کر نے کی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہے پروفیشنل ڈیپریشن کا یہ مرض ہمہ قسمی پیشوں سے وابستہ افراد مثلاً کلرک، مزدور، کسان، دکاندار،ڈرائیور، ٹیچرز، پروفیسرز، ایڈووکیٹ، تاجروں اور صحافی حضرات میں تیزی سے سرایت کر کے ان کی زندگیوں کو اجیرن کر رکھا ہے۔معاشرے کے کاروباری و ملازمت پیشہ افراد کی زندگیا ں ڈیپریشن کی بناپر اسی طرح اجیرن ہوتی رہیں تو مجموعی قومی کارکردگی متا ثر ہو کر پوری قوم کے زوال کا باعث بن سکتی ہے۔

غیر معیاری کاروباری پالیسیز ، فرسودہ نظام ملازمت، ہر ہر ادارے میں موجود حد سے بڑھی کرپشن، افراد کے مابین بددیانتی کے باعث زندگیاں ڈیپریشن کا شکار ہیں۔ پاکستانی حالات و واقعات سے غیر ہم آہنگ ایجوکیشنل سسٹم، افسر شاہی ، سیاسی اثرورسوخ کی بے جا مداخلت اور کلر ک بادشاہوں کی سازشوں کی بنا ہ پر ہو نے والے ٹرانسفر کے خوف نے انہیں آج مجبور کر دیا ہے کہ وہ عوام کی بہتر خدمت کی بجائے اپنا زیادہ وقت نوکری کیسے بچائی جائے اور ٹرانسفر کیسے رکوائی جائے، پر صرف کریں۔پرائیویٹ جاب کرنے والوں کے بقول عدم تحفظ ملازمت کم تنخواہ اور کئی کئی ما ہ تک تنخواہ کی عدم ادائیگی نے ان کی زندگی کو گرہن زدہ کر دیا ہے۔ ہر وقت نوکر ی سے نکالے جانے کا خوف اور بچوں کی غربت نے انہیں زندہ لاش بنارکھا ہے بچوں کی فیس ، سوئی گیس ،بجلی ، موبائل فون اور پانی کے بلوں نے ان کے ماتھے پر مایوسی کی مہر ثبت کر رکھی ہے۔ پاکستان کے کسی بھی پیشے اورمیدان ِ زندگی پر نگاہ ڈالیں تو یہی منظر دکھائی دیتا ہے کہ موجودہ غیر مستحکم اقتصادی حالات اور گذشتہ69 سالوں کی ناقص حکومتوں کی ناقص پالیسوں نے عام آدمی سے لے کر اعلیٰ افسران تک کی زندگیوں سے خوشیوں کو کشید کر لیا ہے ماہرین دماغی اور نفسیاتی امراض کے کلینکس میں تل دھرنے کو جگہ نہیں مل رہی ،دماغی امراض کی ادویات بنانے والی فیکٹریوں کی سیل اربوں ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے پروفیشنل ڈیپریشن کی بنا پر ملازمین میں ذیابیطس ،کمردرد، سینے اور معدے کے امراض پائے جانے لگے ہیں لوگوں کی زندگی ہر روز کا م پر جانے سے قبل یا کام سے واپسی پر ایک درد شکن یا پھر خواب آور گولیاں کھانے تک محدود ہوکر رہ گئی ہے اور نجانے کب تک اِس بے بس اور مردہ احساسات کی زندگی کو مذید کس قدر نا اہل حکمرانوں اور نا قص پالیسی سازوں کی بھینٹ چڑھنا ہے۔آج کے معاشرے کی سب سے بڑی ضرورت افراد کی اصلاح اور محکموں سے کرپشن کا خاتمہ ہے ۔ افراد میں یہ شعور اجاگر کیا جائے کہ اس کائنات پر حکومت اﷲ واحدہ لاشریک کی ہے ، اور وہ ہمارے ہر کھے اور چھپے کام کو دیکھ رہا ہے ۔ لہٰذ شعائر اسلام کی عین مطابق زندگی بسر کی جائے اور ہمیشہ خوف خدا کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہر طرح کے گناہ سے اجتناب برتا جائے، بے جا خواہشات کی تکمیل کی بجائے کفایت شعاری کو پروان چڑھایا جائے، اور مردہ ضمیر ہونے کی بجائے ایک دوسرے کی دکھ درد میں شریک ہواجائے اور بھلائی و خیر خواہی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد و معاونت کی جائے ، ہمیشہ حق کی گواہی دی جائے ۔ دوسری جانب حکومت وقت کی زمہ داری ہے کہ وہ بلاامتیاز قانونی کی حکمرانی ، ملک کے تمام اداروں سے کرپشن ، اقرباء پروری کے خاتمے کے لئے مثالی اقدامات بروئے کار لائے ، اور عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے ، ملک کی سرکاری زبان اردو کو ملک بھر میں نافذ العمل کیا جائے ۔ بلاشبہ آج کے معاشرے میں پائی جانے والی خرابیوں ں اور خامیوں کا فوری حل موجود نہیں مگر ہم عوام اور ہمارے حکمرانوں کو عوام کے لئے حتیٰ الامکان اقدامات ضرور بروئے کا ر لانا چاہئے تاکہ ہمارا معاشرہ بڑی خرابیوں اور ناقابل اصلاح ہونے سے بچ سکے۔
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
Rana Aijaz Hussain
About the Author: Rana Aijaz Hussain Read More Articles by Rana Aijaz Hussain: 1004 Articles with 816998 views Journalist and Columnist.. View More