یہ انعام گھر --یہ قرعہ اندازیاں
(Munir Bin Bashir, Karachi)
محترمہ رئیس فاطمہ اپنے کالم "سالانہ فوڈ
فیسٹیول " مطبوعہ 19 جون 2016 -روزنامہ ایکسپریس کراچی میں ٹیلی ویژن پر
رمضان المبارک میں ہو نے والے انعام گھروں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ
مائیک ہاتھ میں لئے ٹی وی کے میزبان ایک طرف سے دوسری طرف ا چھل کود کرتے
ہوئے جاتے ہیں - ایک سوال کے جواب میں کئی کئی ہاتھ بلند ہوتے ہیں- اللہ کی
پناہ ! جیسے سارا شہر بھکاری بن گیا ہے -لمبے لمبے ہاتھ کر کے لہرائے جاتے
ہیں - میزبان کے کان میں لگا مائیک میزبان کو مسلسل ہدایات دیتا رہتا ہے کہ
کس کو انعام دینا ہے اور کس سے سوال پوچھنا ہے - اس لئے بعض اوقات اشارے
بھی دئے جاتے ہیں کہ وہ صحیح جواب دے دے
اس پر مجھے اپنے ایک کزن کا ایک بیٹا یاد آ گیا
بیس سال پہلے کی بات ہے
میرے ایک کزن کا بیٹا ارسلان ' ایک سامان منتقل (شفٹ ) کر نے والے ادارے
میں ملازم ہو گیا - یہ ملازمت کسی کے ریفرینس سے ملی تھی -
ارسلان اگلے دن نوکری جوائن کرنے پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ اس
کے لئے ایک کمرہ پہلے سے ہی صاف ستھرا کر کے نام کی تختی دروازے پرآویزاں
کر دی گئی تھی نیز میز پر اس کے نام کے وزٹنگ کارڈ بھی پہلے سے چھاپ کر دو
پیکٹوں میں رکھ دئے گئے تھے -
خیر ملازمت کا آغاز ہوا - مختلف امور دیکھتے ہوئے وقت کا پتہ ہی نہیں چلا -
اس دوران درمیان میں کسی گھر میں بھی جا کر کام کا جائزہ لینے کو کہا گیا
تھا - اس گھر کے رہائشی کسی دوسری جگہ منتقل ہو رہے تھے اور انہوں نے اپنا
سامان شفٹ کر نے کے لئے اس ادارے کی خدمات حاصل کی تھیں - اس طرح کے کام
کرتے کرتے شام ہو گئی اور چھٹی کا وقت ہونے میں تقریباً آدھا گھنٹہ رہ گیا
-
کمپنی کے مالک نے ارسلان کو بلایا اور اس روز کے کام کاج کے بارے میں ضمناً
تبصرے کئے - اس کے بعد اپنے اصل موضوع پر آیا - ارسلان سے اس کے ماموں کا
تذکرہ کیا - جو ایک بہت ہی بڑی ملٹی نیشنل فرم میں ڈائرکٹر کے عہدے پر کام
کر رہے تھے - کہا تمہیں یہاں ملازمت دینے کا مقصد یہ ہے کہ اپنے ماموں سے
ہمیں کچھ ٹھیکے دلاؤ
ارسلان حیران رہ گیا - اس نے کہا " سر !اگر آپ کو اپنے ماموں سے ٹھیکے
دلانے ہوتے تو میں کہہ کر ان ہی کے ادارے میں ملازم نہ ہو جاتا ---یہ کام
نہیں ہو سکتا"
کچھ نرم گرم باتیں ہوئیں اور ارسلان نوکری چھوڑ کر نکل آیا-
نکلتے نکلتے اس نے اپنے وزٹنگ کارڈ کے دو پیکٹ ایسی ہی خالی الذہنی کی حالت
میں اٹھا لئے - ان پیکٹوں میں سو کے قریب کارڈ تھے - آفس کی عمارت کے باہر
آکر ارسلان سوچنے لگا اب کیا کروں - ذہن میں تھوڑی سی تلخی اب تک تھی -
پہلے سینما جانے کا خیال آیا لیکن اس کا وقت نکل چکاتھا - اچانک اسے یاد
آیا کہ کسی مقامی ہوٹل میں ایک ادارے کی طرف سے کوئی تقریب ہو رہی ہے -
اپنا وقت کاٹنے کے لئے ارسلان وہاں چلا گیا - وہاں اس ادارے کی سالگرہ
منائی جارہی تھی - اسٹیج پر مختلف عہدوں کے ملازمین آکر ادارے کی مدح خوانی
کر رہے تھے - کچھ ملازمین چیف ایزیکیٹیو کی محنت اور ایمانداری کا تذکرہ کر
رہے تھے - پھر اسٹیج سیکرٹری آئے - ہنستے مسکراتے لہجے میں ایک دو باتیں
کیں اور اعلان کیا کہ اپنے وز ٹنگ کارڈ ایک ڈبے میں ڈالدیں - لکی ڈرا ہو گی
- قرعہ اندازی کی جائے گی - خوش نصیب افراد کو انعامات دئے جائیں گے -
ارسلان کو اچانک اپنے وزٹنگ کارڈ یاد آگئے - وہ اب اس کے لئے بے کار تھے -
دماغ میں طرح طرح کے خیالات گڈ مڈ ہو رہے تھے - انہی منتشر خیالات کے ساتھ
ارسلان نے اپنے کارڈ ایک ایک کر کے اس قرعہ اندازی کے ڈبے میں ڈال دئے - یہ
فعل صحیح تھا یا غلط ‘ ، اس وقت کچھ دماغ کچھ نہیں سوچ رہا تھا- البتہ
ارسلان نے اندازہ لگایا کہ حاضرین نے اس لکی ڈرا کی جانب زیادہ توجہ نہیں
دی -
ایک گھنٹے بعد وہ ڈبہ حاضرین کے سامنے لایا گیا - - قرعہ اندازی شروع ہونے
والی تھی - اب مائیک ادارے کے کسی اہل کار نے سنبھال لیا تھا - موسیقی اپنے
پورے عروج پر تھی - اسٹیج پر رنگ برنگی روشنیاں جل بجھ رہی تھیں - قرعہ
اندازی کے ڈبے کو خوب ہلایا گیا اور ایک کارڈ نکالا گیا - کارڈ نکالنے والے
کی زور دار آواز بلند ہوئی اس کے ساتھ ہی موسیقی کی ایک دھماکہ دار
آوازگونجی "یہ رہا پہلا انعام " کسی سرکاری ادارے کے ایک افسر کا نام مع
عہدے کے پکارا گیا - ارسلان حیران رہ گیا - ا رسلان نے دیکھا تھا کہ اعلان
کر نے والے کے ہاتھ میں کارڈ اس کا تھا اور نام کسی اور کا پکارا جارہاتھا
- ارسلان اس وقت ایک عجیب کیفیت میں تھا - اس لئے اسے یہ بات باعث حیرت
نہیں لگی نہ ہی اسے محسوس ہوا کہ اس کے ساتھ کوئی زیادتی کی جارہی ہے -وہ
سوچ رہا تھا کہ سارے کارڈ ڈالکر اس نے بھی تو کوئی احسن کام نہیں کیا تھا
-البتہ اسٹیج پر جو ناٹک کیا رچایا جا رہا تھا وہ کچھ بھی نہیں تھا بلکہ
خباثت ایک نئے روپ میں جلوہ گر تھی - ارسلان کے چہرے پر کوئی تاثرات نہیں
تھے -اسے تو اس وقت ماضی کا پسندیدہ گانا بھی یاد نہیں آیا جو ایسی صورت
حال میں اس کے منہ سے بے ساختہ نکل جایا کرتا تھا
جانے کیسا سفر ہے میرا ------ جہاں ہے منزل وہیں لٹیرا
کئی سال گزر گئے - ارسلان دوبئی جا کر سیٹ ہو گیا - شادی بھی ہوگئی -
ایک مرتبہ پاکستان آیا تو پکنک کے لئے سسرال والوں کے ساتھ کسی فارم ہاؤس
گیا - وہاں سسر کے خالو زاد بھائی بھی آئے ہوئے تھے - دوپہر کے وقت مختلف
ٹولیوں میں لوگ ادھر ادھر بیٹھے ہوئے تھے - کچھ والدین بچوں کے ساتھ ساتھ
لگے ہوئے تھے کہ بچے کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کردیں - بچے سب سے بے پرواہ
ادھر ادھر بھاگتے پھر رہے تھے - کیلوں کے جھنڈ کے پاس سسر اور کچھ دوسرے
خاندان کے افراد بیٹھے ہوئے تھے -ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی - ارسلان بھی
وہاں جا بیٹھا - ادہر ادہر کی ہلکی پھلکی باتیں ہو رہی تھیں - اس طرح کے
انعامات کی تقسیم کی بات بھی آئی - ارسلان نے ایسے ہی اپنے اس واقعے کا
تذکرہ کر دیا -
سسر کے خالہ زاد بھائی ایک دم چونک گئے -
ایک دم مختلف سوالات کئے - کہاں ہوا تھا وہ فنکشن ؟- کس نے کرایا تھا فنکشن
وغیرہ وغیرہ-- پھر کہا کہ ارے ارے اس میں تو میں بھی تھا - مجھےبھی انعام
دیا گیا تھا - حالانکہ میں نے تو اپنا کارڈ بھی نہیں ڈالا تھا -
پتہ چلا کہ سسر کے خالہ زاد بھائی ایسے محکمے میں افسر تھے جہاں اس ادارے
کو ان سے واسطہ پڑتا رہتا تھا - |
|