صفائی ، سلیقہ اور تہذیب!

 مسجد کے اندر بہت سارے موٹر سائکل کھڑے کرنے کی جگہ ہے۔ بروقت آنے والے نمازی اپنے موٹر سائکل اندر کھڑے کرتے ہیں اور تاخیرسے آنے والوں کو پارکنگ باہر کرنا پڑتی ہے، جہاں کچھ گاڑیاں وغیرہ بھی کھڑی ہوتی ہیں۔ مسجد سڑک سے کچھ اونچی ہے، اندر آنے والے تمام موٹر سائکل سوار اپنی سواری پر چڑھ کر ہی اندر داخل ہوتے ہیں، میں نے کبھی کسی صاحب کو باہر موٹر سائکل بند کرکے اندر داخل ہوتے نہیں دیکھا، مسجد انتظامیہ نے واضح طور پر وہاں لکھ رکھا ہے کہ موٹر سائکل باہر جاکر سٹارٹ کریں، مگر ہر کوئی موٹر سائکل اندر ہی سٹارٹ کرتا اور اس پر بیٹھ کر باہر آتا ہے۔ یہ سب کچھ اس صورت میں ہو رہا ہوتا ہے، جب سامنے صحن میں نمازی اپنی نماز اور عبادت میں مصروف ہوتے ہیں۔ مسجد کے اس منظر کر دیکھ کر مجھے اپنے گاؤں کا سکول یاد آتا ہے، سکول عام کھیتوں سے ذرا اونچی جگہ پر تھا ، چار دیواری چھوٹی ہونے کی وجہ سے باہر سے آنے والے لوگ دکھائی دیتے تھے۔ طلبا جب کسی استاد کو سائکل پر آتے ہوئے دیکھتے تو گیٹ کی طرف بھاگتے ، ماسٹر صاحب سائکل روک ہی رہے ہوتے تھے کہ طلبا ان سے سائکل پکڑنے کی دوڑ میں شامل ہو جاتے ، کوئی ایک کامیاب ہو جاتا تو وہ سائکل سکول کی حدود میں لے جاتا۔ تصور نہیں تھا کہ کوئی استاد بھی سائکل پر چڑھ کر سکول میں داخل ہو سکے۔ یہاں مساجد کا احترام بھی کوئی نہیں کرتا۔

بات سواری پر ختم نہیں ہوتی، جوتی جہاں آپ نے اتار دی، واپسی پر تلاشِ بسیار کے بعد ہی ملے گی، یا پھر اتار کر کسی محفوظ جگہ پر رکھیں۔ رمضان المبار ک میں چونکہ رش معمول سے زیادہ ہوتا ہے، اس لئے جوتیوں کا مسئلہ ہی رہتا ہے۔ بعد میں آنے والے اس بات کا لحاظ نہیں کرتے کہ وہ جوتا پہن کر جوتوں کے اوپر سے گزرتے رہتے ہیں، اگر آپ نے غلطی سے جوتی اسی قطار میں رکھی تھی، تو واپسی پر ذہنی طور پر تیار رہیے کہ اس پر سے کئی لوگ جوتے پہن کر گزر چکے ہونگے اور اس کی حالت بگڑ چکی ہوگی۔ میں نے غور کیا ہے کہ بہت سے معقول پڑھے لکھے لوگ بھی جوتے پہن کر نیچے توجہ نہیں کرتے کہ وہ لوگوں کی جوتیوں پر چل رہے ہیں یا فرش پر۔ ہماری مسجد میں گرمیوں میں پانی والے پنکھے چلتے ہیں، جن کی ٹھنڈی فوار گرمی کا زور توڑتی ہے، ہر پنکھے کے سامنے چار پانچ لوگوں کی اجارہ داری ہے، وہ پہلے آکر وہاں ڈیرہ ڈال لیتے ہیں ا ور اپنے دوسرے ساتھیوں کی سیٹ ’ریزرو‘ کرنے کے لئے وہاں کپڑا وغیرہ رکھ دیتے ہیں۔

مسجد میں موبائل کا کلچر بھی عام ہے، ویسے تو ہر مسجد میں نمازیوں کی یاد دہانی کے لئے یہ لکھ رکھا ہوتا ہے کہ ’’اپنے موبائل فون بند کر دیں‘‘ ، اس کے علاوہ نماز باجماعت کے وقت بھی اعلان کیا جاتا ہے ، مگر نماز کے دوران موبائل گھنٹیاں بجنے کا عمل لازمی سامنے آتا ہے، ظاہر ہے فون کرنے والے کو تو یہ معلوم نہیں کہ جسے وہ فون کر رہا ہے وہ کس جگہ ہے اور کس عمل میں مصروف ہے۔ اس لئے کسی کی گھنٹی بجی تو بار بار بجتی رہتی ہے۔ حیرت اس وقت ہوتی ہے جب اکثر لوگ فون بند کرنے کی بجائے فوراً کال سنتے ہیں۔ بہت سے ایسے بھی ہیں، جو فون آن کرکے نمازیوں کے کندھوں کے اوپر سے راستہ بناتے باہر کی جانب لپکتے ہیں ، اس دوران ان کی بات چیت بھی جاری رہتی ہے، نہ انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ میری وجہ سے لوگ ڈسٹرب ہورہے ہیں، میری وجہ سے دوسروں کو پریشانی اور مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گزشتہ دنوں ہماری مسجد میں افطاری کا اہتمام کیا گیا تھا، شام سے ہی تیاریاں شروع ہوگئیں، دریاں بِچھ گئیں، دیگیں آنے لگیں، اور دیگر لوازمات تیار ہونے لگے۔ نہ جانے کہاں سے سیکڑوں لوگ جو عام طور پر وہاں نہیں پائے جاتے تھے، افطاری کے لئے آدھمکے۔ اس اچانک رش پڑنے سے بہت سے نمازیوں کو صف کے بغیر فرش پر ہی نماز ادا کرنا پڑی۔ انتظامیہ نے کھانا نماز کے بعد رکھا تھا، بس لوگوں نے فرض نماز کو ہی کافی جانا اور کھانے کے لئے دسترخوان پر بروقت قابض ہو کر بیٹھ گئے، اگلے چند منٹوں میں انہوں نے کھانے کے ساتھ خوب انصاف کیا ، وہ تو چلے گئے، انتظامیہ کو البتہ صفائی کی سخت مصروفیت مل گئی کیوں کہ تراویح کا وقت قریب تھا۔ میں پورے رمضان المبارک میں یہی سوچتا رہا کہ ہم صفائی، سلیقہ اور تہذیب کب سیکھیں گے؟ ہمیں یہ باتیں کون سکھائے گا؟
 
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472606 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.