زندگی کا دستور ہے کہ جب بھی کوئی شخص
کامیابی کا زینہ طے کرتا ہے تو اس کے بدلے میں اس کو انعامات سے نوازاجاتا
ہے ۔یہ انعامات مال کی صورت میں ہو ں یا کسی اعزاز کی صورت میں ،دونوں
صورتوں میں ہی باعث مسرت ہوتے ہیں۔اور یہ انعامات دنیاوی زندگی کے لیے بھی
ہو سکتے ہیں اور اخروی زندگی کے لیے بھی۔آج اگر ہم ترقی یافتہ دنیا کی
دنیاوی ترقی کا راز جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انتھک محنت
اور دیانتداری کا نتیجہ ہے۔لیکن اگر ہم بحیثیت مسلمان بات کریں تو دنیا
وآخرت میں حقیقی کامیابیاں اﷲ نے ہمارا مقدر کی ہیں۔اﷲ کا ہم سب کے لیے سب
سے بڑا انعام یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور آخری نبی حضرت محمدﷺ کی امت میں
سے ہیں۔اسی طرح اگر ہم زندگی کا احاطہ کریں تو یہ دو چیزوں پر محیط ہے ۔صبر
اور شکر۔اگر زندگی میں کوئی دکھ ،تکلیف آئے تو اس پر صبر کرنے کا حکم ہے
جبکہ خوشی کی صورت میں شکر ادا کرنا پڑتا ہے۔ویسے تو اﷲ کی دی ہوئی ہر نعمت
پر جتنا شکر ادا کریں کم ہے مگر بطور مسلمان جو اﷲ تعالٰی نے ہم پر احسان
کیے ہیں جن میں رمضان کی صورت میں بہت بڑا انعام ہے۔یہ وہ مہینہ ہے جس میں
قرآن اتارا گیا جو لوگوں کے لیے رہتی دنیا تک ہدایت کا ذریعہ ہے۔اسی طرح اس
ماہ مقدس کو تین عشروں میں تقسیم کیا گیا۔پہلا عشرہ باعث رحمت جس میں اﷲ کی
رحمتوں کی بارش ہوتی ہے۔اور مسلمان ان رحمتوں بھرے لمحات سے استفادہ حاصل
کرتے ہیں جس پر اﷲ کے حضور سجدہ ریز ہو کر شکر بجا لاتے ہیں۔اسی طرح دوسرا
عشرہ مغفرت کا ہے جس میں مسلمانوں کے لیے اﷲ تعالٰی نے مغفرت کا سامان کیا
ہے اور اﷲ اپنے بندوں کو ہر وقت اپنی طرف بلاتا ہے کہ اے میرے بندے مجھ سے
معافی مانگ کر دیکھ میں تیرے گناہوں کوکیسے معاف کرنے والا ہوں۔اسی طرح
تیسرا عشرہ نجات کا عشرہ ہے جس میں اﷲ اپنے بندوں کی توبہ کو قبول کر کے
نجات کا سامان مہیا کرتا ہے۔اور اس عشرے کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس عشرے
میں اﷲ تعالٰی نے تمام راتوں سے افضل رات جسے لیلۃالقدر کہتے ہیں عطا
فرمائی ۔اس عظیم رات میں کی جانے والی عبادت کا ثواب ہزار راتوں کے برابر
ہے۔یعنی یہ رات ہزار راتوں سے افضل ہے۔اور یہ بھی اﷲ کی طرف سے دیا جانے
والا انعام ہے۔اﷲ کے نبیﷺ نے فرمایا لیلۃالقدر کو ماہ صیام کی آخری عشرے کی
طاق راتوں میں تلاش کرو۔کیونکہ یہ بہت فضیلت والی رات ہے۔اس رات کو تلاش
کرنے کے لیے لوگ اعتکاف کا اہتمام کرتے ہیں اور جو لوگ اعتکاف نہیں کرتے وہ
بھی ان طاق راتوں کو اﷲ سے رجوع کر کے اپنے گناہوں سے معافی مانگتے ہیں۔ماہ
رمضان کے الوداع ہوتے ہی اﷲ اپنے بندوں کو ایک بہت بڑی خوشی عیدالفطرکی
صورت میں عطا کرتا ہے ۔یہ بھی اﷲ کی طرف سے بہت بڑا انعام ہے ۔ جہاں اﷲ
اپنے بندوں کو مختلف قسم کے انعامات سے نوازتا ہے وہیں اپنے بندوں پر کچھ
ذمہ داریاں بھی عائد کرتا ہے۔اگر تو ہم وہ ذمہ داری اچھے طریقے سے نبھاتے
ہیں پھر تو ہم ان تمام نعمتوں کے حقیقی مستحق ہیں وگرنہ کوئی ضرورت نہیں
بھوکا پیاسا رہنے کی ۔کیونکہ اﷲ کے رسول ﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ جو شخص
روزہ کے متعلق احکامات کی پاسداری نہیں کرتا اﷲ کو اسکے بھوکا پیاسا رہنے
سے کوئی مطلب نہیں۔اگر ہم مسلمان ہیں تو ہم پر لازم ہے کہ اﷲ اور اس کے
رسولﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کریں ناکہ اپنی من مانیاں کرتے پھریں۔ہر
نعمت کا شکر اداکرنے کا اﷲ نے طریقہ بتایا ہے اگر ہم بطور مسلمان اپنے
گریبان میں جھانکیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ہم وہ سب کر رہے ہوتے ہیں جو
عام دنوں میں بھی نہیں کرتے،رمضان کے شروع ہوتے ہی ذخیرہ اندوزی،عیدی کے
نام پر رشوت خوری،لوٹ مار،مہنگائی اور وہ تمام برائیاں جن سے اﷲ نے سختی سے
منع فرمایا ہے وہ سب کر رہے ہوتے ہیں۔ماہ مقدس میں جگہ جگہ رمضان
بازارلگائے جاتے ہیں۔جس میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بازار سے بارعائیت
سامان دستیاب ہوگا مگر حقیقت میں بالکل اس کے برعکس ہوتا ہے۔رمضان کے شروع
ہوتے ہی سبزیاں ،پھل اور روزمرہ کے استعمال کی اشیاء مہنگی ہو جاتی ہیں جس
کی وجہ سے غریب عوام پس کر رہ جاتے ہیں۔اسی طرح اگر رمضان کے آخری عشرے کی
بات کریں تو اس میں لوگ عید کی خریداری کرنے آتے ہیں اور ہم نام نہاد
مسلمان ان کی جیبوں پر نظر رکھے بیٹھے ہوتے ہیں۔اور ان دنوں میں بھی گراں
فروشی عروج پر ہوتی ہے۔جس سے کم از کم غریب آدمی تو عید جیسی خوشی سے بھی
محروم ہو جاتا ہے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ رمضان کے روزے ،طاق راتیں ،رحمت،مغفرت
اور نجات کے عشرے ہمارے لیے حقیقی معنوں میں اﷲ کا انعام ثابت ہوں اور باعث
نجات بنیں تو ہمیں روزے کی حقیقی روح کو سمجھنا ہو گا ۔اور روزے کی حقیقی
روح یہ ہے کہ ہم دوسروں کا خیال رکھیں،محبت بھائی چارے کا فروغ،غریبوں کی
مدد کریں اور ان تمام برائیوں سے بچیں جو اﷲ اور اس کی مخلوق سے دوری کا
سبب بنتی ہیں۔ورنہ کیسے ممکن ہے کہ ہم رشوت بھی لیں اور رمضان ہمارے لیے
باعث رحمت بھی ہو۔ہم دھوکہ بھی دیں ،گراں فروشی بھی کریں،اور اﷲ سے مغفرت
کی توقع بھی رکھیں۔عید کا لفظی مطلب خوشی کا ہے تو اﷲ کے لیے سوچیئے کیسے
ممکن ہے کہ دوسروں کی خوشیاں چھین کر ہم خوش رہ سکیں۔اس لیئے کوشش کیجیے کہ
اس دفعہ اپنی عید کی خوشیوں میں غریبوں کو شامل کیا جائے۔جس کے لئیے ضروری
ہے کہ ہم زکوۃالفطر یعنی فطرانہ عید کی نماز سے پہلے مستحق لوگوں تک
پہنچائیں۔کیونکہ یہ ان کا ہم پر حق ہے اور اﷲ اپنا حق تو معاف کر سکتا ہے
اپنے بندوں کے حقوق کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔
زکوۃالفطر کے حوالے سے چند اہم باتیں۔۔۔
۱۔زکوۃالفطر ہر مسلمان پر فرض ہے جس کے پاس ایک دن کی حاجت سے زیادہ،ایک
صاع (تقریباًتین کلو گرام )گندم،جو،کھجورکے برابر مال بچا ہو۔۲۔زکوۃ الفطر
بڑوں اوربچوں سب پر لازم ہے ۔
۲۔مسافر بھی ادا کرے گا،۳۔زکوۃ الفطر اناج کی صورت میں دیا جائے تو زیادہ
بہتر ہے یعنی گندم،چاول،کھجور وغیرہ یا پھر اس مقدار کے اناج کی قیمت ۔فطرانہ
عید کی نماز سے پہلے دینا لازم ہے اگر بعد میں دیا تو صدقہ شمار ہو
گا۔۴۔زکوۃالفطر غرباء،یتیم،مساکین جو استطاعت نہ رکھتے ہوں ان کو دی جائے
تاکہ وہ عید کی خوشیوں میں شامل ہو سکیں۔۵۔زکوۃالفطر ان اداروں کو بھی دیا
جا سکتا ہے جو رفاعی کاموں میں پیش پیش ہوں یعنی مدارس،خیراتی ہسپتال،وغیرہ۔
اﷲ ہم سب کو صحیح معنوں میں عید کی خوشیاں سمیٹنے اور دوسرں میں خوشیاں
بانٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
|