طلباء سے ہمارا تعلق بہت دیرینہ ہے۔اندازہ
اس بات سے لگا لیں کہ ہم خود بھی کبھی طالب علم رہے ہیں بلکہ اب بھی ہیں۔
قریب بارہ برس ہو گئے ہیں ہمیں تدریس کے دشت کی سیاحی میں۔ بلکہ اس سے بھی
کہیں زیادہ کہیے کہ ہم جب آٹھویں میں تھے تو چھٹی اور ساتویں کے بچوں کو ان
کے گھر جا کر پڑھایا کرتے تھے۔ ہمارا تعلق سفید پوش گھرانے سے تھا اور نانا
اور والدہ فضائیہ میں کام کرتے تھے۔ اس کی بنا پر ہم کیمپ میں اک گھر میں
رہتے تھے اوراس گھر سے نکلنے کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے اور تنخواہ بنیادی
ضروریات اور فیس میں ہی کھپ جاتی تھی۔ کیمپ سے باہر گھر کا مطلب سیدھا
سیدھا پڑھائی پر کلہاڑا تھا جو کہ ہمیں اور ہمارے گھر والوں کو گوارا نہ
تھا۔ اس کا حل یہ تھا کہ وہ افسر جو کیمپ میں گھروں کی تقسیم سے متعلق تھے
ان کے بچوں کو گھر جا کے پڑھا دیا جائے سو ہم نے یہ کام بھی دو سال کیا۔
عجیب دن تھے۔ بارہ تیرہ سال عمر تھی۔ دل کرکٹ کھیلنے کو کرتا تھا بچوں کے
ساتھ مگر کھیل ترجیح بنانے کا مطلب اپنے چھوٹے بھائیوں اور خود اپنے پیروں
پر کلہاڑی مارنا تھا۔ اس کے علاوہ بھی ٹیوشنز بہت پڑھائیں۔ جب انجنئرنگ سے
فارغ ہوا تو ایک سال تک نوکری نہیں ملی تو بھی ٹیوشن سے ہی اپنا خرچ پورا
ہوا۔ اس ساری تمہید کا مطلب صرف یہ بتانا ہے کہ تعلیم و تدریس سے ہمارا
تعلق نیا نہیں اور اب تو گذشتہ تین سال میں سعودی عرب میں ہیں تو عربی طباء
بھی ہماری دست برد سے محفوظ نہیں رہے۔
ان سب سالوں کا خلاصہ یہ ہے کہ طلبا ہوں یا طالبات، پرائمری کے درجے پر ہو
یا پی ایچ ڈی کر رہے ہوں، کالے ہوں یا گورے ہوں، پاکستانی ہوں یا غیرملکی
کلاس نہ ہونے کی ایک کمینی سی خوشی سب ہی کو ہوتی ہے۔ یہ خوشی اس وقت بھی
ہوتی ہے اگر پہلے سے اعلان کردہ کوئی ٹیسٹ یا کوئز استاد کی منت کر کے
منسوخ یا ملتوی کروانے میں کامیاب ہو جائیں۔ طلباء کی اکثریت محض حاضری
لگوانے جماعت میں جاتی ہے۔
پڑھاکو طلباء وہ ہوتے ہیں جوجماعت شروع ہونے سے پہلے ہی اپنا نصاب دیکھ چکے
ہوتے ہیں اور اس کے مطابق اپنا لائحہ عمل بھی ترتیب دے چکے ہوتے ہیں۔ یہ
طلبا اپنے اساتذہ کو بھی دوران لیکچر مشکل وقت دیتے ہیں اور ایسے ہی طلباء
کے لئے استاد محنت کر کے آتے ہیں۔ ایسے طلبا عمومًا اپنے لیکچر نوٹس ایسے
چھپا کے رکھتے ہیں جیسے ہمارے سیاست دان اپنی حقیقی آمدنی کو۔ دن میں پندرہ
گھنٹے پڑھتے ہیں اور عمومًا آنکھوں کے گرد حلقے بھی پڑ جاتے ہیں اور عینک
بھی لگا رکھی ہوتی۔ انھیں اگر کہیں وہم بھی ہو جائے کہ کسی دوسرے کے پاس اس
کے نوٹس پہنچ گئے ہیں کسی بھی ذریعے سے تو بیمار پڑ جاتے ہیں۔ امتحانات میں
کلاس کے اسی فیصد طلبا ان سے سوال سمجھنے آنے ہیں۔ یہ لڑکوں کو تو عمومًا
روکھا سا جواب دے دیتے ہیں کہ میں اس کام میں مصروف ہوں مگر کلاس کی لڑکیوں
کو سارے سوال ایک ایک قدم کے ساتھ بتا دیتے ہیں نیز یہ عقدہ بھی ان پر وا
کر دیتے ہیں کہ کس سوال کے آنے کا کتنا امکان ہے۔
دوسری قسم ان طلباء کی ہے کہ جوکبھی کبھار کلاس میں آ کر لیکچر سن لیتے ہیں
اور سپرد کیا گیا کام وقت پر جمع کروا دیتے ہیں۔ کام یہ کسی پڑھاکو دوست کا
نقل کر کے استاد کو جمع کرواتے ہیں۔ یہ لوگ نوٹس تو وقت پر جمع کر لیتے ہیں
مگر پڑھتے انھیں پرچوں سے قبل ہونے والی تعطیلات میں ہی ہیں۔ایسے طلبا
عمومًا ہاسٹل میں رہنے والے ہوتے ہیں۔ یہ ناشتہ کبھی نہیں کرتے اور اٹھتے
بھی گیارہ بارہ بجے دن کو ہیں۔ ان کی لیکچر میں حاضری عمومًا پراکسی کی
مرہون منت ہوتی ہے۔ وہ لڑکے جو ہاسٹل کی بجائے گھر سے آتے ہیں، ان کی
دوستیاں اپنی ہم جماعت جنسِ مخالف سے اکثر ہو جاتی ہیں۔ لڑکیاں بھی ان
لڑکوں کو پسند کرتی ہیں کہ یہ لوگ نوٹس دینے اور علم کی شراکت میں نخرہ
نہیں کرتے۔
تیسری قسم ان طلباء کی ہے جن کو اساتذہ سمسٹر میں ایک ہی بار دیکھتے ہیں۔
ان سے پوچھا جائے کہ آپ بھی اسی جماعت کے ہیں تو جی سر کہہ کے استاد کو ہکا
بکا کر دیتے ہیں۔ یہ وہ طلبا ہوتے ہیں جن کا کوئی دادا، نانا انتہائی
نگہداشت کے وارڈ میں رہا ہوتا ہے اور یہ کسی ایسے مقام پر ہوتے ہیں کہ دنیا
سے ان کا رابطہ منقطع ہو چکا ہوتا ہے۔ اس لئے نہ تو استاد کو ہی علم ہو
پاتا ہے اور نہ ہی دیگر ہم جماعت اس راز سے آگاہ ہوتے ہیں جبکہ یہ مردِ حق
سب سے رخ موڑ کر تعلیم کو فرض پر قربان کیے بیٹھا ہوتا ہے۔ اپنے قریبی عزیز
کی وفات کی تصدیقی دستاویز بھی اس کے پاس موجود ہوتی ہے اور اگر خود اس کی
ٹانگ وغیرہ ٹوٹی ہو تو ڈاکٹر کی تین ماہ کے بستر آرام کا ہدایت نامہ بھی مل
جاتا ہے۔
طلباء کی اقسام اپنی جگہ مگر زیادتی کسی سے بھی نہیں ہونی چاہیے۔ ہمارے
طلباء کو شکایت ہے کہ سمسٹرز کے اختتامی امتحانات جون میں ہو رہے ہیں جبکہ
رمضان مبارک بھی اسی ماہ میں ہے۔ گرمی کا یہ عالم ہے کہ ابھی سے درجنوں
افراد بے ہوش اور ہلاک ہو چکے ہیں۔ سکولوں میں تو 24 مئی سے گرما کی
تعطیلات شروع ہو جائیں گی مگر جامعات کے طلبا اس سوہلت سے مستفید نہیں ہو
سکتے۔ لازمی بات ہے کہ اس بار روزے سخت گرمی میں ہوں گے اور اس پر امتزاد
یہ کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ بھی لازمی ہو گی۔ اس صورت حال میں پڑھنا اور امتحان
کی تیاری کوئی آسان کام نہیں۔ اس صورت حال میں طلبا و طالبات اچھی طرح اپنی
صلاحیتوں کا اظہار نہیں کر پائیں گے۔ اس کے علاوہ کسی کی دورانِ امتحان
طبیعت خراب ہونے کے امکان کو ردنہیں کیا جا سکتا۔ اب امتحان جلدی لینے کا
تو وقت نہیں تاہم اگر یہ امتحانات عید الفطر کے بعد تک ملتوی کر دیئے جائیں
تو یہ ایک احسن اقدام ہو گا۔ امید ہے کہ ارباب اختیار اس تجویز پر غور و
فکر کریں گے۔ |