تحریر کاشف ندیم
عرصہ دراز سے اپنی درسگاہوں کے متعلق لکھنے کو بہت من کر رہا تھا مگر کیوں!
ہماری درسگاہوں یعنی سکولوں کالجوں اکیڈیمیوں بالخصوص نجی اداروں کی بات کی
جائے تو طنزاـــــ ماشااﷲ ۔۔۔خادم اعلی کو ایک اور ٹھانی سرکاری سکول پر اب
کریں گے نا اہل من مانی۔من پسند معلمات کو من پسند مراعات نوازشات کے ساتھ
درسگاہوں کی زینت بنا دیا جائے گا۔۔یہ درسگاہیں کبھی بھی درسگاہ کا نظارہ
نہیں دے پاتی بلکہ فیشن شو کے مناظر پیش کرتی ہیں۔۔نجی تعلیمی اداروں میں
کیا کچھ نہیں ہوتا ۔۔محبت کی داستانوں کی نت نئی تاریخ مرتب کر رہی ہیں تو
کبھی دیا جلائے رکھنا پر عمل پیرا نظر آتی ہیں ۔محبت کی شادیاں کرانے میں
تو ان اداروں نے ہراول دستے کا کردار ادا کرنے میں کوئی بھی کسر نہیں باقی
چھوڑی۔کبھی استاد محترم نے اپنی ساتھی استانی کے ساتھ محبت کی داستان رقم
کی تو کبھی سکول مالک کا دل کسی پر جان فدائی کرنے پر تل گیا نا صرف یہ
بلکہ علم کے زیور سے آراستہ ہونے کی غرض سے جانے والی دوشیزہ بھی بچ نا سکی
اپنے ہی استاد کی بے انتہا محبت سے ۔۔۔ذہنی پختگی نا ہونے کی بدولت معصوم
کلیاں کھلنے سے پہلے ہی کچھ درندہ صفت معماران قوم کے ہاتھوں مسل دی جاتی
ہیں۔محبت کی شادی کو نوجوان نسل نے اپنا بنیادی حق سمجھ کے اس کے حصول میں
ہر رشتے ناطے کی قربانی اور عزتوں کے دامن چاک کرنے کی ہر ممکن اور حتی
المقدور سعی کی ہے۔
ان نجی اداروں میں تنخواہ کی بات کی جائے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔۔بیچارہ
استاد چار سے پانچ ہزار کے معاوضے میں علم کی شمع جلاتے جلاتے خود پروانہ
بن جاتا ہے۔۔۔۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کی اخبارات میں دو سے تیں کالم کی ایک
سرخی پڑھ کر عوام الناس ششدر رہ جاتی ہے۔؛ا ب ج پبلک سکول کے سائنس ٹیچر ن
نے دسویں جماعت کی طالبہ ف کو بھگا کر نکاح کر لیا۔اب تو ہمارے اخباروں نے
بھی ن ف کی بجائے مکمل اسم گرامی سے لکھ کر ان نئے نویلے جوڑوں کو تکریم
بخشنے کا رواج ڈال ہی دیا ہے۔راقم الحروف کی باتیں ایک خاص طبقہ کی دل
آزاری کا سبب تو ضرور بنیں گی مگر سچائی چھپائے نہیں چھپتی۔۔ایک تونگر نے
صاحب ثروت ہونے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک درسگاہ کا قیام عمل میں لایا
خواتین اساتذہ کو درسگاہ میں ملازمت دینے کو ترجیح دی گئی اور مرد حضرات کے
کوائف ردی کی ٹوکری کی نظر بنے۔دوران انٹرویو موصوف کا اصول ملاحظہ
فرمائیں۔۔جو خاتون حجاب میں جناب کے روبرو پیش ہوتی اسکا نقاب اتروانے کی
غرض سے اسے کولڈ ڈرنک پیش کیا جاتا۔تنخواہ کے ضابطے کا اگر ذکر کریں تو بات
مضحکہ خیز نہیں بلکہ کسی انکشاف سے کم نہیں ہوگی۔مکمل حجاب میں آنیوالی
۸۰۰۰ ماہانہ چہرے سے ردا کا پلو ہٹا کے آنے والی ۱۲۰۰۰ صرف دوپٹہ اوڑھنے
والی ۱۶۰۰۰ دوپٹے کا بھی جس کو نہیں رہا خیال اور کاندھے سے بھی گیا سرک تو
۲۰۰۰۰ ۔۔۔جس پے یاد آتا ہے اپنے کاندھے سے دوپٹہ نا سرکنے دینا ورنہ بوڑھے
بھی جوانی کی دعا مانگیں گے۔۔اور جس نے دوپٹہ گھر میں رکھا سنبھال کے وہ
مستحق ٹھہری ۳۰۰۰۰ ماہانہ کی۔
اس بات پر کوئی بھی شبہ کی گنجائش باقی نہیں ہے کہ شرح خواندگی روزبروز
بڑھتی جا رہی ہے مگر معیار تعلیم تنزلی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔پھر بات
گھوم پھر کر آئے گی تو معمار قوم پر ہی۔ایک معلم کو مثالی ہونا چاہیے وہ
اپنے تلمیذ کے لئے رہبر اور پیشوا کا کردار ادا کرتا ہے۔اس میں کوئی شک بات
نہیں کہ سرکاری سکول کے معلمین اپنے شاگردوں سے ہاتھ پاؤں اور ٹانگیں بھی
دبواتے ہیں نہ صرف یہی بلکہ استاد کے گھریلو کام کاج میں بھی شاگرد ملازم
سے کم کام نہیں دیتا۔خیر آمدم بر سر مطلب ۔استاد کی خدمت ہی فیض کا سبب
ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شرح خواندگی میں اضافہ استاد ہی کی بدولت ہوا
ہے۔ایک پاکستانی حکمران کی اصطلاح کے مطابق خواندہ کو کچھ اس طرح متعارف
کرایا گیا کہ جو فرد بھی پڑھنا لکھنا جانتا ہے وہ خواندہ ہے راقم کو اس بات
سے اتفاق نہیں اگر ایسے ہی شرح خواندگی ایسے بڑھانی ہے تو درسگاہوں کو
مسمار کر دیں اور ہر گھر پر لازم کر دو کہ وہ اپنے بچوں کو خود ہی پڑھنا
لکھنا سکھا دیں اور ساتھ میں یہ شرط عائد کر دی جائے کہ شناختی کارڈ تب تک
جاری نہیں ہو گا جب تک امیدوار کو پڑھنا لکھنا نہیں آئے گا۔راقم کا نہیں
خیال کہ پھر بھی ریاست میں کوئی ان پڑھ رہ جائے۔شرح خواندگی کو بڑھانے کی
بجائے ہماری توجہ کا محور معیار تعلیم کو بڑھانا ہو۔معیاری تعلیم دینے میں
ہماری درسگاہیں کس قدر سرگرم عمل ہیں اور کتنی کامیاب ہیں ۔۔حال ہی میں
تعلیمی اداروں سرکاری سکولز کو پنجاب ایجوکیشن کی تحویل میں دینے کا منصوبہ
بناگیا۔۔کیا یہ منصوبہ اور حکومتی اقدام راست ہے یا پھر تجرباتی مہم
ہے۔اداروں کی اصلاح ایسے ممکن ہے تو پھر کسی قسم کی کسی کو ئی قباحت ہے نہ
ہی ہونی چاہیے۔اگر ملک و قوم کی بہتری اسی میں ممکن ہے تو ہمارے خادم اعلیٰ
خراج تحسین کے مستحق ہیں وگرنہ مثبت پہلووٗں کے ساتھ منفی اثرات بھی ہر دور
میں جنم لیتے ھیں۔
اسکی مثال ایسے ہے جیسے ایک ریاست میں جیب کترے کی سزا مقرر کی گئی تھی کہ
شہر کے بارونق چوک میں دن دیہاڑے پھانسی لگائی جاتی تھا اور ہر خاص و عام
کو اجازت تھی کہ وہ اس پھانسی کے منظر کو دیکھ سکتا تھا اسکو تماشا سمجھ کر
عوام الناس کا سیلاب امڈ آتا تھا ۔لوگ تماش بین بن کر جمع ہوتے تھے اور
تماشا دیکھنے میں اس قدر مستغرق ہوتے تھے کہ اس جم غفیر میں بیسیوں کی
جیبیں کٹ جاتی تھیں۔۔اہل تماشا خود تماشا بن جاتے تھے۔جس برائی کا سدباب
کیا جا رہا ہوتا وہ خود اسی برائی کو پروان چڑھانے کا موجب بنتا۔
سکولز تو پنجاب ایجوکیشن کی تحویل میں آگئے مگر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ
جس کو سکول مل گیا ہے کیا وہ نونہلان چمن کی آبیاری کی صلاحیت رکھتے ہیں یا
پھر اپنی تجوریاں بھریں گے۔تعلیم خدمت ہے کاروبار نہیں۔۔مگر کچھ نام نہاد
افراد نے اسے کامیاب ترین کاروبار کی صف اول میں لا کھڑا کیا ہے۔پنجاب
ایجوکیشن کی تعلیمی سر گرمیوں کو اگر جانچا جائے تو قارئین ندامت ہوتی
ہے۔نہ اسلامیات کا نہ عربی نہ معاشرتی علوم اور نا ہی تاریخ پاکستان کا
مضمون شامل ہے ایسا پڑھا لکھا پنجاب ہمارے لیے اور ہمارے طلبا کے لیے اس
مثل کے مصداق ہے کہ گنجی کیا دھوئے اور کیا نچوڑے۔خادم اعلیٰ کو بہت کچھ
سوجھا آج ان معماران قوم کو کھوٹے سکے سمجھ کر زبردستی ملازمت سے سبکدوش
کرنے کی باتیں اور منصوبہ سازیاں مگر کوئی ان سے پوچھے کہ آج جو ادارے
سرگرم عمل ہیں ان میں بیٹھے کارکن ان پڑھ ہیں اگر ان پڑھ نہیں تو ان کو بھی
انہی کھوٹے سکوں نے اس قابل بنایا ہے ۔اس ریاست کے قیام سے لیکر نصف صدی سے
بھی زیادہ کا وقت بیت گیا یہ معلمین ملک و قوم کی تعمیر کرتے رہے مگر آج
وہی عمارت جسکو آسمان کی بلندیوں تک پہنچایا وہ ان پر گرائی جائے تو ان کے
معاشی قتل کے ساتھ ساتھ ظلم کی تاریخ رقم کرنے کے مترادف ہوگا۔ان معلمین
میں اگر کوئی کمی کسر تو اس کا حل ہر گز یہ نہیں کہ ان کو ملازمتوں سے
برطرف کر دیا جائے بلکہ ان کو تربیتی ورکشاپ ،ریفریشر کورسز کے ذریعے طریقہ
تدریس سے روشناس کرائیں ۔کسی کا رزق تنگ کرنا اچھے حکمران کا وطیرہ نہیں ہے
۔حضرت عمرؓ کا قول ہے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھوکا پیاسا مر
جائے تو میں عمرؓ اسکا جواب دہ ہوں مگر یہاں کسی سے جبری استعفے لینے کی
مہم جاری تو کسی کو اس قدر زک اٹھا کر جانا پڑ رہا ہے۔ہماری انگلی جب بھی
کسی پر اٹھی تو ہم اس بات پر کبھی دھیان نہیں دیا کہ باقی چار انگلیاں
ہماری خود کی گریبان چاک کر رہی ہوتی ہیں۔افراد کو ٹھیک کرنے کی بجائے اپنا
قبلہ ٹھیک کرنا لازم ہے۔تاجر کبھی حکمراں نہیں ہو سکتا اس کی مثال خلیفہ
اول حضرت ابوبکرؓ کی خلافت سے لے لیں ۔۔۔آپؓ کا کپڑے کا کاروبار تھا خلافت
میں آتے ہی کاروبار ترک کر دیا۔۔اک حکایت پر راقم خامہ فرسائی کو اختتام
پزیر کرتا ہے۔
ایک سال مصر میں بارش نہ ہوئی اور ملک میں قحط پڑ گیا لوگوں بہت گریہ و
زاری کی لیکن آسمان سے ایک بوند نہ ٹپکی۔ایک شخص حضرت ذوالنوں مصری کی خدمت
میں آیااور ان سے درخواست کی کہ بارش کے لیئے دعا کریں اﷲ تعالیٰ اپنے
محبوب بندوں کی دعا رد نہیں کرتا۔
حضرت ذوالنون نے یہ بات سنی تو اپنا بستر بوریا باندھ کر مدین مدینہ کی طرف
چلے گئے۔ان کے جانے کے بعد اس زور سے مینہ برسا کہ جل تھل ایک ہو گئے۔پندرہ
بیس دن بعد جب حضرت کو مدین میں خبر ملی کہ سیاہ دل بادل کو آخر مصر کے
لوگوں پر رحم آگیا اور ان کی مصیبت پر رو دیا ۔یہ خبر پا کر وہ مصر تشریف
لے آئے۔ایک مرد خدا نے ان سے پوچھا کہ،،، آپ کے مصر سے چلے جانے میں کیا
مصلحت تھیـ․ـــــ،،،انھوں نے جواب دیا کہ میں نے سنا ہے کہ،،بعض دفعہ اچھوں
کا رزق بروں کی وجہ سے بند ہو جاتا ہے۔میں نے اس ہولناک خشک سالی پر غور
کیا ۔اور اپنے سے زیادہ اس ملک میں کسی کو گنہگار نہ دیکھا ۔چنانچہ میں
یہاں سے بھاگ گیا ۔تاکہ میری وجہ سے لوگوں پر خیر کا دروازہ بند نہ ہو
جائے۔،،،، |