سیرت النبیﷺ اور پیام تعلیم
(rahat ali siddiqui, Muzaffarnagar)
دنیا تبدیلی کا شکار ہوتی رہتی ہے … حالات
کروٹ بدلتے رہتے ہیں …اسی ضمن میں انسانوں کو مختلف مسائل درپیش ہوتے ،کبھی
اچھائی کا راج ہوتا ہے ،کبھی برائی غالب آجاتی ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام
کی وفات کے بعد اسی تبدیلی نے زمانے کو ایسے حالات سے روشناس کرایا جنکا
تصور بھی قلب وذہن کو متحیر و بے چین کردیتا ہے جہاںانسانیت نام کو بھی نظر
نہیں آتی ، ہر خطہ سلگ رہا ہے ،ہر علاقہ جل رہا ہے ، خاص طور پر صحرائے
عرب جو دنیاوی زیب وزینت سے محروم ہے ،سبزہ ہریالی خوبصورت وادیاں، بہتے
جھرنے وآبشار کچھ بھی تو نہیں ریت ہی ریت ، اسی طرح انسانوں کے قلوب میں
بھیہمدردی رواداری محبت کچھ بھی نہیں ،اگر کچھ ہے تو ہٹ دھرمی ،ضد ،سختی
،شدت تعصب ،عناد ،جھگڑے ،لڑائیاں،حقوق کی پامالی ،اخلاق کی بدتری ،جہالت ۔
یہی اس دور کی پہچان اور علامت ہے ۔ کلام سے لیکر اعمال تک ہر شئے میں اسکا
ظہور ہے حالات کی ابتری اس باتسے عیاں ہے کہ زناکاری پر فخر چوری پر غرور و
تکبر جھگڑے اور لڑائیاں فطرت میں شامل ،خون بہانا عزت و توقیر کاباعث ،
تھوک پر تلوارچلانا ،نسلون تک کا صفایا کردینا ،عزت نفس جہالت کے ان
گھٹاٹوپ اندھیرون مین روشنی محال بعید از امکان ، کوئی ذی شعور اور حوصلہ
مندان حالات مین ناامیدی کا شکار ہوجائے۔ خیالات میں بس یہی گردش کہ دنیا
اب اپنے اختتام کی طرف رواں دواںہے ۔ اب علم کی روشنی سے کائنات منور نہیں
ہوگی ، اخلاق و تھذیب کا چشمہ نہیں پھوٹے گا محبت وشرافت کے سونتے خشک ہو
چکے اب تو بس انہی حالات کی چکی میں پس کر مر جانا ہے۔کہاں بہاریں نصیب
ہونگی ،خوشیاں کہاں ھمارے مقدر میں ہے ،اب سسکتیتڑپتی انسانیت کے درد کا
درماں اب کہاں ہوگا ، اس لا علاج مرض کا مداوا یہ خیال بھی جوے شیر لانے کے
مترادف تھا ،کون تصور کر سکتا تھا کہ کائنات جو محبت کے نام سے بھی ترس رہی
ہے پیار کا دریا اس میں بہانے والا آنے کے قریب ہے ، کسے یقین آسکتا تھا
جہاں حلموبردباری ایثار و قربانی عنقاء ہے وہاںلوگاپنی جانیں گنوا کر
دوسروں کی آبرو کیحفاظت کریں گے ، گالیاں کھاکر دعا ئیں دی جائیں گی،
جہالت سے جس دور کو موسوم کیا جارہا ہے جاہل ہونا جن لوگوں کی پہچان ہے وہ
کائنات کو علم وتحقیق کا مفہوم سمجھائینگے وہاں سے علم و آگہیکے سونتے
پھوٹینگے اگر کوئی اس وقت یہ باتیں کہتا تو لوگ اس پرہنستے ، اسے پاگل
گردانتے اسکا مزاقاڑایا جاتا۔ نشہ میں چور دیوانگی میں مست کہا جاتا مگر
خدائے ذوالجلال قادرمطلق ہے اس نے اس خطہ کو عظیم گوہر عطا کیا جس نے
انقلاب برپا کر دیا اور سارے خیالات کو حقیقت کا جامہ پہنا دیا وہ خیالات
جو دیوانگی لگتے تھے حقائق ثابت ہوئے وہ افراد جو جہالت و بداخلاقی کے اوج
ثریا پر پہونچے ہوئے تھے اس عظیم الشان ہستی نے انہیں علم و اخلاق کے بلند
مراتب پر فائز کیا اور کائنات کو بلند تر افکار سے بہرہ ور کیا پریشانیاں
جھیلیں تکالیف اٹھائیں مگر انسانوں کی فلاح و بہبود میں کوئی کمی نہیں
چھوڑی ۔ بے پناہجد جہدمسلسل کا وش کے ذریعہ دنیا کے بدترین افراد کو مثالی
اور عظیم تر دنیا کے بدتر معاشرہ کو عظیم تر بنادیا۔ یہ ذات باعظمت خدا کے
محبوب اور لاڈلے پیغمبر محمد مصطفے احمد مجتبیصلی اللہ علیہ وسلم کی ہے جن
کو خداوند قدوس نے اپنے دیدار کاشرف عطا کیا ۔جن کی عظمتون اور رفعتوںکے
ترانے زمین و آسمان نے گنگنائے اور خدا نے اعلان کردیا )اے نبی ہم نے
آپکے ذکر کو بلند کر دیا ہے (۔ آپ کا نام ہمیشہ باقی رہے گا … رہتی دنیا
تک لوگ آپ پر محبت و عقیدت کے پھول نچھاور کرتے رہیں گے… اورکیوںنا ہو آپ
نے جو معاشرہ و سماج تشکیل دیا دنیا کی ترقی کامیابی و کامرانی کے لئے جو
اصول بیان کئے اور ان پر جو محنت کی اس پر خراج عقیدت کیوںنا پیش کیا جاتا
۔ حتی کہ آپ نے چھوٹی چھوٹی باتوںسے لیکر زندگی کے ہر گوشہ پر انسانیت کی
رہنمائی فرمائی …ماں باپ کےساتھ کس طرح رہنا ہے بھائی بہنکے کیا حقوق ہیں،
شوہر اور بیوی کس طرح خوشگوار زندگی گذار سکتے ہیں ، پڑوسیوں اور ہمسایوںکے
ساتھ کیسے زندگی بسر کرنی ہے ، زندگی کا کوئی گوشہ ،معاشرہ کا کوئی فرد ،
شکوہ نہیں کرسکتا اور آپ کی رہنمائی کے ناقص ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا
اور اسکے ساتھ آپ ﷺنے حصول علم پر بے پناہ زور دیاچونکہ آپ کی شریعت کا
آغاز ہی اقرا سے ہے اور خداوند قدوس نے قران کریم میں اعلان کیا۔ ) سورہ
آل عمران (میں جب نبی ﷺکی عظمت خصوصیات بیان کیں تو ویعلمھم الکتاب
والحکمتہکتاب وحکمت کی تعلیم دینا نبی کے خصائص میں سے شمار ، سورہ جمعہ
میں بھی خداوند قدوس ان الفاظ کا تذکرہ کیا اور دوسری جگہ نبی کی زبانی
اعلان کرایا اے نبی آپ کہدیجئے جاننے والے اور نہ جاننے والے کیا برابر
ہوسکتے ہیں) سورہ الزمر (۔ علاوہ ازیں علم کو ترفع بلندی کا سبب قرار دیا
گیا عزت نفس کی بنیاد ،ٹھہرائو،کائنات میں سرفرازی کا باعث علم ہی ہے۔ اور
علم ہی انسانیت کی وجہ امتیاز ،اور خلیفئہ خدا کا سبب ٹھہرا اور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا کہ مجھے معلم بناکر بھیجا اور ماں کی گود
سے لیکر قبر تک علم حاصل کرنے کی تلقین کیعلم کو اپنی میراث قرار دیاطالب
علم کو خداوندقدوس کے راستے کا مسافر قرار دیا۔چنانچہ بخاری اور ترمذی اور
دیگر کتب احادیث مین بہت سی ایسی روایتیں ہیں جو علم کی اہمیت و افضلیت کو
بیاں کرتی ہیں ۔ اصحاب صفہ کا شدت بھوک کے باوجود آپکی خدمت میں حاضر رہنا
قرآن وحدیث بھی علم کی اہمیت کا ترجمان ہے پھر آپ ہی کا فیضان ہیکہ علوم
و فنون کے ایسے چشمہ پھوٹے جو تصور امکاں سے باہرتھے اور ساری دنیا علم کی
دولتسے مالامال ہوئی مشرق سے پھوٹی علم کی اس کرن نے ساری دنیا کو روشن
کردیا جو لوگ اندھیرے وگمنامی میں پڑے ہوئے تھے انکی زندگی مثالی اور
کائنات کے منظرنامے پر نقش ہوگئی حتی کہ وہ یورپ جو آج اپنی ایجادات و
تحقیقات پر فخر کرتاہے نبی آخر الزماں کی آمد سے پہلے تاریکیوں کے گہرے
غار میں پڑا ہوا تھا نا کوئی اسے جانتا اور نا وہاں کے بسنے والوں کا وجود
لوگوں کے کے لئے نئی راہیں نئی منزلیں تلاش کررہا تھا اس زمانے کو یورپی
دنیا ڈارک ایج کہتی ہے اس سے انکی ابتری کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ مگر نبی
اکرم صلی اللہ وسلم کی آمد کے بعد سے دنیا علم کی طرف متوجہ ہوئی تحقیقات
ایجادات و انکشفات کا لازوال سلسلہ قائم ہوا اور ترقیاں اہل اسلام اور
قرآن وحدیث سے استفادہ کرنے والوں کے قدم چومتی چلی گئی۔ جو بھی دامن محمد
ﷺمیں پناہ لیتا عظیم ہوجاتا ، جو بھی افکار محمد ﷺاور تعلیمات محمد ﷺسے
استفادہ کرتا کامیابی اس کے پائوکی جوتی ہوتی اور دنیا میں اسکا چرچہ ، اسی
کا شہرہ ہوتا زمانے نے آپﷺ کی ذات سے ترقیاں اور بلندیاں حاصل کیں ۔ آج
بھی کر رہا مگر آج درد اور المیہ یہ ہے کہ وہ قومجو حضور اکرم کی نام لیوا
ہے اس نے آپ کا طرز چھوڑ دیا آپ ﷺکی حیات سے سبق لینا چھوڑ دیا ۔آپ ﷺکو
رہبر تو مانتے ہیں مگر آپکیزندگی سے نابلد ناآشنا جاھل آپکی سوچ وفکر سے
محروم آپ کے خیالات سے دور آپ تو پیغام دیکر زندگی کے ہر گوشہ کو تعلیم
سے آراستہ وپیراستہکیاعلم کو آپنے وجہ امتیاز تخلیق قرار دیا تھا مگر آج
افسوس اس بات پر ہے کہ جہالت ہمارے گلہ کا طوق بن گئی ہماری تہذیب کا اٹوٹ
حصہ بن گئی ہماری پہچان اور علامت قرارپائی قلب و جگر تو اس وقت چھلنی ہو
جاتا ہے جب معصوم بچے ہوٹلوں پر برتن صاف کرتے نظر آتے ہیں جن کے ھاتھوں
میں قلم جن کے سینوں قران ہونا چاھئے تھا وہ آج اس عالم میں کیسے ہمیں
وقار مل سکتاہے کیسے ہمیں عزتیں نصیب ہوسکتی ہین جبکہ ہم نے اپنے آقا کی
روش چھوڑ دی بھول گئے ان صفہ والوں کو جو بھوکے تو رہے مگر تعلیم سے چمٹے
رہے اگر ہمیں معاشرہ میں وقار پانا دنیا و آخرت میں فلاح و بہبود سے
ہمکنار ہونا ہے تو نبی آخر ازمان کی تعلیمات کو اپنانا علم کو اسی انداز
میں گلے لگانا ہوگا جیسے ہمارے آقا نے بیان کیا ہم یہ عزم کریں کہ دنیا کی
ہر تکلیف برداشت کرلینگے بھوکے تو رہ لینگے پر جہالت ہمیں کسی قیمت پر
منظور نہیں اپنے نبی کا فرمان ہم جان لٹا کر بھی پورا کرینگے ۔ |
|