جوابِ شکوہ....!
(Imran Ahmed Rajput, Hyderabad)
ہمارا پچھلا کالم بعنوان " اسلامی نظریاتی
کونسل کی تجاویز قرآن و سننت کی روشنی میں " جہاں ایک طرف عوامی حلقوں میں
کافی سرہایا گیا وہیں کچھ حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بھی
بنایاگیا۔ہمارا یہ کالم لکھنے کا مقصد صرف اتنا تھا کہ وہ خواتین جنھیں اِن
تجاویز پرتحفظات ہیں انھیں قرآن و سننت کی روشنی میں اس کی اصل روح سے
روشناس کرایا جائے تاکہ اُنکی تشنگی کوکم کیا جاسکے۔ چونکہ یہ ایک مذہبی
کالم تھا جبکہ ہمارے حلقہ احباب میں لوگ ہمیں آزاد اور روشن خیال تصور کرتے
ہیں لہذا آزاد اور روشن خیال حلقوں کا ہماری جانب سے اس طرح کا کالم لکھنا
کسی اچمبے سے کم نہ تھا۔ جبکہ ہماری کوشش یہ تھی کہ ایک ایسا مذہبی کالم
تحریر کریں جو تمام مکتب فکر کے لوگوں کے لئے یکساں طور پر قابلِ قبول
ہو۔یہی وجہ تھی کہ ہم نے قرآن کے ساتھ ساتھ صحیح احادیث اور علماء دین کے
اقوال کے حوالے بھی پیش کئے تاکہ یہ کالم دینی لحاظ سے غیر جانبدارہوکر پیش
کیا جائے۔ لیکن یہاں ایک بات بھول گئے کہ ہمارے معاشرے میں ایک ایسی سوچ
بھی؎ پروان چڑھ رہی ہے جوسیکولر/ لبرل ازم کے نام پر مغربی ذہنیت کا پرچار
چاہتی ہے جو معاشرے میں موجود نوجوان نسل میں تیزی سے پھیلتی ہوئی دکھائی
دیتی ہے۔حالانکہ خود مغرب کے نوجوانوں میں اِس وقت سب سے زیادہ اور تیزی سے
پھیلنے والا ہمارا دین اسلام ہے جبکہ ہمارے یہاں اُسی تیزی کے ساتھ پھیلنے
والا مغربی زہن ہے۔جن کا کہنا ہے کہ برسوں سے مرد عورت پر حکومت کرتا آیا
ہے جس کی بدولت عورت ہمیشہ ظلم و ذیادتی کا شکارہوتی رہی ہے جنھیں نہ مذہب
تحفظ فراہم کرتا ہے اور نہ ریاست بلکہ دونوں مل کرمردوں کو عورت کے استحصال
کا موقع فراہم کرتے آئے ہیں۔ قارئین یہ وہ نعرہ مستانہ ہے جسے سن کر ہمارے
معاشرے کی نئی نسل بالخصوص خواتین نہ صرف معاشرتی بغاوت پر اُترآئی ہیں
بلکہ مذہب سے بے زار اور منحرف ہوتی نظر آتی ہیں۔
اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے معاشرے میں عورت کا جو مقام ہے اور جس
طرح سے اُس کااستحصال ہوتا رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کبھی مذہب کی
آڑ لیکر تو کبھی گھسے پٹے پرانے رسموں رواج لیکر مرد نے ہمیشہ عورت کے
ارمانوں کا خون ہی کیا ہے کبھی باپ بن کر تو کبھی بھائی بن کر تو کبھی شوہر
بن کر مردنے ہمیشہ عورت کی تذلیل کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں سے رواں رکھے
جانے والے سلوک نے عورت کے دل و دماغ پر انتہائی منفی اثرات مرتب کئے جس کی
بدولت عورت کے دل میں مرد کے لئے نفرتوں نے جنم لینا شروع کردیااوراب
صورتحال یہ ہے کہ آج عورت مرد زاد سے اس قدر منحرف ہوچکی ہے کہ اپنے اندر
انتقام کی آگ بھڑکائے بیٹھی ہے۔ آج کی عورت اب برابری کے حقوق نہیں بلکہ
حقوقِ نسواں کے نام پر اتنے حقوق چاہتی ہے کہ وہ مرد زادسے کھل کر صدیوں پر
محیط اپنے اوپر ہونے والے ایک ایک ظلم کا حساب لے سکے جس کی پشت پناہی
مغربی سوچ کے حامل لبرل خیالات کے لوگ کرتے دکھائی دیتے ہیں جوکہ ایک خاص
قسم کی لادینی سوچ کے تحت اس پر کارفرماہیں مغرب کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے
کہ وہ مسلم معاشروں میں تہذیب و تمدن اور اسلامی شعار کوجڑ سے اکھاڑ پھینکے
جس کے لئے ضروری تھا کہ معاشرے میں موجود اُس مظلوم طبقے کی حمایت حاصل کی
جائے جو صدیوں سے مرد کے ہاتھوں ٹشو پیپر بنتی رہی ہے۔ لہذا انھیں استعمال
کرنے کے لئے مادر پدر آزادی کا نعرہ لگاکر انسانیت کے عظیم رشتے میں پھوٹ
ڈالنے کی ہرممکن کوشش کی جارہی ہے۔
مغرب کے اِس دوہرے معیارکااندازہ اِس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اِس
وقت مغرب میں اسلامی شعار کو پھیلانے اور اُسکی آئیڈیالوجی کو اپنانے کی
کھلی آزادی حاصل ہے جہاں اسلام کی آئیڈیالوجی کو اپنا کر دنیا کو مسخر
کیاجارہا ہے۔ جبکہ ہمارے مشرقی معاشرے میں چند مذہبی لبادوں اور ریاستی
ستونوں میں چھپے غداروں سے مرد عورت کے نام پر انسانیت کی تفریق کا گھناؤنا
کھیل کھیلا جارہا ہے کبھی عورت کو اختیارات دینے کی بات کرکے مرد کو
دھمکایا جاتاہے تو کبھی مرد کو اختیارات دیکر عورت کو محکوم بناکر اُس کی
تذلیل کی جاتی ہے۔ سادہ لوح انسان بجائے اِسکے دونوں باہم مل کر حقوقِ
انسانی کی بات کریں آپس میں اُلجھ کر زمینی خداؤں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔
جبکہ ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں عورت کیا مرد کو پوری
طرح اختیارات حاصل نہیں ہیں جہاں اختیارات کی بندربانٹ مغرب کے
زرخریدضمیرفروشوں کے ہاتھوں میں ہے جنھیں حقوقِ نسواں کا پاس ہے نہ حقوقِ
مرداں کا کچھ خیال جب تک معاشرہ ایسے لوگوں کے زیرتسلط رہیگا یہ ہمیں اسی
طرح لڑاتے رہیں گے۔میرا تنقید نگاروں سے صرف اتنا کہنا ہے کہ آپ نے میری
سوچ میرے خیالات کو جس طرح اپنی ذہنیت کے ترازو میں تولہ ہے مجھے اِس کا
زرا برابر غم نہیں کیونکہ آپ کی سوچ کے معیار پر میرا کچھ اختیار نہیں لیکن
میں فکر مند ہوں آپ کی اِس سوچ پر کہ کس طرح وہ معاشرے میں تباہی کا باعث
بن سکتی ہے کس طرح نسلوں میں نفرتوں کے بیج بو سکتی ہے۔ ہم عورت مرد کی
تفریق کے حامی نہیں ہیں ہمارے نزدیک تو دونوں پہلے انسان ہیں بالکل یکساں
برابری کی سطح پر جہاں تک معاشرے میں عورتوں پر ہونے والی ظلم و زیادتی اور
ناانصافی کی بات ہے تو ہم نے معاشرے میں ایسے مردوں کو بھی دیکھا ہے جو
عورتوں کی جہالت اور تنگ نظری کا شکار ہوتے رہے ہیں ایسی عورتوں کو بھی
دیکھا ہے جنھوں نے معاشرے کے معاشرے تباہ کردئیے۔ لیکن اِسکا مطلب یہ نہیں
کہ ہم مر د اور عورت کے درمیان تفریق کو ہوا دیں اور اصل حقائق سے آنکھیں
موند کر ایک دوسرے کو کوستے رہیں یا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں
میں جتے رہیں۔یقین جانیئے ہم نے کبھی عورت کے بنیادی حقوق کی مخالفت نہیں
کی بلکہ ہمارا تو کہنا ہے کہ صرف بنیادی حقوق ہی کیوں تمام انسانی حقوق
ملنے چاہئیں لیکن تمام انسانوں کو جس میں مرد عورت دونوں شامل ہیں۔ |
|