مسئلہ زکوٰۃ کی ادائیگی کا!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
بینک یکم رمضان المبارک کو بھی کھلے
ہوتے ہیں، مگر اس روز لین دین نہیں کرتے ۔ گویا صارفین کے لئے بینک بند
رہتا ہے۔ اس روز بینک والے بہت ہی نیک کام کرتے ہیں، نیکی کے موسمِ بہار کے
مہینے کے پہلے ہی روز اسلام کے ایک اہم رکن یعنی زکوٰۃ کی کٹوتی ہوتی ہے۔
اس روز جس صارف کے 35ہزار 550روپے سے زائدبینک میں رکھے ہوں تو اس سے ڈھائی
فیصد زکوٰۃ کاٹی جائے گی، صارف کو گھر بیٹھے ثوابِ دارین حاصل ہو جائے گا۔
مگر اپنے ہاں بدقسمتی یہ ہوتی ہے کہ یار لوگ ثواب بھی ایسا ہی حاصل کرنا
چاہتے ہیں، جس پر کوئی خرچ نہ اٹھے، بس کچھ تسبیحات پڑھنے سے اور کچھ نماز
وغیرہ کے ذریعے نیکیوں کا بندوبست ہو جائے۔ رمضان المبارک میں نیکیوں کے
اور بھی بہت سے بندوبست اﷲ تعالیٰ نے کئے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ ایک
یا دوروز قبل بہت سے لوگ بینکوں سے اپنے پیسے نکلوا لیتے ہیں، تاکہ وہ
زکوٰۃ کی کٹوتی کر گرفت میں نہ آسکیں، اور اگلے ہی روز رقم دوبارہ جمع کروا
دی جاتی ہے۔ بینکوں نے بھی صارفین کی مشکل مزید یوں آسان کردی ہے کہ وہ
صارف کو چیک نما رسید دے دیتے ہیں، جس کی بنا پر انہیں رقم نکلوانے کا تکلف
بھی نہیں کرنا پڑتا، بس زکوٰۃ کٹوتی سے اگلی ہی صبح آکر رقم کو دوبارہ
اکاؤنٹ میں منتقل کردیا جاتا ہے۔
جب ہر مسلمان کو یہ یقین ہے کہ رمضان المبارک نیکیوں کا موسم بہار ہے، ہر
نیکی کا اجر کئی گنا بڑھ جاتا ہے، تو پھر وہ اس نیکی سے کیوں بھاگتے ہیں۔
دوسرا یہ کہ ہر مسلمان کا یہ ایمان بھی ہے کہ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان
میں زکوٰۃ بھی ایک رکن ہے تو اس کے بغیر ایمان مکمل ہی نہیں ہوتا، تو پھر
لوگ ڈنڈی کیوں مارتے ہیں۔ اس سوال کے کئی جواب ہیں، لوگ تو سب سے پہلی اور
اہم دلیل یہ دیتے ہیں کہ حکومت کے معاملات چونکہ مشکوک ہوتے ہیں، حکومت کی
کارکردگی پر عوام کو اعتماد نہیں، دنیا داری تو چلتی رہتی ہے، مگر جب
معاملہ مذہب کا آجائے تو پھر احتیاط سے کام کرنا چاہیے، کہ ان کی زکوٰۃ کی
مد میں دی ہوئی رقم کسی اور کام میں تو استعمال نہیں ہوگئی۔ جب لوگ ان
محکموں کی طرف دیکھتے ہیں، جو زکوٰۃ کی تقسیم کے ذمہ دار ہیں، اس میں اقربا
پروری کا عمل دخل بھی ہوتا ہے، پسند ناپسند کا معاملہ بھی اور کسی حد تک
کرپشن کے امکانات بھی، تو لوگ حکومت کے اداروں پر اعتماد کرنے کی بجائے خود
اپنے ہاتھ سے زکوٰۃ دینے کو ترجیج دیتے ہیں۔ بہت سے لوگ تو حقیقی معانوں
میں اپنے ہاتھ سے ہی زکوٰۃ اور صدقات دینے کو اصل جانتے ہیں، اس کے بغیر ان
کے خیال میں یہ چیزیں قبولیت کی منزل کو نہیں پہنچتیں۔ بینکوں سے رقوم
نکلوانے والوں میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں، جو زکوٰۃ دیتے ہی نہیں، وہ
صرف اس لئے اپنی رقوم نکلواتے ہیں کہ ان کے مال میں کمی واقع نہ ہو۔
ربّ العالمین نے زکوٰۃ کو مسلمانوں کے ایمان کا حصہ کیوں بنایا؟ اﷲ تعالیٰ
کے بنائے ہوئے قوانین اور کئے ہوئے فیصلے انسانی عقل سے مطابقت نہ بھی
رکھتے ہوں تو مسلمانوں کا غیب پر ایمان بھی ضروری ہے۔ مگر زکوٰۃ کے بارے
میں بات تو سیدھی سادی اور واضح ہے، یہ ان امیر لوگوں سے وصول کی جاتی ہے،
جن کے پاس دولت ضرورت سے کافی زیادہ ہوتی ہے۔ عام آدمی جو اپنی ضروریات
زندگی درمیانے درجے تک بھی پوری کر رہا ہے، اس سے زکوٰۃ کا حصہ وصول نہیں
کیا جاتا۔ اسلام نے زکوٰۃ کا نصاب قائم کر رکھا ہے، نہ اس سلسلے میں کوئی
ابہام ہے نہ خفیہ اور پوشیدہ معاملہ۔ مگر لوگ اپنی کم فہمی اور لالچ کی بنا
پر یہ خیال کرتے ہیں، کہ زکوٰۃ دینے سے ان کی دولت میں کمی آجائے گی۔ یہ
تخیل اسلام کی بنیادی تعلیمات کے ہی خلاف ہے، اﷲ تعالیٰ اپنے دیئے ہوئے رزق
میں سے ہی آگے تقسیم کرنے کا فارمولا بتاتا اور اس پر عمل درآمد دیکھنا
چاہتا ہے۔ سرکاری طور پر وصول کی جانے والی زکوٰۃ کو تو لوگ ٹیکس ہی تصور
کرتے ہیں اور ٹیکس کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ یہ حکومت کی عیاشیوں اور
مراعات کے لئے ہی نچوڑا جاتا ہے۔ ٹیکس دینے میں بھی قوم کو اسی لئے پریشانی
ہوتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت عوام پر اپنا اعتماد بحال کر ے، جس
مد میں بھی حکومت رقم وصولتی ہے، عوام اسی پر شک کرتے ہیں۔ اگر لوگ بینکوں
سے رقم نکلواتے ہیں تو ان کا فرض ہے وہ دل کے اطمینان سے زکوٰۃ ادا ضرور
کریں، یہ انسان کے لئے دنیا اور آخرت دونوں میں مفید ہے۔ |
|