ہم کہاں کھڑے ہیں؟
(Talib Ali Awan, Sialkot)
دیگر اقوام عالم کی تعمیر وترقی کا موازنہ
اگر وطنِ عزیزسے کیا جائے تو ہم دنیا کے بیشتر ممالک سے بہت حد تک پیچھے
ہیں اور اگر اس پسماندگی کی وجوہات تلاش کی جائیں تو یہ بات کھل کر سامنے
آئے گی کہ ہمارے پیچھے رہ جانے کے ذمہ داروطنِ عزیز کے حکمرانوں کے ساتھ
ساتھ ہم خودبھی ہیں۔جن احکامات کا پرچار ہمارا دینِ کامل کر رہا ہے انہیں
دوسرے مذاہب نے اپنا کر بھر پور استفادہ کیا جبکہ ہم تعلیمات ِاسلامی سے
کنارہ کشی کی بدولت ذلیل وخوار ہو رہے ہیں اور جگ ہنسائی کا با عث بنے ہوئے
ہیں ۔ہم لوگ ہی جب بیرونِ ملک جاتے ہیں تو ان ممالک کے قوانین کا احترام
اور پاسداری کرتے ہیں کیونکہ وہاں کے لوگ خود قانون پر عمل کر کے دوسروں کے
لیے مشعل ِراہ کا کام کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ہر چیز ہی اس کے برعکس
ہے۔یہاں ہم اپنے گھروں کو صاف کرنے کے بعد کوڑا کرکٹ گلی یا سڑک پر پھینک
دیتے ہیں ،جہاں لکھا ہو گا ’’یہاں اشتہار لگانا منع ہے‘‘وہاں اشتہارات کی
بھر مار ہو گی،ہم لوگ ذاتی مکان پر لاکھوں خرچ کر دیتے ہیں مگر رفاعِ عامہ
کی مد میں گلی یا سڑک پر چند ہزار نہیں لگا سکتے ،پارکوں اور تفریحی مقامات
پرہم کچرا کوڑا دانوں میں پھینکنے کی بجائے جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر لگادیتے
ہیں ،سرکاری دفاتر میں بے چارہ غریب سارا دن قطار میں لگا رہتا ہے جبکہ با
اثر اور مُٹھی گرم کرنے والامنٹوں میں فارغ ہو جاتا ہے،غلطی یا برائی کرنے
پر ندامت کی بجائے ہم لوگ فخر محسوس کرتے ہیں،ہڑتال،احتجاج اور مظاہروں میں
پُرامن رہنے کی بجائے ہم قومی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں،سگنل پر
ہم چند سیکنڈ انتظار تک نہیں کر سکتے ہیں اور ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑا
دیتے ہیں۔کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟آج بھی وقت ہے کہ ہم
ماضی سے سبق حاصل کرتے ہوئے،دوسری اقوام سے سبق حاصل کرتے ہوئے پاک سر زمین
کو دوسرے ممالک کے شانہ بشانہ کھڑا کرنے کے لیے اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔ |
|