ویسے تو دنیا میں سب سے مہنگی ڈش سانپ کا
سوپ ہے جو کہ چائنا میں انتہائی مہنگے داموں اعلیٰ ہوٹلوں میں بکتی ہے اور
دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاح اور مقامی دولت مند افراد مزے لے لے کر اسے پیتے
اور ڈکارتے ہیں ویسے بھی چائنا میں سانپ شوق سے کھایا جا تا ہے۔ کئی ممالک
میں کوے کو بھی حلال جانور قرار دے کر کھایاپکایا جاتا ہے ۔اور سور کا گوشت
تو بیرونی ممالک میں ہر جگہ موجود ملتا ہے مگر حلال زبیحہ کا ملنا محال
ہے۔کسی پاکستانی یا اسلامی ملک کے ہوٹل کے علاوہ کہیں دستیاب نہیں۔ہمارے
دین کے مطابق سور کا گوشت حرام ہے۔نا بغۂ عصر اورعقبریٔ اسلام مولانا سید
ابو الاعلیٰ مودودی سے سوال کیا گیا کہ سور کا گوشت کیوں حرام ہے۔انہوں نے
فرمایا کہ یہ جانور انتہائی بے غیرت واقع ہوا ہے۔ایک ہی ریوڑ میں پیدا ہو
کر اپنی ماں ،بہنوں سے بھی بد فعلی کرنے سے بعض نہیں رہتا اس لیے جو قومیں
اس کا گوشت کھاتی ہیں ان پر اس کے اثرات بھی ویسے ہی مرتب ہوتے ہیں اور وہ
نائٹ کلبوں میں اپنی ہی بیویوں ،بہنوں کو لے جا تے ہیں۔ دیر رات میں جب
سبھی کلب کے ممبرز نشوں میں مدہوش ہو جاتے ہیں اور وقت مقررہ پر لائٹیں تک
بھی بند کردی جاتی ہیں تو پھر کسی کو ہوش کہاں؟ کہ کونسی تھی کسی کی بہن
اور کہاں گئی آپ کی زوجہ محترمہ صاحبہ۔کپل ڈانسوں میں ہر جوڑا خود بخو
دتیار ہو جاتا ہے۔مگر ہمارادین اسلام ہر قسم کے زنا کے قطعاً خلاف ہے۔ویسے
بھی بیرونی ممالک میں جو عورت نقاب اوڑھتی ہے وہی مجرمہ ٹھہرتی ہے حالانکہ
جس عورت کا حجاب ہی اتر گیا پھر کہاں گئی نسوانیت اور کہاں گیا اخلاق۔ جہاں
بیوی اور بہن کا تصور ہی ختم ہو گیا پھر وہ معاشرے کیسے چل سکے گا۔کسی
بیرونی ترقی یافتہ ملک کے اندر کوئی دس منٹ کے لیے بجلی بند ہو جائے تو زیر
زمین چلنے والی ٹرینوں بڑے کاروباری پلازوں وغیرہ میں ڈکیتی اور زنا کی
ہزاروں وارداتیں ہوجاتی ہیں اور ایسی تباہی مچتی ہے جو عرصوں یاد رہے۔یہ ان
قوموں کا احوال ہے جو اپنے آپ کو انتہائی قانون کی پابند اور محافظ بتاتی
ہیں۔پاکستان میں تو کبھی کبھار جب"محتری و مکرمی قصائی صاحبان " خود گدھے
اور کتے کا گوشت کھا کھا کر دل اچاٹ ہوتا محسوس کرتے ہیں تو " مہربانی"
فرما کر ہمیں بھی ان کا مزا چکھانے کے لیے انھیں ذبح کرکے ہماری خوراک کا
بھی حصہ بنا ڈالتے ہیں۔کہ ہم ان کے مسلمان بھائی جوہو ئے۔شرم ہمیں اور
انھیں مگر نہیں آتی!عید ،شب برات اور دیگر مذہبی تہواروں پر چونکہ افراتفری
ہوتی ہے جس سے گوشت بیچنے کی دوکانوں پر چھینا جھپٹی کا سامان ہوتا ہے اس
لیے قصائی بھائی اپنا "کام" ڈال دیتے ہیں ۔مذکورہ بالا گزارشات تمہید کے
طور پر عرض کی ہیں میں اب اصل بات کی طرف آتا ہوں کہ کھالیں خریدنے اور
بیچنے والوں کاایک انتہائی خفیہ کاروبار بھی ہے۔ جو کہ انتہائی کریہہ اور
غلیظ ترین کاروباروں میں اولیت اختیار کرچکا ہے جب آپ کو پتہ لگے گا تو آپ
بھی انگشت بدندان رہ جائیں گے یہ ہے "لیلی " کا کاروبار ۔یہ غلیظ کاروبار
کرنے والے ا ب تو اربوں پتی ہیں ۔اپنی زمینوں پر بہت ساری بھیڑ،بکریاں،دنبے
پالتے ہیں پھر جو جانور حاملہ ہوجائے اسکی سخت تحقیق رکھتے ہیں کہ اب
نوزائیدہ بھیڑ کا بچہ کتنے ماہ کا ہو گیا ہو گا۔ مختلف افراد مختلف تاریخوں
پر جانورکو ذبح کرکے ا س کا بچہ اسکے پیٹ سے نکال لیتے ہیں۔نوزائیدہ معصوم
بچے کی کھال بالکل ریشم کی طرح ہوتی ہے اور بیرونی دنیا میں اس کی قیمت
پوری بھیڑ،بکری ،دنبے کی قیمت سے بھی سینکڑوں گنا زیادہ ہوتی ہے۔اغلب امر
یہی ہے کہ جو سردیوں کے لیے ٹوپی بیرونی ممالک لاکھوں روپوں کی ملتی ہے وہ
یہی ذبح شد معصوم بچے کی کھال کی بنتی ہے۔بھلا اس کاروبار کو کیا کہا جائے
گا۔جو نوزائیدہ بچوں کو نارمل پیدائش سے قبل اس کی ماں کو زبح کرکے نکال کر
صرف کھال استعمال ہوتی ہے۔اس طرح یہ مکروہ کاروباری حضرات لاکھوں کماتے
ہیں۔کسی جاندار انسان کوقتل کرنے پر تو پھانسی کا پھندہ لگ جاتا ہے مگر
ابھی جو پیدائش کے قابل ہی نہ ہوا ہو تو اس کی والدہ بھیڑ بکری یا دنبے کو
زبح کرکے اس کا چند ماہ یاکم کا بچہ نکال کر صرف اس کی کھال کے حصول کے لیے
یہ مذموم اقدام کرناکیا قابل گردن زدنی اور تختہ دار پر کھینچ ڈالنے والا
عمل نہیں۔ کیا فرماتے ہیں علمائے کرام بیچ اس مسئلہ کے؟ایسے کاروبار کرنے
والے بظاہر اپنے آپ کو بہت نیکو کار ،مدارس مساجد،مندربنوانے والے ہوں گے
نذر نیازوں اور خیراتوں پر بھی زور ہو گا تاکہ عام افراد اور انتظامی مہرے
ان کا نقاب الٹا کر غلیظ اور مکروہ چہرہ نہ دیکھ سکیں۔خدا ہی انھیں ہدایت
کی توفیق دے سکتا ہے۔دوسری طرف ہندو بنیے تو آج بھی نوزائیدہ انسانی بچہ
اگر فوت ہوجائے توتازہ دفن شدہ کے مختلف اعضاء قبروں و مرگھٹوں سے نکال کر
مختلف جڑی بوٹیاں استعمال کرکے نام نہادادویات تیار کرتے ہیں۔انہی ہندو با
بوؤں نے مشہور کر رکھا ہے کہ شہد کے بڑے ڈرم میں نوزائیدہ بچہ اتنے عرصے تک
ڈبو کر رکھا جائے اور اسے کئی درجن سالوں کے بعد استعمال کریں تو وہ امرت
دھارا کاکام دیتا ہے وہ ایسی تمام بیماریوں کا علاج کرسکے گا جو مریض عام
ادویات سے تندرست نہیں ہو سکے۔ہندوؤں کے دیگررسم و رواج پر کبھی تفصیلاً
بات ہو گی۔مسلمانوں کے عقائد کے مطابق تو کسی جادو ٹونے اور کالے علم کا
کوئی اثر نہیں۔ہم خدا وند کریم اور اسکی طرف سے بھجوائی گئی راہ ہدایت پاک
کتاب قرآن مجید کی تعلیمات پر عمل کرکے ہی دین و دنیا میں فلاح پا سکتے ہیں
اور بدرجہ اتم سکون قلب بھی حاصل ہو گا۔ہماری تکالیف اور تمام مسائل کاحل
اسلامی عقائد کی پیروی میں ہی مضمر ہے۔ |