تقلید؟

کون ہے جس نے عبدالستار ایدھی کی تعزیت کرکے ثوابِ دارین سے اپنا حصہ وصول نہ کیا ہو۔ جس کا جو مقام تھا، جو اہلیت تھی، اور جتنی کچھ پہنچ تھی ، اس نے اپنی کاروائی کی۔ ایدھی کے بیٹے کی اپنے انداز کی کہانی تھی، دوستوں کی الگ گفتگو تھی، ان کے عملے کے افراد کی اور بات چیت تھی، لکھنے والوں نے اپنے اپنے انداز میں لکھا، ان سے مستفید ہونے والے اپنے طریقے سے کہانی بتاتے ہیں، دیکھنے والوں کا اپنا نقطہ نگاہ ہے، ٹی وی پر ان کے واقعات اور حقائق بیان ہو رہے ہیں۔ مرنے کے بعد غیر متنازع، ہیرو اور سادگی و درویشی کا پیکر قرار دیئے گئے، کیونکہ وہ تھے ہی ایسے۔ ہر کسی نے اپنے طریقے سے ان کی تعریف کی، ان کی خدمات کو سراہا، ان کی مشکل زندگی پر بات چیت کی، ان کے دو سوٹوں اور چپل کی بات کی، بینک بیلنس کا ذکر ہوا، اور ذاتی گھر کے نہ ہونے پر بھی بات ہوئی۔ بہت سے لوگوں نے ایدھی کو رول ماڈل قرار دیا، بہت سے سیاستدانوں نے بھی انہیں اپنے اپنے حساب سے خراجِ عقیدت پیش کیا۔ دانشوروں اور میڈیا پرسنز نے ان کی تقلید کے لئے بھی قوم کی خوب رہنمائی کی اور بتایا کہ ہم سب یہ کام کیوں نہیں کرسکتے؟

دانشوروں اور مثبت سوچ رکھنے والوں کا یہ سوال واقعی بہت اہم ہے، قابلِ غور بھی ہے( اور قابلِ عمل بھی)۔ پاکستان میں اس وقت بھی لاکھوں لوگ خدمت کے اسی جذبے سے سرشار ہیں، ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو افراد اور اداروں کے نام سے نمایاں ہو چکے ہیں، بہت سے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اپنے اپنے حلقے میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ایسے افراد اور اداروں کی بھی کمی نہیں جن کا نام ملکی سطح پر نمایاں ہو کر سامنے آچکا ہے۔ ظاہر ہے ہر فرد ایدھی نہیں بن سکتا، ایدھی جیسے افراد تو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں، زندگی بھر اسائشوں اور آرام و سکون قربان کرنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایدھی کی وفات سے خدمت کا ایک جذبہ پوری قوم کے دلوں میں موجزن ہوگیا ہے، فوری طور پر ہی ہر فرد خدمت کے کام میں جُت جانا چاہتا ہے، شاید وقت کے ساتھ ساتھ یہ غبار اتر جائے گا۔ چونکہ پاکستان میں خدمت کرنے والوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے، اس لئے ان سے مستفید ہونے والے بھی بہت ہیں، دینے والوں کے بہت سے معاون ہیں، جو سہولتوں کے دوسروں تک پہنچاتے ہیں، یوں اس کام میں مصروف لوگوں کی تعداد میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔

دل میں خدمت کا جذبہ رکھنا، کسی حد تک دوسروں کی مالی مدد کرنا زیادہ مشکل کام بھی نہیں، ہم لوگ اپنی حیثیت سے بھی کم تر چند روپے دے کر اپنے تئیں یہ تصور قائم کرلیتے ہیں کہ ہم بھی بڑے حاتم طائی ہیں۔ تھوڑی سی مشکل اس وقت شروع ہوتی ہے جب خدمت کا کام عملی طور پر کرنا پڑے۔ اگرچہ جو فرد خدمت کا جتنا کام کرنا چاہے وہ غنیمت ہے، جس حیثیت میں کرے وہ بھی ٹھیک ہے۔ مگر معراج وہی ہے کہ انسان دوسروں کی مدد کرے تو اپنی بڑی آمدنی سے چند سکے نہیں، معقول حصہ دے، اگر رقم نکالے تو اپنا پیٹ کاٹ کر، خرچ کرے تو اپنے کاروبار میں سے نمایاں۔ ہم میں سے کون ہے جو دو نئے سوٹ سلواتے ہوئے کہے کہ میں ایک سلوا لیتا ہوں، دوسرا کسی مستحق کو دے دوں گا، اسی طرح کھانے پینے پر اٹھنے والے اخراجات کو کم کرنے والا کون ہے؟ شاید ایسے افراد کی تعدا د گنتی کی ہوگی جو صاحبِ حیثیت ہیں، ہر سال حج اور عمرے کرسکتے ہیں، مگر وہ ایک دو حج اور کچھ عمرے کر کے اب وہاں خرچ ہونے والی رقم کو غریب، نادار، مستحق اور مریضوں پر لگارہا ہو، کتنے ہیں جو اپنے اخراجات اور ضروریات کو ایک جگہ روک کر بچ جانے والی رقم کو ضرورت مندوں پر خرچ کرتے ہیں؟ ہم ایدھی نہیں بن سکتے، مگر اپنی ضروریات پوری ہونے پر، یا اضافی رقم کو تو خدمت کے کاموں میں لگا سکتے ہیں۔ اگر ہم بحیثیت مجموعی خدمت کا بیڑہ اٹھا لیں، فضول خرچیوں اور عیاشیوں سے ہاتھ کھینچ لیں، تو پاکستان میں غربت کی سطح کم ہو سکتی ہے، ضرورت مندوں کی مدد ہو سکتی ہے، انسانیت کی خدمت ہو سکتی ہے، مگر جب ہم اپنے پیٹ سے آگے نہیں سوچتے، اپنی مراعات اور عیاشیوں پر قانع نہیں ہوتے، تو ہماری ناک کے نیچے انسانیت ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتی رہے گی اور ہماری آنکھوں پر مفاد کی چرپی کچھ دیکھنے نہیں دے گی، کسی محسن کی زندگی سے ہم کچھ نہیں سیکھ سکیں گے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 431943 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.