مواخات مدینہ اور افغان مہاجرین

مکہ والوں کے مظالم اور ہٹ دھرمی سے تنگ آکر الله کے نبی محمدﷺ الله کے حکم پر مدینہ کی طرف ہجرت فرماتے ہیں. آپﷺ سے پہلے آپﷺ کے کافی صحابہ کرام بھی مدینہ کی طرف ہجرت کر چکے تھے. مدینہ میں اس وقت اوس و حزرج کے قبائل آباد تھے جن کی اکثریت مشرف بہ اسلام ہوچکی تھی. آج یہی قبائل محمدﷺ کا والہانہ استقبال کرنے کے لیے جمع تھے. جب آپﷺ مدینہ پہنچے تو آپﷺ نے سب سے پہلے مدینہ کے رہائشیوں، اوس و حزرج کے قبائل اور اسلام کے لیے اپنا سب کچھ چھوڑ کر بے سروسامانی کی کیفیت میں مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والے مہاجرین مکہ کے درمیان وہ عظیم الشان مواخات قائم کروائی جس کی رو سے آج سے پہلے بالکل اجنبی لوگ ایسے بھائی اور قرابت دار بنے کہ ایک انصاری صحابی اپنے مہاجر بھائی کا ہاتھ پکڑتے ہیں اور ان سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ اے میرے بھائی یہ میری جائداد جس کو میں نے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ایک آپ کا دوسرا میرا، یہ میرے دو گھر ایک آپ کا ایک میرا اور پھر اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ میری دو بیویاں ہیں ان میں سے ایک کو ج کو آپ پسند کرو میں اس کو طلاق دیتا ہوں پھر آپ اس سے شادی کر لینا. اور دنیا نے دیکھا کہ یہ قرابت داری جو انصار اور مہاجرین کے درمیان قائم ہوئی اتنی مضبوط اور دیر پا تھی کی دنیا آج تک اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے.

یہ ساری تمہید باندھنے کی ضرورت ہمیں اس لیے پیش آئی کہ پچھلے کچھ دنوں سے وطن عزیز پاکستان میں ایک عجیب سی بازگشت سنائی دے رہی ہے کہ پاکستان کے اندر بسنے والے لاکھوں افغانیوں کو یکبارگی ملک سے نکال کر اپنے ملک کو صاف اور پاک کیا جائے. قارئین میں آپ کو تھوڑا تاریخ میں ماضی کی طرف لے کہ چلتا ہوں جب دنیا پر اکیلے روس کا سکہ چلتا تھا اور پورا یورپ بشمول امریکہ روس کے ڈر سے تھر تھر کانپتے تھے. نیٹو کے بیسیوں ممالک مل کر بھی اس سرخ ریچھ کے بڑھتے قدموں کو روک پانے میں ناکام رہے تھے. پھر وہ کہتے ہیں نا کہ گیڈر کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے. کچھ ایسا ہی حال روس کا بھی ہوا کہ اس کی موت اس کو گرم پانیوں کے لالچ میں افغانستان میں کھینچ لائی. روس کا مقصد افغانستان کے خشک کوہسار نہیں تھے بلکہ اس کی نظریں اپنی بڑھتی ہوئی غذائی اور تجارتی ضروریات کی وجہ سے پاکستان کی زرخیز زمین اور پاکستان کی بیش قیمت گرم پانیوں کی بندر گاہیں تھیں. ساری دنیا سوچ رہی تھی کہ اب پاکستان اور افغانستان دنیا کہ نقشے پر موجود نہیں رہیں گے. وہ روس جس کا پورا یورپ امریکہ کی سربراہی میں مل کر بھی مقابلہ نہیں کر سکا اس کے بڑھتے ہوئے قدموں کو بھوکے ننگے افغان اور بے سروسامان پاکستان کیسے روک سکے گا اور کیونکر یہ اپنا دفاع کر سکیں گے. دنیا سمجھ رہی تھی کہ دو چار دنوں کی بات ہے کہ افغانستان اور پاکستان اجڑے ہوئے گلشن کی طرح روس کے ہاتھوں تاراج ہو چکیں ہوں گے. مگر جب پاکستان نے سوچا کہ ہم نے پاکستان کے دفاع کی جنگ افغانستان میں لڑنی ہے. اور پھر اس کی پلاننگ شروع ہوئی اور پھر دنیا اس وقت حیران اور ششدر رہ گئی جب روس کے ٹینکوں، بکتر بند گاڑیوں دنیا کی بہترین ٹیکنالوجی کے مقابلے میں نہتے افغانی توڑے دار بندوقوں اور بچے کھچے سامان جو اسلام آباد سے مل رہا تھا اس کے ساتھ روس کے دانت کھٹے کر رہے ہیں. پھر دنیا نے وہ وقت بھی دیکھا کہ افغانیوں نے پاکستان کی معمولی سی مدد کے ساتھ لازوال قربانیاں دیتے ہوئے پاکستان کے دفاع کی جنگ اپنے گھروں میں لڑ کر روس کو شکست فاش دی. یہ افغانستان اور جفاکش افغانیوں کا اہل پاکستان کے اوپر وہ احسان ہے جس کا بدلہ نہیں شاید پاکستان کبھی نہ چکا پائے. شکست روس کے بعد امریکہ دنیا کا ٹھیکدار بننے کی کوشش کرتا ہے. End of History جیسے فلسفے پیش کیے جاتے ہیں کہ اب دنیا پر صرف ایک نظام چلے گا جو امریکہ کا سرمایہ دارانہ نظام ہے. American New World Order جیسے خدائی دعوے کیے جاتے ہیں. مگر جب وہ دیکھتے ہیں کہ یہ پاکستان تو کوئی اور ہی چال چل رہا ہے. یہ تو کچھ اور ہی منصوبہ بندیاں رکھتا ہے، یہ تو دنیا کو کسی اور ہی سمت میں لے کر جانا چاہتا ہے. پاکستان اور افغانستان میں چند با ہمت اور غیرتمند مسلمان امریکہ کے ورلڈ آرڈر کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے اس کو یہ میسج دیتے ہیں کہ ہمارا رب اللَه ہے امریکہ نہیں تو امریکہ اپنی سٹریٹجی تبدیل کرتا ہے End of History کی جگہ Clash of Civilization اور War against Terror جیسی تھیوریز آتی ہیں. پتھر کے دور میں پہنچانے کی دھمکی دے کر آدھی دنیا کو اپنے ساتھ ملا کراسلام کو فریق مخالف بنا کر مسلمان ملکوں پر چڑھائی کی جاتی ہے. نشانہ پاکستان ہے بہانہ افغانستان بنتا ہے اور نتیجتا" افغانستان ایک بار پھر پاکستان کی جنگ اپنی سرزمین پر لڑتا ہے. اس دفعہ پاکستان کی حکمت عملی بھی تبدیل ہوتی ہے. بظاہر افغانیوں سے قطع تعلقی کی جاتی ہے مگر اندرون خانہ افغانستان اور پاکستان دونوں بھائی جان. امریکہ اور اتحادی افغانستان میں کارپٹ بمبنگ کرکے لاکھوں مسلمانوں کو شہید کرتے ہیں. لاکھوں افغانی مسلمان اپنا گھر بار چھوڑ کر اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لے کر اپنے برادر ملک پاکستان کی طرف ہجرت کرتے ہیں. الله تعالی پاکستانیوں کو الله کے نبی محمدﷺ اور ان کے صحابہ کرام کے دور کی یاد تازہ کرنے کا موقع دیتے ہیں اور اہل پاکستان بھی انصار مدینہ کی روایت پر عمل کرتے ہوئے اپنے گھروں اور دلوں کے دروازے اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے کھول دیتے ہیں. پاکستان کے طول و عرض افغانی مسلمان میں پھیل کر محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتے ہیں. دوسری افغانی کوہساروں میں الله رب العزت کی مدد کے ساتھ پاکستان اور افغانستان امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شکست سے دوچار کرتے ہیں. سارے اتحادی دم دبا کر بھاگتے ہیں. اور اب جب ثمر سمیٹنے کا وقت آتا ہے تو دشمن جاتے جاتے آخری وار کے طور پر دلوں میں موجود محبتوں کی جگہ نفرتوں کو پروان چڑھانے کے لیے اپنے پیسے اور مختلف ہتھکنڈوں کا بلا دریغ استعمال کرتے ہیں. پاکستان اور اہل افغانستان کے درمیان دوریاں ڈالنے کے لیے اپنے زرخرید کتوں کے کو استعمال کرتے ہوئے خودکش دھماکے کروا کر ان نفرتوں کو ہوا دی جاتی ہے. دوسری طرف میڈیا میں موجود دیسی لبرلز پر پیسے لگائے جاتے ہیں اور نتیجتا" ہم آج یہ آوازیں سن رہے کہ "ان نمک حرام افغانیوں کو پاکستان سے نکالا جائے". اوہ اہل پاکستان مانا کہ ہم نے اس جنگ میں بہت قربانیں دیں ، اپنے پیاروں کے لاشے اٹھائے اور پاک سرزمین کو لہو لہان ہوتے دیکھا مگر یاد رکھیں کہ اہل افغانستان کی قربانیاں ہم سے کہیں زیادہ ہیں. وہ کابل و قندھار کی بربادی دیکھو، وہ قندوز و غزنی کا تاراج ہونا دیکھو، وہ کارپٹ بمنگ سے تورا بورا کی پہاڑیوں کا سرمہ بننا دیکھو. وہ افغانیوں کے تڑپتے لاشے دیکھو جو تمہارے لاہور و اسلام آباد کی حفاظت کی غرض سے ارض افغان پر تڑپائے گئے. آج تم میں سے چند نا عاقبت اندیش لوگ تمہیں اس اعزاز سے دور کرنا چاہتے جو الله تعالی نے مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دینے کی صورت میں عطا کیا تھا. آج یہ دیسی لبرل جن کی دنیا فیسبک اور ٹویٹر کے لاگ ان سے شروع ہو کر لاگ آؤٹ پر ختم ہو جاتی ہے، آج وہ ہمیں خارجہ پالیسی پڑھانے چلے ہیں. آج یہ موم بتی کمیونٹی آج تیرے میرے پاکستان کی بات کرتی ہے. آج یہ بات کی جاتی ہے کہ ہمیں مولوی اور مجاہد کا نہیں بلکہ قائد کا پاکستان چاہیے. یہ ایسی بات کرتے ہوئے قائد اعظم کے اس فرمان کو بھلا دیتے ہیں کہ جس میں انہوں نے کہا تھا "پاکستان بیس کیمپ ہوگا جہاں سے امت مسلمہ کی پاسبانی کی جائے گی". اور سب سے بڑھ یہ انصار مدینہ اور مہاجرین مکہ کی مواخات کو بھول گئے.

اوہ اہل پاکستان الله ایسے اعزاز ہر کسی کو نہیں دیتا. ایسے گئے گزرے دور میں اپنے انصار ہونے کے اعزاز کو اہمیت دو یہ فضول باتیں اور لایعنی مطالبے چھوڑو. اگر کوئی ایک بندہ مجرم ہے تو اس کی وجہ سے اس کی پوری قوم کو تو مورد الزام تو نہیں ٹھہرایا جاسکتا. اور افغان مہاجرین کو بھی چاہیے کہ وہ پاکستان کی موجودہ صورتحال اور مجبوریوں کا احساس کرتے ہوئے پاکستان کے لیے مذید پریشانیاں کھڑی نا کریں. یہ مملکت خدا داد اسلام کی سرزمین ہے. یہ لا الہ الا اللہ کا دیس پوری دنیا پر لا الہ الا اللہ کو رائج کرنے کے لیے معرض وجود میں آنے والا ملک ہے اس کی قدر کی جائے.
Muhammad Abdullah
About the Author: Muhammad Abdullah Read More Articles by Muhammad Abdullah: 39 Articles with 34220 views Muslim, Pakistani, Student of International Relations, Speaker, Social Worker, First Aid Trainer, Ideological Soldier of Pakistan.. View More