عید کی تیاری
(Khursheed Alam Dawood Qasmi, New Delhi)
عید کی آمد: رمضان المبارک کا آخری
عشرہ چل رہا ہےاور ہم عید سعید اورعید الفطر کی شکل میں جشن رمضان منانے کا
انتظار کررہے ہیں۔ کیا ہی بہتر ہوگا کہ ہم یہ طے کرلیں کہ عید الفطر جیسے
عظیم تہوار کو ہم پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت وہدایت کے
مطابق منائیں گے۔یعنی ہم ایسی عید منائیں گے، جیسی ہمارے پیارے نبی محمد
-صلی اللہ علیہ وسلم- نے منائی اور پھر اسی اعتبار سے ہم عید سعید کی تیاری
کریں!
عید کی رات: رمضان کے ختم ہوتے ہی عید کی رات شروع ہوجاتی ہے۔ حدیث شریف
میں اس کی رات کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ حضرت ابوامامہ-رضی اللہ عنہ-
فرماتے ہیں کہ جو شخص عید کی رات میں ثواب کی نیت سے جاگ کر عبادت کرے، اس
کا دل اس دن مردہ نہیں ہوگا، جس دن لوگوں کے دل مردہ ہوں گے۔ حضرت مجاہد
–رحمہ اللہ- فرماتے ہیں کہ فضیلت کے اعتبار سےفطر کی رات رمضان کے آخری
عشرہ کی راتوں کی طرح ہے۔ اس رات کو "لیلۃ الجائزۃ"یعنی انعام کی رات بھی
کہا جاتا ہے۔ (قیام رمضان لمحمّد بن نصر المروزي، ص: 262)
عید الفطر کا دن: رسول اللہ- صلی اللہ علیہ وسلم- فرماتے ہیں: جب عید الفطر
کا دن ہوتا ہے تو ملائکہ راستے کے کنارے کھڑے ہوجاتے ہیں اور آواز دیتے
ہیں، اے مسلمانوں! اس رب کریم کی طرف چلو جو بہت خیر کی توفیق دیتا ہے اور
اس پر بہت زیادہ ثواب دیتا ہے۔ اے بندو! تمھیں قیام اللیل کا حکم دیا
گيا،لہذاتم نے اسے بجا لایا، تمھیں دن میں روزے کا حکم دیا گيا،تم نے روزے
رکھے اور تم نے اپنے رب کی اطاعت کی؛ لہذا آج تم اپنے انعامات لے لو۔ پھر
جب لوگ نماز سے فارغ ہوجاتے ہیں؛ تو ایک آواز دینے والا آواز دیتا ہے:
تمھارے رب نے تمھاری مغفرت کردی۔ اپنے گھروں کی طرف ہدایت لے کر لوٹ جاؤ۔
یہ یوم جائزہ (انعام کا دن) ہے۔ (الترغیب والترھیب للمنذري، حدیث نمبر:
1659)
عید کے دن کی سنتیں اور مستحبّات: عید کے دن مندرجہ ذیل اعمال مستحب ہیں:
غسل کرنا۔ مسواک کرنا۔مباح عمدہ کپڑے پہننا۔خوشبو لگانا۔ شریعت کے مطابق
اپنی آرائش کرنا۔ صبح سویرے بیدار ہونا؛ تاکہ ضروریات سے فارغ ہوکر، جلدی
عید گاہ پہنچ سکے۔نماز عید الفطر کے لیےجانے سے پہلے کچھ میٹھی چیز کھانا
(جیسےطاق عدد کھجور وغیرہ)۔عید کی نماز کے لیے جانے سے قبل صدقہ فطر ادا
کرنا۔ فجر کی نماز محلہ کی مسجد میں ادا کرنا۔ پیدل عید گاہ جانا۔ عید کی
نماز کے لیے عید گاہ ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا۔ عید
الاضحی میں بھی عید کی طرح ان اعمال کو کیاجائے، مگر عید الاضحی کی نماز سے
پہلے کچھ نہ کھائے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے بڑےبچے کو عید الاضحی کی
نماز سے پہلے کھانے سے منع کرتے تھے؛ بل کہ چھوٹے بچوں کو بھی دودھ پینے سے
روکتے تھے؛ تا آں کہ وہ نماز ادا کرلیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب
عید الفطر کی نماز کے لیے جاتے؛ تو گھر سے نکلتے وقت یہ پڑھتے تھے:
"اللهُمَّ إنّي خَرجتُ إليكَ مخرجَ العبدِ الذَّليلِ". راستے میں آہستہ
(عید الفطر میں اور عید الاضحی میں بلند) آواز سے تکبیر (الله اكبر الله
اكبر لا الہ الا الله والله اكبر الله اكبر ولله الحمد) پڑھتے جانا۔
(تلخیص، از: البنایۃ شرح الھدایۃ: 3/101)
صدقہ فطرکی حقیقت: صدقہ فطر درحقیقت روزہ کے حالت میں جو کچھ لغو و واہیات
کا ارتکاب ہوجاتاہے، اس کی پاکیزگی اور طہارت کے لیے ادا کیا جاتا ہے۔ اسی
طرح صدقہ فطر، غریب و مسکین اور فقیر کو عید کے موقع سے خوشی و مسرت اور
فرحت و سرور میں شریک کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا؛ تو
یہ بھی ممکن ہے کہ اہل دولت و ثروت، عید منائیں اور فقیر و مسکین عید جیسے
خوشی کے دن میں اپنے گھر میں مایوس بیٹھے رہیں۔
مسلمانوں کی غیرت ایمانی کے خلاف ہے کہ خود تو عید کے دن اپنے بچوں کے ساتھ
جشن منائے اور ایک غریب ومفلس مسلمان روپے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے مایوس
بیٹھا رہے اور یاس و ناامیدی میں گھر سے باہر نکلنا بھی گوارہ نہ کرے۔ ایسے
غریب و مسکین اور مفلس بھائی کی نصرت و اعانت خاص طور پر عید کے موقعے سے
ہر صاحب دولت مسلمان پر ضروری ہے۔ جسے اللہ نے مال ودولت دیا ہے،اس کو
چاہیے کہ ہدیے، تحفے اور اپنے زکات و فطرے کی رقم سے ایسے مفلس و مسکین
بھائی کی مدد کرکے اللہ کی نظر میں سرخرو ہوں۔
صدقہ فطر کس پر واجب ہے؟ ایک حدیث میں صدقہ فطر کے حوالے سے نبی اکرم –صلی
اللہ علیہ وسلم –نے ارشاد فرمایاجسے ابن عمر –رضی للہ عنہما-نے اس طرح نقل
کیا: (ترجمہ) "رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم- نے مسلمانوں میں سے غلام
وآزاد ، مذکر و مؤنث اور چھوٹے بڑے سب پر فطر کی زکاۃ (صدقہ فطر)، ایک صاع
(غلہ ناپنے کا ایک پیمانہ جو موجودہ دور کے حساب سے : 3: کلو، 149: گرام،
280: ملی گرام ہوتاہے۔) "کھجور" یا ایک صاع "جَو" فرض فرمایا اور لوگوں کے
عیدگاہ جانے سے پہلے، اس (کے ادا کرنے) کا حکم فرمایاہے۔"
صدقہ فطر ہر اس شخص پر واجب ہے، جو عید الفطرکے دن ضرویّات زندگی کے علاوہ
ساڑھےستاسی گرام سونا یا پھر612/گرام چاندی یا اس کی قیمت کے بقدر مال کا
کا مالک ہو۔ صدقہ فطر کے واجب ہونے کی دوسری صورت یہ بھی ہے کہ حوائج اصلیہ
سے زاید ایسی چیزیں موجود ہوں، جن کی قیمت بقدر نصاب ہو، چاہے وہ چیزیں
تجارت کے لیے نہ ہوں؛ جیسےرہائش کے مکان سے زیادہ مکان، گھر کے مصارف کے
بقدر کاشت کاری کی زمین سے زائد زمین وغیرہ ۔ یہ واضح رہے کہ صدقہ فطر کے
نصاب "حولان حول" (سال گزرنے) کی شرط نہیں ہے؛ بل کہ عید الفطر کے دن بقدر
نصاب مال کا مالک ہونے سے صدقہ فطر واجب ہوجاتا ہے؛ جب کہ زکاۃ کے وجوب کے
لیے بقدر نصاب مال پر سال کا گزرنا شرط ہے۔ جو شخص عید کے دن بقدر نصاب مال
کا مالک ہے، جیسا کہ ابھی عرض کیا گيا؛ تو اس شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ
اپنی طرف سے، اپنی نابالغ اولادکی طرف سے،جو یکم شوّال کی صبح صادق سے قبل
تک پیدا ہوئے ہوں، صدقہ فطر ادا کرے۔
صدقہ فطر کی مقدار اور وقت: صدقہ فطر کی مقدار یہ ہے کہ ایک آدمی کی طرف سے
ایک کلو 633/گرام (احتیاطا دو کلو) گیہوں یا تین کلو 266/گرام (احتیاطا
ساڑھے تین کلو) جَو، یا کشمش، یا کھجوریا پھر ان میں کسی ایک کی قیمت ادا
کی جاسکتی ہے۔ حاصل یہ ہے کہ صدقہ فطر کے مذکورہ چار اصناف میں سے کوئی ایک
یا اس کے وزن کے مطابق اس کی قیمت نکالنا کافی ہے۔ صدقہ فطر ادا کرنے کے
حوالے فقہاء نے لکھا ہےکہ "صدقہ فطر" عید کے دن، نماز عید سے پہلے نکالا
جائے۔ یہ بھی جائز ہے عید سے ایک یا دو دن پہلے نکال دیاجائے؛ تاکہ غریب و
مسکین بھی اپنی ضروریات کی تکلمیل کرسکیں! صدقہ فطر کی ادائیگی میں تاخیر
نہیں کرنی چاہیے۔ اگر کوئی شخص عید سے پہلے بھی نہیں دے سکا؛ تو پھربعد میں
ادا کرے۔ وقت پر نہ دینے سے صدقہ فطر ساقط نہیں ہوگا۔
عید کے دن مبارک باد دینا: عید کی مبارکباد دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل
سے بھی یہ ثابت۔ مگر بہتر یہ ہے کہ عید کی مبارکباد "تَقَبَّلَ اللهُ
مِنَّا وَمِنْكَ" کے الفاظ سے دی جائے۔ خالد بن معدان رحمہ اللہ کہتے ہیں
کہ مین نے عید الفطر کے دن واثلہ بن اسقع سے ملاقات کی تو میں نے کہا:
"تَقَبَّلَ اللهُ مِنَّا وَمِنْكَ". یعنی اللہ آپ کی طرف سے اور میری طرف
سے قبول فرمائے! تو انھوں نے فرمایا: "نَعَمْ، تَقَبَّلَ اللهُ مِنَّا
وَمِنْكَ". پھر واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ میں نے عید کے دن
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی تو میں نے کہا: "تَقَبَّلَ
اللهُ مِنَّا وَمِنْكَ". آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا:
"نَعَمْ، تَقَبَّلَ اللهُ مِنَّا وَمِنْكَ". (السنن الکبری للبیہقي 3/446،
نمبر: 6294)
عید الفطر کی نماز کا طریقہ: عید الفط کی نماز دو رکعتیں ہیں اور یہ واجب
ہے۔ اس میں چھ زائد تکبیریں بھی ہیں۔ جب ہم نماز کے لیے کھڑے ہوں؛ تو پہلے
عید الفطر کی دو رکعت واجب نماز زائد چھ تکبیروں کی نیت کے ساتھ تکبیر
تحریمہ (اللہ اکبر) کہہ کر ہاتھ کانوں تک اٹھا کر باندھ لیں۔ پھر مکمّل
ثناء پڑھی جائے۔ ثناء کی تکمیل کے بعد، تین تکبیر (اسی تکبیر کو تکبیر زائد
کہتے ہیں) کہے۔ ان تین تکبیروں میں سے پہلی اور دوسری تکبیر میں باتھ کانوں
تک اٹھا کر چھوڑ دے اور نہ باندھے۔ تیسری تکبیر (اللہ اکبر) کہتے ہوئے ہاتھ
کانوں تک اٹھا کر لیجائے اور ہاتھ باندھ لے۔ اس کے بعد سورہ فاتحہ اور کسی
سورہ کی تلاوت کرکے اور نمازوں کی طرح پہلی رکعت مکمل کی جائے۔ دوسری رکعت
میں سورہ فاتحہ اور کسی سورہ کی تلاوت کے بعد، پھر تین زائد تکبیریں کہی
جائیں گی اور ہر تکبیر میں ہاتھوں کو کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دیا جائے گا۔
چوتھی تکبیر (اللہ اکبر) میں بغیر ہاتھ اٹھائے نمازی رکوع میں چلاجائے۔
نماز کا باقی حصّہ دوسری نمازوں کی طرح ادا کیا جائے۔ واضح رہے کہ عید
الاضحی کی نماز بھی دو رکعتیں ہیں جو اسی طریقے سے ادا کی جاتی ہے۔ ان
دونوں نمازوں کے بعد خطبہ واجب ہے؛ لہذا امام دو خطبے پڑھے گا اور مقتدی کو
خاموشی کے ساتھ ان خطبوں کو سننا چاہیے!
عید گاہ میں مصافحہ و معانقہ: ہم عید الفطر اور عیدالاضحی کی نمازوں کے بعد
عیدگاہ میں ایک بدعت کا ارتکاب ہیں۔ یہ مصافحہ اور معانقہ کی بدعت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عید گاہ میں مصافحہ و معانقہ بدعت ہے۔ اتنی وضاحت ضروری
معلوم ہوتی ہےکہ اگر کسی صاحب کی ملاقات کسی شخص سے غیبوبت کے بعد ہورہی ہو
اور اتفاق سے نماز کے بعد، عیدگاہ میں ہی پہلی ملاقات ہوئی؛ تو ایسے شخص سے
مصافحہ اور معانقہ کیا جاسکتا ہے۔مگر یہ کیا بلا ہے کہ ایک شخص گھر سے کسی
کے ساتھ آتا ہےاور بسا اوقات ایک ہی ساتھ نماز عیدالفطر یا نماز عید الاضحی
ادا کرتا ہے؛ پھر مصافحہ اور معانقہ کےلیے ایک دوسرے کی طرف بڑی سرعت سے
بڑھتا ہے!!! یہ سب بدعات و اختراعات میں سے ہے۔
حضرت مولانا مفتی سیّد عبدالرحیم صاحب لاجپوری رحمہ اللہ نے تو صورت مذکورہ
کو واضح کرکے بیان کیا اورفرمایا ہے کہ یہ بدعت ہے۔ مفتی صاحب کی تحریر
ملاحظہ فرمائے: "عید کی نماز کے بعد ملنا اور معانقہ ومصافحہ کرنا کوئی امر
مسنون نہیں؛ (بل کہ) لوگوں کی اختراعات اور بدعات میں سے ہے۔احادیث میں
جہان تک معلوم ہے، اس کا پتہ نہیں چلتا۔ غیبوبت کے بعد مصافحہ اور طویل
غیبوبت پر معانقہ ثابت ہے۔مگر عید کی نماز کے بعد ان کا ثبوت نہیں ہے۔ یہاں
یہ حالت ہے کہ وہ رفقاء جو نماز میں شریک بل کہ برابر میں کھڑے تھے، سلام
اور خطبہ کے بعد معانق ہوتے ہیں اور اس کو امر دینی سمجھتے ہیں؛ اس لیے یہ
غلط چیز ہے۔" (فتاوی رحیمیہ، ج: 2، ص: 111-112)
حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "عیدین میں معانقہ
کرنا یا عید کی تخصیص سمجھ کر مصافحہ کرناشرعی نہیں؛ بل کہ محض ایک رسم
ہے"۔ (کفایۃ المفتی: 3/302)
مجدّد ملت، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے اس حوالے
سے ایک قاعدہ کلیہ تحریر کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائے: "قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ
عبادات میں حضرت شارع علیہ السلام نے جو ہیئت وکیفیت معین فرمادی ہے، اس
میں تغیّر وتبدّل جائز نہیں اور مصافحہ چوں کہ سنّت ہے، اس لیے عبادات میں
سے ہے، (لہذا) حسب قاعدۂ مذکورہ اس میں ہیئت وکیفیت منقولہ سے تجاوز جائز
نہ ہوگا اور شارع علیہ السلام سے صرف اوّل لقاء کے وقت بالاجماع یا وداع کے
وقت بھی علی الاختلاف منقول ہے۔پس اب اس کے لیے ان دو وقتوں کے سوااور کوئی
محل و موقع تجویز کرناتغییر عبادت کرنا ہے، جو ممنوع ہے؛ لہذا مصافحہ بعد
عیدین یا بعد نماز پنج گانہ مکروہ وبدعت ہے۔ شامی میں اس کی تصریح موجود
ہے۔" (امدادالفتاوی، ج:1، ص:557)
خلاصۂ کلام: خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان عید اس طرح منائیں کہ
شریعت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ اس حوالے سے ہمارے پاس پیارے نبی محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کا عمل اور فرمان موجودہے۔ انہیں عمل اور فرمان کی روشنی
میں ہمیں عید منانا چاہیے۔ ہمیں ہر طرح کے خرافات اور بدعات و اختراعات سے
اجتناب کرنا چاہیے؛ خاص طور پر عید کا دن جو ایک اہم روزے جیسی عبادت کا
جشن ہے، ہمیں اپنے غلط اعمال کی وجہ سے اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اگر ہم
شریعت وسنّت کی روشنی اپنی عید مناتے ہیں؛ تو ہمیں عید منانے کا بھی اجر
وثواب ملے گا، ان شاء اللہ۔
٭ہیڈ: اسلامک اسٹڈیز ڈپارٹمنٹ، مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا۔ |
|