قوم کے یا کام کے بابا۔۔؟

رشوت کے بغیر کام ناممکن ہوگیا
تحریر : شمائلہ عادل
ننھی ثمر نے قائداعظم کی تصویر دیکھ کر اپنی امی سے پوچھا۔ مما یہ کون ہیں؟ مما نے کہا یہ قوم کے بابا ہیں۔ مگر لفظ قوم کے معنی سے چھوٹی ثمر واقف نہ تھی اس لیے اپنی عقل کے مطابق جو سمجھ پائی اسے دہراتے ہوئے پھر پوچھا مما یہ کام کے بابا ہیں؟۔ مما یہ سن کر سوچ میں پڑ گئی کہ قوم کے بابا ہیں یا کام کے بابا ہیں۔ کیونکہ پچھلے ہفتے جب انہیں اپنے شناختی کارڈ کی مدت ختم ہو نے کی وجہ سے دوبارہ بنوانا تھا تو تین دن نادرا آفس کے چکر لگاتی رہی مگر کام نہ ہو سکا۔ پھر چوتھے روز ایک ہزار کے نوٹ والے قوم کے بابا نے ان کا کام فوراً کروا دیا۔

ایک مہینے پہلے جب اچانک ان کی گلی کے تمام گھروں کی بجلی چلی گئی تھی۔ شاید کوئی خرابی پیدا ہو گئی تھی جس کے باعث کئی دن گزرنے کے باوجود بجلی کے محکمے نے اس خرابی ٹھیک کرنے کے لئے کوئی پیش رفت نہیں کی۔ حالانکہ گلی کے تمام لوگ شکایت درج کرا چکے تھے۔ گرمی میں وقت گزارنا مشکل ہو گیا تھا۔ گرمی سے تنگ بچوں کا رو رو کر برا حال ہوگیا تھا۔ بالآخر گلی کے تمام لوگوں نے بجلی کے کرتا دھرتا کی مٹھی گرم کردی۔ یوں قوم کے بابا والے نوٹوں نے ایک گھنٹے میں بجلی بحال کروا دی اور یہ تو ابھی کل ہی کی اس کی آنکھوں دیکھی بات ہے جب وہ بچوں کو اسکول چھوڑ کر واپس آ رہی تھی تو بائیک پر دو لڑکوں کو ٹریفک پولیس اہلکار روک کر کھڑے ہوئے تھے۔ جانے ان کا کیا مسئلہ تھا مگر قوم کے بابا کی لال نوٹوں والی دو تصویروں نے ان کا مسئلہ حل کر دیا تھا اور وہ پھرتی سے بائیک چلا کر لے گئے۔

اسی طرح جانے کتنے مناظر اس کی آنکھوں میں گھوم رہے تھے جب سوائے قوم کے بابا کے کسی نے بھی مشکل وقت میں ساتھ دیا ہو یا مسئلوں کو حل کرایا ہو۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا ۔ اس حدیث ’’ رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں آگ میں ہیں ‘‘ کا اطلاق اس سمیت ان تمام لوگوں پر ہو گا یا نہیں جنہوں نے اپنے مسائل کو حل کرنے کے لئے بحالت مجبوری قوم کے بابا سے مدد لی۔

وہ جس ملک میں رہتی ہے اس کا سسٹم ہر دوسرا کام کرنے کے لیے قوم کے بابا کو یاد کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ ہاں شاید بہت سارے محب وطن لوگ ہیں جو ملک کے بانی سے بہت محبت کرتے ہیں ان کی باتوں کو فراموش کر دیا ہے مگر کرنسی پر ان کی تصویر لگا کر انہیں ہر لمحہ یاد رکھنے کا اہتمام تو کر رکھا ہے۔ اسی لیے تو چھوٹے بچے بھی ان کی تصویر کی اہمیت سے واقف ہوتے ہیں۔ تبھی اس نے ننھی سی ثمر کو بھی احساس دلانے کے لیے لفظ ’’کام‘‘ پر زور دیتے ہوئے کہا جی بیٹا یہ ’’کام‘‘ کے بابا ہیں بلکہ ’’بہت ہی کام‘‘ کے بابا ہیں۔
Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142371 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.