حقیقی خوشی!

لائسنس تو پہلے بھی ملا تھا لیکن اس بار اس قدر خوشی کیوں ہو رہی ہے ۔۔۔۔؟
بسم اﷲ الرحمن الرحیم

رضوان نے ۱۵ سال پہلے گاڑی چلانا سیکھی ، گاڑی چلانے کی تربیت دینے والے ادارے کو فیس ادا کی ، تھوڑی بہت تربیت حاصل کر کے گھر بیٹھے لائسنس حاصل کر لیا ، بلا مشقت کوئی چیز حاصل ہو جائے تو بسا اوقات اس کی قدر نہیں ہوتی ، رضوان نے بھی لاپروائی سے لائسنس جیب میں ڈالا ،پہلے لائسنس ایک چھوٹے کتابچے کی مانند ہوتا تھا ، جب اس کی معیاد پوری ہو جاتی تو اس پر ٹکٹ لگا کر رینیو کیا جاتا تھا ، رضوان بھی اسی طرح اپنے لائسنس کی معیاد بڑھتا رہا ، کچھ دنوں پہلے رضوان کو گن پوئنٹ پر کسی نے لوٹ لیا اور اس کا بٹوا بھی لے گئے جس میں لائسنس بھی تھا ، جس طرح لائسنس ملنے پر کوئی خاص خوشی نہیں ہوئی تھی اسی طرح چھن جانے پر بھی کوئی خاص رنج نہیں ہوا، کوئی بات نہیں دوسرا بن جائے گا،رضوان نے اپنے دل کو تسلی دی ،کچھ دنوں بغیر لائسنس کے ہی کام چلتا رہالیکن جب سختی ہوئی اور لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے والا معاملہ ہوا تورضوان کو بھی لائسنس کی فکر ہوئی ،۔

لائسنس آفس پہنچے تو پرانے لائسنس کی تفصیل پوچھی گئی ، رضوان نے بے پروائی میں لائسنس کی کاپی بھی نہیں بنوائی تھی ، اور نہ لائسنس آفس والوں کے پاس اس شناختی کارڈ کے نام سے کوئی رکارڈ موجود تھا ، نامعلوم اندرون سندھ کون سے علاقے سے لائسنس بن کر آیا تھا ۔ ڈرائیونگ کی تربیت دینے والے اداروں سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کی اب گھر بیٹھے لائسنس نہیں بنتا بلکہ ٹیسٹ دینا پڑتا ہے ، یہ سن کر رضوان کی ہوایاں اڑ گئیں ، ڈرائیونگ ٹیسٹ کی معلومات حاصل کرنے پر پتہ چلا کہ دو ٹیسٹ ہوتے ہیں ایک علمی اور دوسرا عملی ، علمی میں سو میں سے کم از کم اسّی نمبر حاصل کرنے ہوتے ہیں ، اور عملی ٹیسٹ میں پارکینگ اور ریورس کی صلاحیت دیکھی جاتی ہے ، جس میں رضوان پہلے ہی بہت کمزور تھا ، رضوان نے کوشیش کی کہ ٹیسٹ سے بچا جا سکے لیکن رضوان کی اہلیہ عائشہ نے توجہ ڈلائی کہ رشوت یا ناجائز سفارش سے حاصل ہونے والے لائسنس کیا فائدہ جو دنیا میں بے برکتی اور آخرت میں حسرت کا باعث بنے ، اپنی پوری کوشیش کرو ، اﷲ تعالی سے دعا کرواور قانونی طریقے سے لائسنس حاصل کرو ، رضوان کو بھی شرم آئی اس نے مشق شروع کر دی ۔

رضوان ٹیسٹ دینے گیا ، پہلے آنکھیں چیک کی گئیں ، پہلے ہی راونڈ میں رضوان ناک آؤٹ ہوگیا، رضوان افسردہ ہو گیا ، کچھ دوستوں نے کہا کہ یہ جان بوجھ کر آنکھوں کے ٹیسٹ میں فیل کرتے ہیں تاکہ پیسے کھانے کا موقعہ مل جائے ، لیکن عائشہ نے ہمت ڈلائی کی اتنی جلدی ہتھیار مت ڈالو ، عینک بنالو اور دوبارہ ٹیسٹ دے دو ، عینک بنا کر رضوان گیا اور بڑی آسانی سے یہ مرحلہ طے کر لیا ، رضوان کو حوصلہ ملا اور دوستوں کی بات بھی غلط ثابت ہوئی ، پھر کمپیوٹر پر علمی ٹیسٹ کر مرحلہ آیا ، اس کے دو حصے ہوتے ہیں اور ایک سو سوال یاد کرنے ہوتے ہیں ، رضوان نے اس میں اچھی مشق کی تھی ایک ٹیسٹ میں سو میں سے سو اور دوسرے میں اسّی نمبر حاصل کر کے ٹریفک افسران کو بھی داد دینے پر مجبور کر دیا، اب علمی ٹیسٹ کی باری آئی ، پارکنگ کا ٹیسٹ تو اﷲ اﷲ کر کے پاس ہو گیا لیکن ریورس میں رضوان پھنس گیا اور فیل ہو گیا ، اصول کے مطابق ۴۲ دن بعد کی تاریخ دوبارہ ٹیسٹ کی ملی ، رضوان کی ہمت پھر جواب دینے لگی ، عائشہ نے اس موقعہ پر ایسے الفاظ کہے کہ رضوان میں ایک جذبہ بیدار ہو گیا، عائشہ نے کہا ایک امتحان تمھارا ڈرائیونگ کا ہے اور ایک امتحان اﷲ تعالی لے رہے ہیں کہ بندے کو آزماتے ہیں کہ ناجائز سفارش یا رشوت کا سہارا لیتا ہے یا جائز کام اپناتا ہے ، اس امتحان کو پاس کرنا ڈرائیونگ کے امتحان سے زیادہ ضروری ہے ، رضوان نے ان ۴۲ دنوں میں ریورس پر بھر پور توجہ دی ، ۴۲ دن بعد جب رضوان ٹیسٹ کے لئے پہنچا تو ٹریفک افسر بڑے اخلاق سے رضوان سے بات کی اس کا حوصلہ بڑھایا ،رضوان سوچ رہا تھا کہ ہم خوامخوہ ان افسران کے بارے میں بد گمانیاں رکھتے ہیں کہ یہ لوگوں کو بے جا تنگ کرتے ہیں ۔ رضوان ریورس ٹیسٹ میں پاس ہوگیا ، ڈرایونگ لائسنس ملنے پر رضوان اور عائشہ بہت خوش تھے اس موقعہ پر انہوں نے مٹھائی تقسیم کی ، لوگ حیران تھے کہ اس میں اسی خوشی کی کیا بات ہے ؟

لیکن انہیں کیا معلوم کہ یہ خوشی ڈرائیونگ لائسنس حصول سے زیادہ اﷲ تعالی کی آزمائش میں پورا اترنے کی حقیقی خوشی ہے۔
 
Ilyas Katchi
About the Author: Ilyas Katchi Read More Articles by Ilyas Katchi: 40 Articles with 35679 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.