سوتیلی عورتیں
(Rana Tabassum Pasha(Daur), Dallas, USA)
دین کے ٹھیکیدار ہونے کے دعویدار
کبھی ایسے ٹی وی ٹاک شوز کا بائیکاٹ نہیں کرتے بلکہ ان میں بصد شوق شریک
ہوتے ہیں جن کی میزبانی ایک ننگے سر بنی ٹھنی اور مردانہ وار بولتی ہوئی
دبنگ ٹائپ عورت کر رہی ہوتی ہے اور ایسی ہی کوئی مردمار قسم کی عورت شرکاء
میں بھی شامل ہوتی ہے ۔ عورت یقیناً ایک فسادی اور فاترالعقل مخلوق ہے اور
اسی وجہ سے نیا جانور، غلام اور عورت کو گھر لانے پر تینوں قسم کی مخلوقات
کے لئے ایک ہی دعا ہے جس میں اس کے شر سے بچنے کا ذکر ہے اور یہ بات ریکارڈ
پر موجود ہے کہ جب بھی کوئی ملا ایسی کسی عورت کے منہ لگا ہے تو اس نے منہ
ہی کی کھائی ہے ۔اسکی شین اتارنے کے شوقین جاہل وحشی ملا کے ہاں کی بچیاں
اگر اسکول پڑھنے جائیں تو ان کے ایمان کو خطرہ ہوتا ہے مگر یہی بچیاں جب
کمر پر تھیلا لٹکائے کچرا چنیں تو ان بےغیرتوں کے اسلام کو کوئی خطرہ نہیں
ہوتا ۔ انکے ہوتے ہوئے ایسا ہوتا رہا ہے انہیں ڈوب کے مر جانا چاہیئے ۔ یہ
کس منہ سے عورت کو عورت بن کےرہنا سکھا رہے ہیں ۔
سارے لبرلوں سیکیولروں اور عورت کو اپنے پیر کی جوتی سمجھنے والے چماروں کو
اپنےجوتے کی نوک پر رکھنے والی ٹریکٹر ٹرالیوں کو بھاڑ میں ڈالو ۔ قراٰن و
سنت سے اپنی مرضی کے مطلب نکالنے والے اور عوام کو قتال و جدال کی پٹیاں
پڑھا کر انکے بچوں کوسڑکوں پر لانے والے انہیں سیدھے جنت میں جانے کا
جھانسہ دے کر جہاد پر بھیجنے والے اور خود اپنے بچوں کو اپنے فتووں سے
کوسوں پرے رکھنے والے اپنی عورتوں کو تعلیم اور ووٹ کے حق سے محروم رکھنے
والے انہیں پیٹنے کے طریقے متعارف کرانے والے اور خود اپنی عورتوں کے بیمار
پڑنے پر کسی لیڈی ڈاکٹر کے آگے دم ہلانے والے پرلے درجے کے منافق حلوہ خور
پیٹو ملا کبھی ان عورتوں کی بات نہیں کرتے جو کھیتوں میں کام کرتی ہیں
فصلوں کی کٹائی اور چنائی میں حصہ لیتی ہیں مویشی چراتی ہیں کنؤیں یا چشمے
سے پانی بھر کر لاتی ہیں لکڑیاں کاٹتی ہیں اینٹوں کے بھٹے پر بیگار بھرتی
ہیں ۔ محنت مزدوری اور جفاکشی میں مردوں کے شانہ بشانہ چلتی ہیں ۔ یہاں
عورت جو مرد کی برابری کر رہی ہے اس پر ان فتویٰ سازوں کو قطعی کوئی اعتراض
نہیں ہے ۔ ان کو ساری تکلیف ہے پڑھی لکھی معاشی طور سے مستحکم پراعتماد خود
کفیل اور مرد کی بالا دستی سے آزاد عورتوں سے ۔
کم از کم ایک دیہی عورت تو ہرگز بھی اپنی مرضی یا خوشی سے مرد نہیں بنی
ہوئی ۔ لہٰذا ضرورت اسے اس مقام عالیہ تک پہنچانے والے تمام ذمہ داروں کو
لگام ڈالنے کی ہے ۔ مگر عورت جیسی حقیر و ناچیز مخلوق کے وجود سے جنم لینے
والے پرفیکٹ مرد یہ بدزبان جاہل نام نہاد مولانا کبھی اپنے گریبان میں منہ
ڈال کر نہیں دیکھتے انہیں عورتوں کے اندر پڑے ہوئے کیڑوں کو چننے سے فرصت
ملے تو کچھ بات بنے ۔
سب سے پہلے تو اسلامی نظریاتی کونسل کو ختم کرنے کی ضررت ہے جو کہ بے عمل
اور منافق افراد پر مشتمل ایک بے مصرف ادارہ ہے اور قومی خزانے پر ایک بوجھ
کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے ۔ اس کونسل میں بیٹھے ہوئے سفید ہاتھیوں ہی کی
تعلیمات و ترغیبات ہیں کہ سارا جرم صرف عورت کے سر ڈال کر اور قانون کو
اپنے گھر کی لونڈی سمجھتے ہوئے، اسے بہیمانہ سزائیں دی جاتی ہیں ۔ وہ کمتر
ہے ناقص العقل ہے اسکی گواہی آدھی ہے مگر سزا مرد کے مقابلے میں آدھی نہیں
ہوتی سزا اسے پوری ملتی ہے اور زیادہ تر تو اسے صفائی کا موقع بھی نہیں دیا
جاتا اکثر ہی وہ بیگناہ ہی ماری جاتی ہے ۔ اسی تعداد میں مرد کو دی جانے
والی سزاؤں کے واقعات اور انکے ثبوت منظر عام پر کیوں نہیں آتے؟ جبکہ وہ
مبینہ جرم میں برابر کا شریک ہوتا ہے ۔ کیا مقصد صرف عورت ہی کی تذلیل کی
تشہیر کا ہوتا ہے؟ اسی طرح قانون و شریعت دونوں کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے
شوہروں کو بیویوں پر ہاتھ اٹھانے بلکہ محض ہڈی نہ ٹوٹنے کی حد تک پیٹنے کا
اختیار دیتے ہوئے خود ان کے لئے بھی کسی اہلیت اور معیار کا تعین کیا گیا؟
جبکہ عورتوں کے ساتھ مار پیٹ گالی گلوچ کا رجحان زیادہ تر نچلے پسماندہ اور
نیم یا ناخواندہ طبقے میں پایا جاتا ہے ۔ اور اسی طبقے سے تعلق رکھنے والے
اکثر ہی مرد بیویوں کے گھر کی کفالت میں برابر کی حصہ دار اور کہیں تو انکے
واحد کفیل ہونے کے باوجود انہیں کسی کیڑی مکوڑی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے ۔
قراٰن کی رو سے مرد عورتوں پر قوام ہیں کیونکہ وہ ان پر مال خرچ کرتے ہیں ۔
تو یہ حاکمیت یا بالادستی مشروط ہوئی ۔ وہ مرد عورتوں پر حاکم یا انکا
سہارا کیسے ہو سکتے ہیں جو ان پر مال خرچ نہیں کرتے ۔ اسی طرح جو حدیث ﷺ ہے
کہ اگر خدا کے علاوہ کسی کو سجدہ جائز ہوتا تو بیویوں کو اپنے شوہر کو سجدہ
کرنے کا حکم ہوتا ۔ تو ظاہر ہے کہ یہ حکم نیک صالح ذمہ دار مردوں کے بارے
میں ہوتا نہ کہ کم کردار ناکارہ مردوں کے بارے میں ۔ دینی شخصیات کہلانے
والوں کی جانب سے مسلسل مضحکہ خیز اور غیر ذمہ دارانہ بیانات نے دین کو
لینے کے دینے پڑ جانے پر لگا دیا ہے ۔ |
|