ہمیشہ دوسروں کی خامیاں تلاش کرنا ۔۔۔!!!

معاشرے کے اندر بہت سی برائیاں ایسی پائی جاتی ہیں جن کو ہم برائی کے زمرے میں نہ تو لیتے ہیں اور نہ ہی سمجھتے ہیں ایسی ہی ایک برائی کا بیان ایک واقعہ سے کرتا ہوں جو کہ یقینا ہمارے معاشرے کے اندر موجو د تو ہے مگر نظر انداز ہے،یہ برائی ہم چلتے پھرتے ، اچھے خاصے ، ٹھیک ٹھاک آدمی ، ادارے یا حکومت میں سے خامیاں نکالتے ہوئے کرتے ہیں، اور بڑی آسانی سے مفتی بن کر کسی پر کسی بھی وقت کیسا ہی فتویٰ لگا دیتے ہیں ، بعض محفلوں میں تو ہم ایسے سکالر بن جاتے ہیں کہ جیسے ہم دنیا کے ہر علم سے باخوبی واقف ہیں، اور بعض جگہوں میں خاص کر ہوٹلوں اور گاڑیوں میں ہم ایسے مسائل کے حل کے دیوتا بن جاتے ہیں ۔۔۔یہ ہی نہیں اگر کوئی ہلکی سی تعریف میں یہ کہہ دے کہ " ہاں جی آپ نے ٹھیک کہا ہے۔" بس پھر ہم اور پھولنے لگتے ہیں اور اپنے آپ کو معتبر سمجھتے ہوئے اور فتویٰ داغ دیتے ہیں اور سامنے بیٹھے لوگوں کو اپنے علم و سوچ اور تجربے کے آگے حقیر سمجھنے لگتے ہیں۔میں بات کر رہا تھا کہانی کی تو وہ ادھر ہی رہ گئی، پہلے اس کو بیان کر دیتا ہوں : " بادشاہ کا وزیر اپنے بیٹے کو نصیحت کرتا ہے کہ تم وقت کے بادشاہ سلامت کی صحبت سے فائدہ اُٹھایا کرو تاکہ مستقبل قریب میں بوقت ضرورت تم دین و دنیا کی فلاح حاصل کر سکو۔۔۔بیٹا آگے سے جوان بھی تھا اور کچھ تھوڑا تیز و ہوشیاربھی( آج کل کے مفتی کے فلاسفروں کی طرح )تو وہ یکدم والد سے بولا کہ میں معذرت کرتا ہوں آپ کی اس نصیحت کی کیونکہ اُس بادشاہ کے دربار سے مجھ کو دینی تعلمیات ملنا تو درکنا ر دنیاؤی بھی نہیں مل سکتیں کیونکہ بادشاہ ِ وقت کے دربار میں رنگ و شباب کی محافل بھی ہوتی ہیں، ان کا طریق بھی شاہی ہے، ان کے سروں کے تاج ہیرے جواہرات سے بنے ہیں وغیرہ وغیر ہ ۔العرض بیٹے نے وزیر باپ کے سامنے بادشاہ کی ہزاروں خامیاں عیاں کرتے ہوئے ناز سے بولا کہ میں نہیں کرتا۔۔۔ باپ تو پھر باپ ہے دربار میں پریشانی کے عالم میں کھڑے وزیر کو بادشاہ نے دیکھا تو حالات و واقعات کی آگاہی چاہی تو وزیر نے بادشاہ کو اپنے بیٹے کے ساتھ ہونے والے سارے مکالمے سے آگاہ کر دیا۔۔۔ بادشاہ مسکرایا اور بیٹے کو دربا ر میں طلب کر لیا، بیٹے نے وہی سوالات بادشاہ کے سامنے رکھ دیئے تو بادشاہ نے بڑے تحمل کے ساتھ اُس کے آگے اپنی ایک شرط رکھتے ہوئے بولا کہ یہ شرط پوری کر دو تو میں تم کو تمہارے سوالا ت کا جواب دے دونگا۔ ۔۔ جوان تھا اور جوشیلا بھی ۔۔۔بادشاہ کی دوربینی کو نہ سمجھتے ہوئے تسلیم کر لیا تو بادشاہ کے حکم سے اُس کے سر پر دودھ سے بھرا ہو دیکچہ رکھ دیااور حکم دیا کہ اے لڑکے ۔۔۔!!! تم یہ دیکچہ لے کر بازار جاؤ اور وآپس آؤ تو میں تمہارے سوالات کا جواب دے دونگا۔۔۔لڑکا خوش ہونے کو تھا کہ یہ تو کوئی کام ہی نہیں مگر بادشاہ نے ایک سپائی کو حکم دیا کہ جیسے ہی دودھ میں سے ایک قطرہ نیچے گرِ ے تو اس کی گردن تلوار سے اُڑا دینا۔۔۔یہ سُنتے ہی لڑکے کے حواس باختہ ہو گئے ۔۔۔مگر اب حکم بادشاہ تھا پو را تو کرنا تھا ، الغرض وہ گلی محلوں سے گزرتے ہوئے بازار کا چکر لگا کر وآپس دربار میں حاضر ہوا تو سکھ کا سانس لیا ، بادشاہ نے لڑکے کو دیکھاتو حیر ت و مسرت سے اُس سے پوچھا کہ کیوں بازار میں کیا کچھ دیکھا ۔۔۔؟؟؟وہ لڑکا جو سارے راستے اپنی گردن بچانے کے چکر میں تھا اس نے معذرت کرتے ہوئے عرض کی جناب جان کی پناہ ہو تو عرض کرتا ہوں کہ سر پر دودھ سے بھر ا دیکچہ اور پیچھے ننگی تلوار لیے سپاہی جو ایک قطرہ گرنے پر گردن اُڑانے کو تیار تھا تو ایسے میں کسی کو کیا ہوش بازار کی رنگینوں سے۔۔۔ یہ جواب سننا تھا کہ بادشاہ سمیت پورے دربار نے لڑکے کو سبق ملنے پر مسرت کا اظہار کیا ۔۔۔ بادشاہ نے لڑکے کو نصحیت کی کہ بیٹا جب سر کے اُوپر ذمہ داریوں کا بوجھ ہوتو دربار و بازار کی رنگینوں کی طرف نہ نظر جاتی ہے اور نہ توجہ بلکہ ہر وقت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی جستجو لگی رہتی ہے۔ـ"

واقعہ سے سبق تو یہ ہی ملتا ہے کہ انسان کو دوسرے کے اندر کی خامیاں بڑی آسانی سے نظر آجاتی ہیں اوراپنی طرف سے کسی کی بھی ذات پر یک دم فتوٰی داغ دیتے ہیں اگرچہ کہ اصل حقیقت کچھ اور ہی کیوں نہ ہو ، اور جب ذمہ داری اپنے سر پر آتی ہے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ہے، مگر مزے کی بات تو یہ ہے کہ ایسے لوگ اکثر اپنی ذمہ داریوں سے عاری ہوتے ہیں اور ان کا کام صرف اور صرف لوگوں کے کاموں میں سے نقص نکالنا ہوتا ہے اور ایسے ہی لوگ زندگی کو صرف ایک پہلو سے دیکھتے ہیں اور یہ زحمت تک گوارا نہیں کرتے کہ آئینے کا دوسرا رخ بھی دیکھ لیں کہ وہ کیسا ہے اور اکثر ایسے لوگ جھوٹ کا استعمال بڑی عمدگی کے ساتھ کرتے ہیں، اور ہم لوگ بھی بڑی عمدگی ، نفاست اور دلچسپی کے ساتھ ان کی باتوں کو سنتے ہیں اور اس شخص کی بات کو تو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں جو بڑی عمدگی کے ساتھ جھوٹ کا سہار ا لیتا ہے۔ معاشرے سے اس قسم کی برائیوں کے خاتمے کی اس وقت بہت اہم ضرورت ہے جس کے لیے ہم سب کو اقدامات کرنے ہونگے نہیں تو ایک مشہور کہاوت ہے کہ ـ" سچ کی تلا ش کرنے تک جھوٹ دنیا میں تباہی مچا چکا ہوتا ہیـ ـ"
Muhammad Jawad Khan
About the Author: Muhammad Jawad Khan Read More Articles by Muhammad Jawad Khan: 113 Articles with 191204 views Poet, Writer, Composer, Sportsman. .. View More