عربی کے لئے کام کی ضرورت
(Dr shaikh wali khan almuzaffar, Karachi)
مؤرخہ 20 اپریل 2016ء کو جامعہ کراچی
کے شعبہ عربی کی سیمینار لائبریری میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عاصف سلیم کے
زیرنگرانی ایک پروگرام منعقد کیا گیا، جس کا مقصد ملک میں عربی زبان کی
اہمیت اجاگر کرنے اور اس کے فروغ کے لیے لائحہ عمل طے کرنا تھا، پروگرام کی
صدارت کی سعادت راقم الحروف کے حصے میں آئی، دیگر نمایاں شرکاء میں ڈاکٹر
عبدالرحمٰن یوسف (وفاقی اردو یونی ورسٹی)، ڈاکٹر شاہ فیض الابرار صدیقی
(جامعہ ابو بکر)، شيخ غلام مصطفى (پروفیسر گورنمنٹ کالج)، شیخ یوسف القمر
(پاکستان عربک اوپن یونی ورسٹی)، محمد منظر الباری (شعبہ عربی)، عبداللہ
یوسف (سوسائٹی فار پروموشن آف عربک)، عبدالرحمٰن صدیقی (العربیہ ڈاٹ نیٹ
،اردو)جبکہ شیخ زاہد عبدالشاہد (سربراہ جمعیہ عشاق العربیہ) نے بطور مہمان
خصوصی شرکت کی۔ مقررین نے عربی زبان کی نشر و اشاعت کے میدان میں اپنے
تجربات، افکار اور عربی زبان کے اساتذہ کو درپیش مشکلات اور ان کے حل پر
روشنی ڈالی۔ اس دوران ملک میں عربی زبان کے فروغ کے لیے اہم تجاویز بھی پیش
کی گئیں، جن میں عربی کو ملک کی تیسری سرکاری زبان کا درجہ دلوانے کے لیے
پٹیشن پر دستخط کی عوامی مہم، عربی سیکھنے کے خواہش مند افراد کے لیے مختصر
مدتی کورسز،آن لائن سپوکن دورے، ایف ایم چینل ، ویب ٹی وی کا قیام اور
دینی مدارس اور عصری جامعات کے درمیان مشترکہ پروگرام کا اجرا شامل ہیں،
ساتھ ہی اس بات پر بھی اتفاق رائے ہوا کہ ملک میں عربی زبان کو پھیلانے کی
کوششوں کو مربوط اور منظم کرنے کے لیے ہر تین ماہ بعد اس نوعیت کے پروگرام
کا انعقاد کیا جائے، تقریب کے اختتام پر تمام شرکاء نے پروگرام کے منتظم
شعبہ عربی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عاصف سلیم کو کامیاب پروگرام کے انعقاد
اور گذشتہ دنوں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حصول پر مبارک باد پیش کی۔
اس موقع پرراقم نے جو گزارشات پیش کیں ،ان میں سے صرف ایک مگر قدرے طویل
اقتباس علامہ بنوری رحمۃ اﷲ علیہ کا قارئین کے لئےپیش خدمت ہے:
’’اسلام اور عربی زبان کا جو باہمی محکم رشتہ ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ اسلام
کا قانون عربی زبان میں ہے۔ اسلام کا آسمانی صحیفہ۔ قرآن حکیم۔ عربی زبان
میں ہے۔ اسلام کے پیغمبر خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
وآلہ وسلم کی زبان عربی ہے۔ حضرت رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تمام
تر تعلیمات، ہدایات اور ارشادات کا پورا ذخیرہ عربی زبان میں ہے۔
اسلام کی اہم ترین عبادت صلوۃ (نماز) جس کو روئے زمین کے تمام مسلمان اپنے
اپنے ملکوں میں روزانہ پانچ وقت پڑھتے ہیں وہ عربی زبان میں ہے۔ یہ نماز ہی
توحید اسلام کا اعلیٰ ترین مظہر اور دین اسلام کی بنیادی عبادت ہے۔ پھر
ہفتہ واری اسلام کا پیغام۔ جمعہ کا خطبہ۔ عربی زبان میں ہے۔ سال میں دو
مرتبہ عمومی و اجتماعی پیغام۔ عیدالفطر اور عیدالاضحی کا خطبہ۔ تمام دنیا
میں عربی زبان میں پڑھا جاتا ہے۔
حضرت خاتم الانبیاء صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے امت کی رہنمائی کے لیے
جو عجیب و غریب اذکار ودعائیں صبح سے شام تک ہر محل اور ہر موقع اور ہر کام
کے لیے تلقین فرمائی ہیں، عبدومعبود کے درمیان تعلق و رابطہ پیدا کرنے یا
اس رشتہ کو مضبوط کرنے کے لیے جن سے زیادہ موثر اور کوئی تدبیر نہیں ہے وہ
سب عربی میں ہیں۔بارگاہ قدس رب العالمین اور تجلیات الہیہ کا سرچشمہ جس
سرزمین میں واقع ہے مکہ مکرمہ زادہا اﷲ تعالیٰ شرفا وتعظیما وتکریما
ومہابۃً ۔وہ عرب ہے اور وہاں کے باشندوں کی زبان عربی ہے۔
سیدالکونین رسول الثقلین حضرت رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی
اقامت گاہ اور دارالہجرت جس سرزمین مقدس میں واقع ہے۔ مدینہ منورہ زادہا اﷲ
تعالیٰ نورا وطیبا ً۔وہ عرب ہے اور اس کے بسنے والوں کی زبان بھی عربی ہے۔
مکہ معظمہ جس طرح عدنانی عرب کا مرکز تھااسی طرح ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ
قحطانی عرب کا مرکز بن گیا اور ان دونوں مرکزوں کی زبان اور تہذیب عہد قدیم
سے آج تک عربی ہے۔ دونوں قوموں عدنانی اور قحطانی عربوں کا سرمایہ تاریخ و
ادب عربی زبان میں ہے۔ قرآن کریم اور اسلام کے پہلے مخاطب جزیرۃ العرب میں
بسنے والی پوری آبادی عرب ہے۔ جزیرۃ العرب سے باہر اسلام کے دو اہم ترین
مرکز عراق و شام ہیں۔ دونوں ملک عربی زبان اور تہذیب کا گہوارہ تھے اور
ہیں۔
مصر، لیبیا، سوڈان، مغربی افریقہ، الجزائر، تیونس اور مراکش وغیرہ سب عربی
بولنے والوں کے مرکزی مقامات ہیں اور شمالی افریقہ کی اکثریت کی زبان بھی
عربی یا بگڑی ہوئی عربی ہے۔ صحابہ کرامؓ اور تابعین عظام کے زمرہ میں شامل
عرب فاتحین جو اسلامی فتوحات کے سلسلہ میں سندھ و ہند، افغانستان و بخارا
سے لے کر اسپین تک نہ صرف پھیل گئے بلکہ ان ملکوں میں بس بھی گئے تھے ان کے
ذریعہ ان ملکوں میں بھی عربی زبان پہنچ گئی تھی چونکہ ان ملکوں کے تمام
مسلمان قوموں کا دینی سرمایہ عربی زبان میں تھا اس لیے ان ملکوں کی بھی
دینی اور مذہبی زبان عربی بن گئی۔
چنانچہ نہ صرف یہ کہ ان ممالک اسلامیہ میں لائق فخر عربی داں پیدا ہوئے
بلکہ عجمی ممالک کے ان مراکز سے بھی عربی کے وہ مایہ ناز ماہرین وموجدین
علوم و فنون پیدا ہوئے جن کی نظیر کا دنیا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ ان ہی
عجمی علماء کی بدولت عربی علوم میں صرف و نحو، معانی بیان، بدیع، لغت عربی
،رسم الخط، علم الاشتقاق، عروض و قافیہ اور شعرو ادب اوردیگر اسلامی علوم
زندہ وتابندہ ہیں۔ تفسیر و اصول، تفسیر حدیث و اصول حدیث، فقہ و اصول فقہ،
عقائد و توحید، کلام اور آلیہ علوم۔ منطق، فلسفہ ہیئت ریاضی وغیرہ علوم کا
سارا ذخیرہ عربی زبان میں ڈھل گیا۔ اور نہ صرف یہ، بلکہ عربی زبان کے حقائق
فقہ و لغت کی باریکیاں اور حیرت انگیز لسانی خصوصیات عربی تلفظ کی صحت و
سہولت کے قواعد و ضوابط اور لسانی حسن و جمال کی نیرنگیاں وغیرہ وہ علمی
سرمائے ہیں کہ عربی کے علاوہ دنیا کی اور دوسری زبانوں میں ان کا پتہ تک
نہیں ہے۔
الغرض دینی علوم ہوں یا اسلامی تاریخ، وحی الہٰی کا منبع ہوں یا تعلیم و
تربیت نبویؐ کا سرچشمہ ،اتحاد اسلامی کا عظیم مقصد ہو یا بین المملکتی
سیاسی مفاد و مصالح ہر لحاظ سے اور ہر حیثیت سے عربی زبان کی اہمیت سے
انکار جنون کے مرادف ہے۔
عصرحاضر میں بھی صحرائے عرب میں جزیرۃ العرب کے اندر اور جزیرۃ العرب کے
باہر اﷲ تعالیٰ کی قدرت و مشیت سے جو زرسیّال، پیٹرول اور دوسرے معادن کے
ابلتے ہوئے چشمے نمودار ہوگئے ہیں انھوں نے ان بادیہ نشینوں اور خانہ
بدوشوں عرب اقوام کی عزت و مجد اور عظمت و ثروت کے اس اعلیٰ مقام پر
پہنچادیا ہے کہ آج روس و امریکہ فرانس و برطانیہ جیسے اعداء اسلام بھی اپنے
اقتصادی وسیاسی مفاد ومصالح کی خاطر ان بدویوں کی خوشامد پر اس کے لیے عربی
زبان سیکھنے اور بولنے پر مجبور ہوگئے ہیں اسی لیے تمام یورپین ممالک کے
لیے عربی زبان و ادب کی درسگاہیں کھولنا اور ان کو فروغ دینا ناگزیر ہوگیا
ہے(عراق کی موجودہ اور سابقہ جنگیں بھی اسی زرسیّال ہی کے لیے ہیں)۔
کویت کا صحرا آج وہ دولت و ثروت اُگل رہا ہے جس کی بدولت انگلستان کی باغ و
بہار قائم ہے۔ اگر آج کویت کی دولت انگلستان کے بینکوں سے نکال لی جائے تو
برطانیہ کا دیوالیہ نکل جائے۔ غرض جس طرح عہد ماضی میں روحانی ہدایت کے
سرچشمے صحرائے عرب سے پھوٹے آج بالکل اسی طرح مادی دولت و ثروت کے سرچشمے
بھی اسی سرزمین سے ابل رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ دین ہو یا دنیا روحانیت ہو یا
مادیت ہر جہت اور حیثیت سے عربی زبان دنیا کی تمام قوموں کے لیے اپنی
غیرمعمولی اہمیت کی بناء پر قابل توجہ بنی ہوئی ہے۔
عربی زبان سیکھنے کے لیے جہاں تک معمولی نوشت و خواند کا تعلق ہے صرف تین
چارماہ کاعرصہ کافی ہے۔ ہاں عربی زبان و ادب کی مہارت اور لسانی علوم و
فنون ، صرف ونحو، معانی بیان و بدیع اور قرآنی اعجاز کے حقائق تک پہنچنا تو
اس کے لیے بیشک عمریں درکار ہیں۔‘‘ (ماہنامہ بینات، محرم ۱۳۸۶ھ)۔ |
|