ماں ایک عظیم نعمت

خداوند قدوس کے انعامات و نوازشات بے پناہ و بے شمار ہیں۔ ہر آن اس کے احسان کا مشاہدہ انسان کرتا رہتا ہے۔ ستارے، سیارے، زمین و آسمان، روز و شب، سانس کا آنا اجزائے انسانیسب خداوند تعالیٰ کے کرم کا مظہر ہیتو ہے۔ اس کے ارد گرد ذرہ ذرہ سے خداوند قدوس کی عنایت اور اس کے فضل کا احساس ہوتا ہے جو خداوند قدوس کے ہونے کی بین دلیل ہے۔ اس کو نشاطِ عثمانی کہتے ہیں۔جمال دنیائے رنگ و بو میں کہاں وہ جلوہ نما نہیں ہےنگاہ سے ما ورا ہے شعور سے ما ورا نہیں ہےیہ چیزیں خدائے ذوالجلال کے کریم ہونے کے پختہ ثبوت ہیں۔ جن سے نابینا بھی نابلد نہیں، فضل و کرم کا عالم یہ ہے کہ سب سے بدل و بے مثل ہیں، ان سب کے باوجود اللہ کی ایک نعمت اتنی عظیم ہے اگر اس کائنات میں یہ رعنائی، زیبائی، دلکشکچھ نہ ہوتا۔ اچھی اشیاء خوردنی نہ ہوتی، سکون و آسائش مہیا کرنے والے یہ آلات نہ ہوتے، مسافتوں کو پاٹنے والی ٹیکنالوجی نہ ہوتی، سبزہ زار وادیاں، بہتے جھرنے، لہلہاتی کھیتیاں، آنکھوں کو سکون بخشنے والے خوبصورت منظر پس اسی ذات کا وجود اس عالم فانی کو عالم خوب رو بنانے کے لئے کافی تھا، یہ ساری نیرنگیاں اس کے بغیر بے رنگ لگتی ہیں۔ شاعر کی زبان میںاس کے دم سے قائم بزم ہستی کی ہے رعنائیتو جس کو اضطراب قلب سے تعبیر کرتاہےٍ یہ عظیم ہستی وہ ہے جس کا تذکرہ قلم یا زبان سے نہیں بلکہ قلب کی اتھاہ گہرائیوں سے ہوتا ہے اور انسان اس کی عظمت کا معترف ہوتا ہے اور بعض لوگوں نے تو غزل کی نرم و نازک زبان میں اس کا تذکرہ اتنا کیا ہے کہ ضرورت باقی نہیں چھوڑی مگر محبت ضرورتوں سے بے پرواہ ہوتی ہے۔ یہ ذات ماں کی ذات ہے، جس کی محبت کا عالم تعبیر کرنے کے لئے الفاظ نہیں، تنگ دامنی کا احساساس جذبہ کو کسی لفظ میں بیان کیا جائے، اس کی زندگی کا ہر لمحہ ایثار و قربانی کا کوہِ ہمالیہ ہے۔ اس کی محبت کی بلندی آسمان کی رفعتوں سےکہیں زیادہ، اس کے قلب کی گہرائیبڑے بڑے دریائوں کو اپنے اندر سمولے جس کے ثبوت کے لئے میں تاجدار تاج صاحب کا یہ شعر پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوںمجھے غرقاب کرنا ہے تو دریا کو یہ سمجھا دومیرے قد کے برابر اس کی گہرائی ضروری ہےکس دریا کی مجال ہے جو اس کی قلبیگہرائیوں کو چیلنج کر سکے، ہر محبتبدلے کی طلب گار، کچھ خواہشات، آرزوئیں اور تمنائیں وابستہ مگر یہ بے لوث محبت بھی خداوند قدوس کابڑا تحفہ ہے، جہاں نہ کوئی لالچ و طمع اور نہ معاوضہ ایسے خیالات کی آمیزش سے یہ محبت پاک ہے اور قربانیاں ہر گھڑی۔ جب بچہ کی ولادت ہوتی ہے تکلیف اشد ترین، درد کی کیفیت جان لیوا، بچہ کو پیدا کرنا جان پر کھیلنے کے مترادف اور اس بوجھ کو نوماہ کی مدت پر ہر وقت لے کر چلنا جوئے شیر لانا تو اس کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے۔ سوتے،جاگتے، کھاتے ، پیتے اس وزن کو ہمیشہ اٹھانا اور طبیعت میں پیدا ہونے والے عجیب و غریب خیالات کو برداشت کرنا کسی مجاہدے سے کم نہیں ہیں جس کو فطرت انسانی کا خالق بھی کرہا سے تعبیر کررہا ہے۔ )ص:۳۵، مصباح اللغات( اور اگر کاف کے فتحہ کے ساتھ ہو تو معنی ہوتے ہیں کسی کا تکلیف اٹھانے پر مجبور کرنا۔)سورہ احقاف، آیت ۱۴( میں اللہ نے بیان کیا اور انسان کو ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا۔ کُرہ لفظ شاہد ہے کہ ماں مجبور نہیں بلکہ غایت محبت میں ہمیں اٹھائے پھر رہی انتہائی مشقت سے جنم دیتی ہے اور اس کے بعد کا عالم تصورسے ماوراء، عقلِ انسانی کے متحیر کن دو سال کے طویل عرصہ تک اپنا خون پلا کر پرورش کرنا ماں کا عظیم کارنامہ ہے اور خود گیلے بستر پر سونا گوارا کرتی ہے مگر بچہ کو سوکھے بستر پر سلاتی ہے۔ اسے تکلیف نہ پہنچ جائے، یہ کسی پریشانی میں مبتلا نہ ہوجائے، اسے کوئی مرض لاحق نہ ہوجائے، یہ رویااس کی آنکھ میں آنسو۔ بس اب یہی اس کی گفتگو، یہی اس کی حیات، رات کا سکون ختم، دن میں بھی چین کا تصور نہیں مگر آج تک کوئی انسان یہ گواہی دینے کی جسارت نہیں کرسکتا کہ اس نے کسی ماں کواپنے بیٹے سے ترش رو دیکھا ہے، جب کہ اب وہ اپنی پسند کا کھا بھی نہیں سکتی۔ اب ہر شئے بچہ کی صحت و عافیت کو نظر میں رکھ کرکرتی ہے، اب تو کیفیات ہی بدل گئیں، کبھی گرم لباس زیب تن نہیںکیا، اب چادروں میں لپٹی ہے، کہیں میرا لختِ جگر سردی کا شکار نہ ہوجائے۔ جب بچہ قدم اٹھانا شروع کرتا ہے، تمنائیں انگڑائیاں لینے لگتی ہیں، خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہتا اور اس کے قدم لڑکھڑا جائیں تودل کا عالم تیز آندھی میں ہلتے ہوئے پتے کا سا ہوجائے اور یہ محبت صغر سنی میں رہتی ہے تو ماں کو اس کی محبت رہتی ہے اور بچہ کیعمر بڑھنے کے بعد محبت کم ہوجاتیہے بلکہ یہ جذبہ کبھی دور نہیں ہوتا، یہ وہ آگ ہے جو کبھی بجھتی نہیں بھڑکتی اور بھڑکتی ہے، کبھی اس کو زوال نہیں، بچہ مکتب جاتا ہے ماں کا دل اس کی یادوں میں الجھا رہتا ہے، ایک اور حقیقت جس کا تجربہ ہر انسان کرتا ہے وہ سفر کے لئے نکلنا ہے۔ ماں اسے وداع کرنے کے لئے آتی ہے، اس کی آنکھوں سے چھلکنے والے آنسو علامات ہیں اس محبت دریا کی جو اس کے قلب میں موجزن ہے۔ یہ جدائی سیلاب بن رہیہے، لہریں اٹھ رہی ہیں، آنکھوں سے اوجھل ہوجانے تک کھڑے تکتے رہنا کیا محبت ہے۔ اللہ نے کیا رکھ دیا سینے میں؟ ہر دعا اس کے لئے ، خیالوں میں، گفت و شنید میں ہرجگہ یہ سماج معاشرہ ہر چیز سے بڑھکر ہے مگر بعض انسان عجیب کفرانِ نعمت کے شکار جب ہاتھ ہلانے کی سکت نہیں رکھتے تھے ماں ہی سارے کام انجام دیتی تھی اور اب جبزندگی کا دوسرا مرحلہ آیا خود مختار ہیں،اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتے، نافرمانی کرتے ہیں، حکم عدولی کرتے ہیں، کیا یہ انسانیت ہے؟ ماں کے بڑھاپے میں جب اولاد کو وہ سارے حقوق ادا کرنے چاہئیں تھے جو اس پر فرض ہیں تو وہ اسے اٹھاتا اور اولڈ ہائو س چھوڑ آتا ہے، یہ ماں جو لمحہ بھر اس کا آنکھوں سے اوجھل ہونا برداشت نہیں کرتی تھی زندگی بھر کے لئے اس کو اپنے قرب کی لذت و سکون سے دور کردیتے ہیں، یہی مغرب کے عقل پسندوں کی کج خیالی ہے۔ صحیح کہا ہے علامہ اقبالؒ نےپیغام دے رہا ہے یہ مغرب کی طرف جاتا ہوا سورجاس سمت جائوگے تو ڈوب جائوگےمگر تمام مشکلات سہنے کے باجود، دھتکارے جانے کے بعد بھی سینکڑوں واقعات گواہ ہیں کہ ماں پھر بھی اپنی اولاد کے لئے دعائیں مانگتی رہتی ہے اور خداوند قدوس کی بارگاہ میں یہی عرض کرتی ہے کہ اس کا بچہ کبھی کسی تکلیف و پریشانی میں مبتلا نہ ہو بلکہ الفاظ یہ ہوتے ہیں کہ مشکل اس کے قریب سے بھی نہ گذرے، حقیقتاًماں بہت بڑی نعمت ہے، اس کے بغیر دنیا کی ہر خوشی ناقص ہے۔چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاںدیکھی ہےمیں نے جنت تو نہیں دیکھی ماں دیکھی ہےمنور رانا نے سچ کہا ہے ’’ماں جنت سے کم نہیں، اس کا سایہ ایسا ہے جیسے درخت ہو، بڑی سخت دھوپ برداشت کرلیتا ہے اور سایہ ہر کسی کو دیتا ہے، پھول مسل دئیے جاتے ہیں مگر خوشبو سے مسلنے والے کو بھی محروم نہیں کرتے۔ ماں کی مثال بھی ایسی ہی ہے۔‘‘

rahat ali siddiqui
About the Author: rahat ali siddiqui Read More Articles by rahat ali siddiqui: 82 Articles with 76061 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.