سیکولرجمہوری ریاست کا فکر: ایک مسلمان سیاسی مفکر کی نظر میں
(Dr. Muhammad Javed, Dubai)
سیکولر ازم بمقابلہ اسلامی نظریات کے حوالے
سے مختلف عنوانات سے بحثیں پڑھنے کا اتفاق ہوتا ہے، لفظ سیکولر اور لبرل کو
اس قدر ہمارے ہاں معیوب بنا دیا گیا ہے، کہ اس کانام سنتے ہیں ، بے دینی،
لادینی وغیرہ وغیرہ کے تصوراتی خاکے دماغ میں گھومنا شروع ہو جاتے ہیں۔
حالانکہ کہ کبھی کبھی مولانا اشرف علی تھانوی صاحب جیسے مذہبی عالم اور
صوفی بھی یہ کہہ گذرتے ہیں کہ ’’اپنے عقیدے کو سلامت رکھو اور دوسرے کے
عقیدے کو مت چھیڑو‘‘ دراصل اگر نہایت سادہ انداز سے سمجھا جائے تو سیکولر
ازم بھی اسی طرح کے روئیے کا تقاضہ کرتا ہے یعنی ایک ایسا ماحول ایک ایسا
معاشرہ ایک ایسی ریاست جہاں لوگ اپنے اپنے عقیدے کی بنیاد پہ بلا کسی جبر
کے آزادی سے اپنی سیاسی، معاشی اور سماجی زندگی کو آگے بڑھا سکیں۔اس کی
عملی شکل آج کے دور میں حقیقی جمہوریسیکولر ریاست کے سوا کچھ نہیں۔
برصغیر کی تاریخ میں ایک ایسے عالم دین اور سیاسی مفکر بھی گذرے ہیں جنہوں
نے ایک جمہوری سیکولر ریاست کا تصور دیا ہے اور مسلمانوں پہ زور دیا ہے کہ
وہ عصر حاضر کے تقاضوں پہ غور کریں اور اپنی حالت کو بدلنے کی کوشش کریں ،
اور یہ خلاف اسلام نہیں بلکہ اسلام کے فطری اصولوں کی ہی تکمیل ہے۔اس دینی
سیاسی مفکر کا نام مولانا عبید اللہ سندھی ہے، جنہوں نے بدلتے ہوئے بیسویں
صدی کے تقاضوں کی روشنی میں مسلمانوں بالخصوص مذہبی علماء کو اپنی سوچ، فکر
اور طرز عمل تبدیل کرنے کی دعوت دی ۔آپ مذہبی عالم ہونے کے ساتھ ساتھ ،عصری
سیاسی ،سماجی و اقتصادی علم وفن میں نہ صرف دستگاہ رکھتے تھے بلکہ انہوں نے
عملی سیاسی تجربات کے ذریعے اپنے افکار کو جلا بخشی۔عبید اللہ سندھی برصغیر
میں انگریز سامراج کے خلاف تحریک آزادی کے اہم رہنما اوررکن تھے۔ خوب سے
خوب تر کی تلاش نے انہیں سکھ مذہب سے زیادہ ترقی پسند دین اسلام کو قبول
کرنے پہ آمادہ کیا۔ آپ نے صوفیاء اکرام کی انسان دوست اورتزکیہ واخلاق پر
مبنی ماحول میں تربیت پائی۔پھر برصغیر کے مشہور دینی علمی اداروں سے قرآن
،حدیث،،فقہ وتفسیر و غیرہ کے علوم سے بہرہ مند ہو نے کے بعد مدرس کے فرائض
بھی انجام دئیے۔یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان سامراجی غلامی میں جکڑا ہوا
تھااور سامراج کے خلاف آزادی کی تحریکات زوروں پہ تھیں۔لہذا وہ اپنے وطن کی
آزادی کی اس جدو جہد میں شریک ہو گئے۔ان کو تحریک آزادی میں شریک بڑے اور
قابل رہنماؤں سے استفادہ کا موقع ملا، انہوں نے ہندوستان کوآزادی دلانے کے
لئے دیگر ممالک کی حمایت اور مدد کے لئے ایک منصوبے کے تحت اپنے عالمی
سفرکا آغاز افغانستان سے کیا ، پھر روس کا سفر کیا ،پھر ترکی سے ہوتے ہوئے
حجاز(سعودی عرب) پہنچے۔ اور اس طرح انہوں نے اپنی زندگی کے کئی سال جلاوطنی
میں گذارے۔اس پورے سفر کے دوران انہوں نے ان گنت مصائب اٹھائے اور بے تحاشہ
علمی و سیاسی تجربات ہوئے، جب وہ اپنے وطن سے چلے تھے تو وہ ایک محدود سوچ
کے ساتھ چلے تھے اور جب اس سفر کا اختتام ہوا تو وہ کئی سالوں کے تجربات
میں پکی ہوئی ایک وسعت پذیراور ترقی پسند فکر کے ساتھ وطن واپس لوٹے
۔مولانا سندھی جب ہندوستان سے چلے تو اس آزادی کی تحریک کا ایک مضبوط حصہ
تھے جسے انگریز ریشمی رومال کہتے ہیں۔مولانا کا نظریہ اسلامی
اتحاد،مسلمانوں کے ممالک کی مدد سے ہندوستان کو آزادی دلانا تھا۔لیکن
افغانستان،روس اور ترکی اور اس کے بعد حجاز میں بارہ سالہ قیام نے مولانا
سندھی کو اپنے گذشتہ نظریات اور عمل پہ نظر ثانی کرنے پہ مجبور کر
دیا۔انہوں نے اپنے اس سیاسی سفرمیں خاص طور پہ اس حقیقت کا مشاہدہ کیا کہ
جب وقت کے تقاضے بدلتے ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ اقوام کو اپنی روش بھی بدلنی
چاہئے۔انہوں نے اپنی آنکھوں سے پرانے اور فرسودہ دستوروں اور نظاموں کو
ملیا میٹ ہوتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے سلطنت عثمانیہ کو ٹوٹتے اور بکھرتے
دیکھا، انہوں نے ایک حقیقت پسندمفکر کی طرح ،کھلے دل سے اپنی ناکامیوں کو
تسلیم کیا،اور ان کی وجوہات کو جاننے کی کوشش کی۔ انہوں نے اسلامی علوم کا
عصری تقاضوں کی روشنی میں انقلابی نقطہ نظر سے مطالعہ کیا ۔اور اس سے نتائج
اخذ کئے۔اور بر ملا اپنی نئی اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ سماجی،سیاسی اور
معاشی فکر پیش کی۔‘‘
مولانا بیسویں صدی میں اسلامی ریاستوں کے زوال پہ روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے
ہیں
’’اسلام کی بین ا لاقوامی تحریک کا یہ چوتھا دور تھا اس دور میں زمام
اقتدار کلیۃ غیر عرب مسلمان اقوام کے ہاتھ میں آ گئی اور خود عرب قوم اور
ان کا ملک تک عثمانی ترکوں کے ماتحت ہو گیا ۔ان مسلمان اقوام پر ان کے قومی
بادشاہ حکومت کرتے تھے۔یہ ان معنوں میں تو جمہور کے نمائندے نہ تھے کہ ان
کے عزل ونصب کا اختیار جمہور کو ہوتا ۔یہ تلوار کے زور سے تخت وتاج کے مالک
بنتے تھے اور جو ان میں سے صالح ہوتا۔وہ البتہ جمہور کی مرضی کے مطابق
حکومت کرتا تھا۔آہستہ آہستہ حکمراں بادشاہ جمہور سے دور ہٹتے چلے گئے اور
آخر کار ’’شاہیت‘‘اپنے محکوموں کے لئے وبال جان بن گئی۔بدقسمتی سے مسلمان
جمہور میں اتنی طاقت نہ تھی کہ وہ ان ’’بادشاہوں‘‘کو جواب محض نام کے
بادشاہ رہ گئے تھے مسند اقتدار سے الگ کر کے خود ملک کا انتظام اپنے ہاتھ
میں لے لیتے ۔اور دنیائے اسلام میں قومی شاہی حکومتوں کے بجائے قومی جمہوری
حکومتیں بن جاتی ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یورپ میں تو جمہور نے بیدار ہو کر
اپنے مطلق العنان بادشاہوں کو یا تو تخت سے محروم کر دیا ،یا انہیں اپنی
مرضی کے تابع بنا لیا۔ لیکن مسلمان جمہور خواب غفلت میں پڑے سوئے رہے اور
اگر کبھی ان کو جگانے کی کوشش بھی ہوئی تو مستبد بادشاہوں نے اسے اپنے
اقتدار کے خلاف سمجھ کر بار آور ہونے نہ دیا ۔حس اتفاق دیکھئے کہ
’’شاہیت‘‘کے اس دور میں کم وبیش ایک ہی زمانے میں ہر اسلامی ملک میں ایسی
تحریکیں شروع ہوئیں جن ے مخاطب جمہور تھے یہ تحریکیں قومی اور جمہوری
تھیں۔ان کے بانیوں کے پیش نظر ساری دنیائے اسلام نہ تھی ۔بلکہ صرف اپنی قوم
کے جمہور تھے۔عثمانی ترکیوں کے ہاں اس تحریک نے تنظیمات کی شکل اختیار
کی۔عربوں میں ،محمد بن عبد الوہاب پیدا ہوئے۔شمالی افریقہ میں امیر عبد
القادر نے قوم کی زمام قیادت سنبھالی ۔مصر میں خدیو محمد علی اہل مصر کے
قومی جذبات کے ترجمان بنے۔ایران میں بھی قومی بیداری نے جنم لیا ۔شاہ ولی
اللہ اور ان کے نام لیواؤں نے ہندوستان کے مسلمان جمہور کو منظم کرنے کی
کوشش کی۔بدقسمتی سے ان تحریکوں کا ابھی آغاز ہی ہوا تھا کہ یورپ کے جمہور
جو قریباً دو صدی پہلے بیدار ہو چکے تھے ،مشرقی ملکوں پر پل پڑے اور بجائے
اس کے کہ قومی بادشاہوں کی وارث قومی پارلیمنٹری حکومتیں بنتیں،یورپ والے
بیچ میں آ گئے اور تمام اسلامی دنیا ان کی ترکتازیوں سے تہ وبالا ہو گئی۔‘‘
بدلتے ہوئے دور کے تقاضوں میں لبر ل ازم یا سیکولر ازم کی عملی شکل جمہوریت
کو نہایت اہمیت دیتے تھے ان کا کہنا تھا کہ’’یورپ میں دو تحریکیں کار فرما
ہیں ،لبرل ازم اور مکینکل ازم پہلی تحریک کا نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ کے اکثر
ممالک جمہوریہ بن گئے۔حکومت بادشاہ کے نام سے ہو یا منتخب رئیس کے نام سے
بہر صورت ملک کے اہل آراء پارلیمنٹ کے مشورہ سے کام ہو رہا ہے۔اس طرز حکومت
میں بر طانیہ یورپ کے لئے استاد کا کام کرتا رہا ہے۔‘‘
جمہوریت کو برصغیر میں متعارف کروانے کے حوالے سے برطانیہ کی تعریف کرنے
میں آپ بخل سے کام نہیں لیتے تھے ،بیان کرتے ہیں’’ ایک صدی سے ہمارے ملک پر
بر طانیہ حکومت کر رہا ہے اس نے اپنا قبضہ جمانے کے لئے جو کام کئے اس وقت
تھوڑی دیر کے لئے ان سے قطع تعلق کر لیجئے۔لیکن جب اس نے ملک پر اپنی حکومت
قائم کر لی تو اس نے ہمیں جمہوریت سکھلاناشروع کر دیا۔اس کی بنائی ہوئی
یونیورسٹیوں نے ہمارے نوجوانوں کو جمہوریت پسند بنا دیا۔ہمارے ملک میں
اسمبلی اور کونسل اسی جمہوریت پسند عناصر کو راضی کرنے کے لئے بنائی گئی
ہے۔آپ دیکھ رہے ہیں کہ اب ہندوستانی راجہ اور نواب کی حکومت بھی اپنے ملک
کی مشیر پارلیمنٹ کے سوا نہیں چل سکتی۔یہ سب اسی جمہوریت پسندی کی برکت
ہے۔‘‘’’ہمارے نوجوان اگر دنیا کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں تو انہیں اس معاملے
میں برطانیہ کا شکر گذار ہونا چاہئے۔ہم نے اپنی سیاحت میں دیکھا کہ
ترک،ایرانی،افغانی اور عرب اپنے ممالک میں جمہوریت اور مشین کو ترقی دے رہے
ہیں۔‘‘
آپ جہاں جمہوریت کو لازمی قرار دیتے ہیں وہاں مشین یا انڈسٹری کو بھی اتنی
ہی اہمیت دیتے ہیں،مولانا انتہائی درد مندی سے کہتے ہیں:’’جب میں انجن اور
ہوائی جہاز کو دیکھتا ہوں تو یہ جان کر کہ میری قوم نے اس کو نہیں
بنایا،میریے اندر آگ لگ جاتی ہے،جو قوم ہوائی جہاز اور نجن سے غافل ہے وہ
قوم مردہ ہے بے جان ہے۔جب تک ہم اپنے شاہ پرستانہ سماج کو جو اب فرسودہ ہو
چکا ہے ختم نہیں کریں گے اور یورپین انداز پر اس کی تعمیر نو نہیں کریں گے
ہمارا کوئی مستقبل نہیں،یہ دور مشین کا ہے۔اور مشین کے لئے نیا سماج
چاہئے،پرانا سماج اور نئی مشین ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔‘‘ وہ نوجوانوں کو
مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں’’ہمارا نوجوان جمہوری نظام کے سوا کسی اور نظام
کو نہ مانے،قوم کے جمیع افراد کی پوری طاقت استعمال کرنا بجز اس نظام کے
ممکن نہیں۔‘‘
مزیدبیان کرتے ہیں کہ ’’یورپین قوموں کی سیاسی برادری میں شامل ہوئے بغیر
نہ تو ایشیا کی سیاسی ترقی آسان ہے۔نہ ہندوستان کی۔اس لئے معاشرتی انقلاب
خوشی سے برداشت کر لینا چاہئے۔ورنہ ارتجاعی قوتیں ملک کو خاک سیاہ بنا دیں
گی۔‘‘
بدلتے ہوئے اس دور کے تقاضوں سے عہدہ بر آ ہونے اور مسلمان معاشروں میں
موجود رجعت پسندی کے تدارک کے لئے تجویز کرتے ہیں کہ’’انسانی عمل خلا میں
واقعہ نہیں ہوا کرتا بلکہ اس کے لئے تاریخی تسلسل ضروری ہوتا ہے اس تاریخی
تسلسل کو توڑنے کے لئے ماحول کا بدلنا ناگذیر ہوتا ہے۔آج ہم سیکولر جمہوریت
اور سوشلسٹ جمہوریت سے ہی اسے تو ڑ سکتے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہاسلام اور قرآن کی روح اتنی ہی عام ہے جتنی انسانیت لہذا
نئے دور کے تقاضوں کی روشنی میں نئے تمدن کی تشکیل میں وہ کوئی رکاوٹ نہیں
ان کا کہنا تھا ’’ ماضی کی وراثت کا جائزہ لیں۔کھوٹے کھرے کو پرکھیں ۔کھوٹے
کو قومی وجود سے نکال باہر کریں ،جو کھرا ہے اس کو سینہ سے لگائیں ۔ارد گرد
جو نئے عناصر وجود میں آچکے ہیں،انہیں اپنائیں اور اپنے قومی مزاج میں ان
کو اس طرح سموئیں کہ وہ ان کے لئے موافق بن جائیں اور اس طرح اپنے لئے نیا
تمدن ،نیا نظام حیات اور نیا قانون وضع کریں۔بے شک اس تمدن ،نظام اور قانون
کی روح وہی ہو گی،جو قرآن اور اسلام کی روح ہے۔ہاں لباس کا فرق ضرور ہو گا
۔لیکن کیا قرآن اور اسلام کی روح اتنی ہی عام نہیں؟جتنی کہ خود انسانیت ہے
اور کیا انسانیت کو ہر زمان ومکان میں ایک ہی لباس کا پابند بنانا ناممکن
ہے۔‘‘
مسلمانوں کی اسلامی نظام ریاست کے حوالے سے چلنے والی تحریکات کے پیچھے
موجود سوچ جو جمہوری فکر کے راستے میں حائل ہے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں
کہ’’مسلمانوں کے ہاں صدیوں سے خدا کا تصور چلا آتا ہے وہ بھی ایک مستبد
بادشاہ کا ہے ایک حکیم علیم پروردگار کا نہیں پھر مسلمان نبی ﷺ کی سیرت
،خلفائے راشدین وصحابہ کے عمل اور ساری اسلامی تاریخ کو اسی رنگ میں صدیوں
سے پیش کر رہے ہیں ان کی تمام روایات بھی اسی کی تائید کرتی ہیں ان حالات
میں اور اس ذہنی تاریخی ماحول میں ان کی اسلامی حکومت کا جمہوری حکومت ہونا
نا ممکنات میں سے ہے۔‘‘اس طرح کی سوچ رکھنے والے مذہبی طبقہ کو مخاطب کرتے
ہوئے کہتے ہیں’’یہ سیاست ،یہ اجتماع ،یہ معیشت اور یہ تمہارا اسلام زیادہ
دیر نہیں چل سکے گا۔‘‘
کہتے ہیں ’’اس نوع کی احیاء پسند مذہبی تحریکیں اگر قومی و عوامی خطوط پر
نہ چلیں تو لازماً وہ علیحدگی پسندانہ فرقہ پرستانہ تحریکیں بن کر رہ جاتی
ہیں۔اس دور میں جماعت احمدیہ اور جماعت اسلامی کا انجام آپ کے سامنے
ہے۔‘‘مولانا سندھی کے اس فکر و تجزیہ کی تائیدمولانا ابولکلام آزاد نے بھی
کی ہے۔وہ بھی مسلمانوں کی عقیدے کی بنیاد پہ سیاسی جدوجہد سے مایوس
تھے۔مولاناابولکلام آزاد کا موقف تھا کہ’’میں اپنی زندگی کے تمام تجربات کے
بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس زمانے میں صرف مسلمانوں کی جو بھی تنظیم
ہو گی،وہ دیر یا سویر رجعت پسندی کا لازماً شکار ہو کر رہے گی۔یہ بات گو
بڑی بڑی تلخ اور تکلیف دہ ہے لیکن بد قسمتی سے حقیقت یہی ہے۔‘‘
پرو فیسر سرور جو کہ مولانا سندھی کے شاگرد ہیں اس سلسلے میں تاریخی مثالیں
دیتے ہوئے لکھتے ہیں
’’مولانا ابو الکلام آزاد اپنی زندگی میں جس نتیجے پہ پہنچے ان دو صدیوں کی
تاریخ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔شیخ محمد بن عبد الوہاب (۱۷۰۳ء ۔۱۷۸۷ء)کی
دینی اصلاح کی تحریک کتنی انقلابی تھی۔بجائے اس کے کہ اسی قسم کی یورپ کی
دینی اصلاحی تحریکوں سے وہاں جو دور رس فکری،سماجی ،معاشی اور سیاسی
تبدیلیاں بروئے کار آئیں،جن سے کہ ایک ترقی پسند طاقتور اور آگے بڑھنے والے
نئے یورپ کی طرح پڑی،شیخ محمد بن عبد الوہاب کی تحریک اصلاح بس مادی قسم کی
توحید پرستی تک محدود ہو کر رہ گئی اس کے حامیوں نے قبروں کے قبے تو گرا
دئیے لیکن وہ لوگ جو اپنی عقیدتوں کا اظہار ان قبوں کے ذریعہ کیا کرتے تھے
ان کے ذہنوں میں وہ کوئی تبدیلی نہ لا سکے یعنی اتنی بڑی تحریک نے مسلمانوں
کے ہاں کسی نئے فکری ،سماجی،سیاسی انقلاب کو جنم نہ دیا اور آج اس کے سر
گرم حامی اور علمبردار دنیائے عرب میں شخصی بادشاہت کے زبر دست نمائندہ اور
محافظ ہیں۔اسی زمانے کی ہندوستان میں شاہ ولی اللہ کی دینی اصلاح کی اور
علمی و فکری دعوت کو دیکھئے ان کے جانشینوں نے علوم منقولہ یعنی حدیث و فقہ
میں تو ان کی دعوت کو ایک حد تک اور وہ بھی ایک حد تک ہی اپنایا لیکن علوم
عقلیہ میں جو حاوی تھا سیاسیات کے علاوہ،تاریخ ،معیشت ،سماج،اور سیاست پر
بھی۔ان کی طرف چنداں توجہ نہ کی۔اس ضمن میں شاہ رفیع الدین نے کچھ رسائل
لکھے اور بدقسمتی سے شاہ ا سماعیل صرف عبقات لکھ کر رہ گئے۔اب اس عظیم مفکر
کی نام لیوا دو جماعتیں ہیں۔ایک دیو بندی ،جن کا ایک گروہ یقیناً سیاست میں
ترقی پسند ،آزادی خواہ اور سامراج کا شدید دشمن ہے،لیکن اس کے ساتھ ہی وہ
اپنے دینی فکر میں جامد اور قدامت پسند اور سماجی امور میں انتہائی رجعت
پسند ہے۔اور یہ ماننے کو تیار نہیں کہ نئی سیاست اور نیا فکر نئے سماج ہی
میں نشوونما پا سکتا ہے اور پرانے سماج کو بدلے بغیر کبھی کوئی ترقی پسند
سیاسی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی۔دیو بندی جماعت کا دوسرا گروہ سیاست میں
بھی رجعت پرست ہے،اور سماجی امور میں بھی اس کا تمام زور خانقاہی طرز کی رو
حانیت پر ہے ستم طریفی ملاحظہ ہو کہ شاہ ولی کے ماننے والے یہ حضرات ان کی
کتابیں بھی پڑھنا ضروری نہیں سمجھتے ان کی ساری متاع علمی فرسودہ قسم کے
رائج الوقت درس نظامی پر منحصر ہے۔‘‘
مولانا سندھی نے عملی طور پہ جو منشور اور پروگرام پیش کئے،مثلا مہا بھارت
سرو راجیہ منشور،سندھ ساگر پارٹی کا پرو گرام اور ان کے خطبات ومقالات اس
حقیقت کے گواہ ہیں وہ بحیثیت ایک مسلمان سیاسی مفکر کے کس طرح کی سیاسی
تبدیلی چاہتے تھے، یہ کس طرح کی سیاسی فکر اور تبدیلی مسلمان معاشرے میں
پیدا کرنا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان جماعتیں اپنے خیالات میں
تبدیلی پید اکریں۔پرانی جمود زدہ ذہنیت کو ختم کریں۔
انہوں نے کہا’’جو زمانہ گذر گیا وہ پھر واپس نہیں آیا کرتا جو پانی بہہ
جاتا ہے وہ لوٹتا نہیں ۔قرآن پر عمل کر کے خلافت راشدہ کے دور اول میں
صحابہ نے جو حکومت بنائی،اب بعینہ ویسی حکومت نہیں بن سکتی۔جو لوگ قرآن کو
اس طرح سمجھتے ہیں وہ حکمت قرآنی کے صحیح مفہوم کو نہیں جانتے۔بے شک خلافت
راشدہ کی حکومت قرآنی حکومت کا ایک نمونہ ہے۔لیکن یہ نمونہ بعینہ ہر دور
میں منتقل نہیں ہو سکتا۔ہاں اس کے مبادی اور اصولوں پر قرآنی حکومتوں کے
نئے نظام بن سکتے ہیں۔‘‘
مسلمان سیاسی جماعتوں کو جو کہ مذہب کی بنیاد پہ سیاست کر رہی ہیں۔ان کی
بنیادی سو چ یہ ہوتی ہے کہ شریعت کا نفاذ کرنا ہے۔اور قرآنی حکومت قائم
کرنی ہے۔اس کے لئے ان کے ہاں جو نظام کا تصور موجود ہوتا ہے وہ یہ ہوتا ہے
کہ آج سے چودہ سو سال پہلے جو نظام موجود تھا با لکل اسی طرح کا نظام قائم
کرنا ہے۔مولانا سندھی ہندوستان کا تجزیہ کرتے ہوئے مسلمان سیاسی جماعتوں کو
مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’میں ہندوستان کی مختلف مسلمان جماعتوں سے ایک
سوال پوچھتا ہوں مجھے اس کا اعتراف ہے کہ ان میں سے ہر ایک جماعت اس امر
میں کوشاں ہے کہ وہ قرآن کے اصولوں پر ہندوستان میں حکومت الہیہ قائم کرے
لیکن سوال یہ ہے کہ اس قرآنی حکومت کا ان کے ذہن میں کیا تصور ہے‘؟‘
مولانا عصر حاضر کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں’’کہ اس دور میں
اسلام کے نام اور اس کی دعوت پر مسلمانوں کی جو بھی حکومت بنے گی وہ مزاجاً
شاہی حکومت ہو گی،جمہوری نہیں اس لئے کہ صدیوں سے مسلمانوں کے ذہنوں میں
اسلامی حکومت مرادف بن کر رہ گئی ہے کہ ایک مسلمان بادشاہ کی حکومت کی اور
جب آپ اسلامی حکومت کو خیال سے عملی زندگی میں لائیں گے تو ابو بکر اور
عمرؓ کی حکومت نہیں ہو گی بلکہ وہ حکومت ہو گی جو ایک ہزار برس مع اپنی
تمام روایات کے مسلمانوں کے ہاں چلی آتی ہے ،کیوں کہ ہمارے ذہن ،جذباتی
،عملی اور تاریخی روابط اس آخر الزکر حکومت سے قائم ہیں اول الذکر حکومت سے
نہیں۔‘‘
عام طور پہ مسلمان سیاسی جماعتوں اور علماء کے ہاں حکومت قائم کرنے کا تصور
یہ ہے کہ اوپر سے ایک اسلامی نظام قائم کر دیا جائے۔جس میں خاص طور پہ
اشرافیہ یا خواص کا تصور موجودہے جو کہ اسلامی نظام قائم کریں۔یا شریعت کا
نفاذ کریں۔عوام سے رابطہ اور عوامی مرضی یا رائے کا اس میں کوئی کردار نہیں
ہے۔مولانا کے بقول’’مسلمانوں کا تخیل اوپر سے حکومت کا ہے۔وہ رائے عامہ سے
حکومت بنانے کا تصور نہیں کرتے اس لئے وہ منتشر خیال ہیں۔‘‘
درج بالا اقتباسات میں مولانا سندھی نے دور جدید کے بڑے تقاضوں جمہوریت ،
انڈسٹریلزم کو اپنانے پہ زور دیا ، انہوں نے یہ سمجھایا کہ قرآن و اسلام کی
روح ان تقاضوں کو اختیار کرنے میں رکاوٹ نہیں ہے، پرانی اور رجعت پسندی پہ
مبنی سوچ کو ختم کر کے انہوں نے دور جدید کے ان تقاضوں کو کھلے دل سے تسلیم
کرنے پہ زور دیا،انہوں نے اس وقت مسلمانوں کو ایک سیکولر جمہوری ریاستوں کی
تشکیل کا مشورہ دیا ہے، اس حوالے سے انہوں نے ہندوستان میں ایک سیکولر
جمہوریہ قائم کرنے کے حوالے سے باقاعدہ سیاسی پارٹی کا منشور پیش کیا، جس
میں ایک سیکولر جمہوری ریاست کے خدو خال کو بیان کیا گیا ہے، مولانا نے
ہندوستان کے یا اسے بر اعظم پاک وہند کہہ لیجئے اس طرح کے ہر خطے کو اپنے
تاریخی منشور میں جو انہوں نے ۱۹۲۴ء میں استنبول سے شائع کیا تھا۔’’سرو
راجیہ جمہوریہ ‘‘کا نام دیا تھا۔اور ان سب کے مجموعے کو انڈین فیڈرل سرو
راجی ری پبلکن سٹیٹ یا حکومت متوافق سرو راجیہ جمہوریات ہند کہا۔انہوں نے
تجویز کیا کہ ’’ہر ایک سرو راجی جمہوریہ اپنی اقتصادی ،تمدنی اور سیاسی
آزادی کو محفوظ رکھتے ہوئے حکومت متوافق سرو راجیہ جمہوریات ہند کا آزاد
رکن رہے گا۔‘‘
مولانا عبید اللہ سندھی نے جو پرو گرام پیش کیاخلاصے کے طور پہ درج ذیل
نکات ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ہندوستان کو مکمل طور پہ آزاد کرنے کے بعد اسے ایک وفاقی نظام کے تحت
لانا۔
۲۔ہندوستان بھر میں موجود تمام اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرنا۔
۳۔پورے ملک ہندوستان میں محنت کشوں کو حکومت میں شامل کرنا۔
۴۔زمینداری اور سر مایہ داری نظام کا مکمل خاتمہ ۔
۵۔ان مقاصد کو بروئے کار لانے والی پارٹی کا نام سرور راجیہ پارٹی تجویز
ہوا تھا۔ یعنی یہ پارٹی رنگ، نسل،مذہب اور مال و دولت کے بغیر حکومت قائم
کرے گی۔ سرور راجیہ پارٹی کے ممبروں کے لیے لازم ہو گا کہ وہ اپنی طرز
زندگی ملک کے کسانوں کے معیار زندگی سے بلند نہ کریں گے اور اس سے زائد جو
آمدنی یا جائیداد ہو گی اس کو پارٹی کے حوالے کر دیں گے۔ مرکزی حکومت ہند
کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہو گا اور نہ وہ مذاہب کے معاملات میں دخل
اندازی کرے گی۔اس کی دفعہ۳۴ مین لکھا ہے کہ۔حکومت متوافق سروراجیہ جمہوریات
ہند میں مذہب کو حکومت سے جدا کر دیا جائے گا۔ حکومت کو نہ تو کسی خاص مذہب
سے تعلق ہو گا اور نہ اسے اپنے مشتملہ جمہوریتوں کے مذاہب میں دخل ہو گا جو
ان شرائط کو پورا کرتی ہیں اور جن پر ان کو سروراجیہ پارٹی نے تسلیم کیا
ہےَ‘‘
دفعہ نمبر۴۰۔سروراجیہ پارٹی کسی انٹرنیشنل مذہبی اجتماع مثلاً ’’خلافت
اسلامیہ‘‘ کو تسلیم نہ کرے گی، جب تک اس مذہب کا رسمی مجموعہ احکام پارٹی
کی انٹرنیشنل سیاست (یعنی مخالفت ایمپراطوری و سرمایہ داری) کے مخالفانہ
مواد سے پاک نہ ثابت کر دیا جائے۔‘‘
مولانا مسلمان معاشروں کو مخاطب کر تے ہوئے کہتے ہیں کہ:
’’ہمارا ذہن صدیوں کی فرقہ پرستی ،تنگ نظری ،جمود اور عقلی غلامی ،جذبات
پرستی اور آگے جانے کے بجائے ہمیشہ پیچھے دیکھنے کی عادت سے نہیں نکل
سکتا،اس ذہن کو اپیل کر کے اور اسے متحرک بنا کر جو نظام حکومت بروئے کار
آئے گا وہ مزاجاً شاہی اور شخصی ہو گا،جمہوری نہیں،ہمیں جمہوری نظام حکومت
کی طرف جانے کے لئے نیا راستہ اختیار کرنا ہو گا اور نئے راستے کے لئے
پچھلے راستے کو ترک کرنا پڑتا ہے۔‘‘
لہذا آج ہمیں ان کے اس نقطہ نظر پہ غور کرنے کی ضرورت ہے، آ ج ہمارے ہاں
مذہبی حلقوں میں سیکولر ازم کے ذکر کو بھی معیوب سمجھا جاتا ہے، حالانکہ
سیکولر ازم یا لبرل ازم ایک ایسے روئیے کا نام ہے جس کے تحت بلا کسی جبر کے
انسانوں کو آزادی اظہار رائے، اور ان کے فطری اور طبعی تقاضوں کے ارتقاء کا
ماحول فراہم کیا جاتا ہے۔ اور اس کی عملی طور پہ بہترین شکل ایک حقیقی
جمہوری نظام ہے، جس میں بلا تفریق مذہب و نسل تمام انسانوں کو سیاسی اور
معاشی مساوات حاصل ہو، ایسی جمہوری ریاست سیکولر ہی ہو گی اور یہ خلاف
اسلام نہیں ہو گی۔(مولانا عبید اللہ سندھی کے افکار سے مزید استفادہ کے لئے
ان کے افادات اور خطابات و مقالات پہ مشتمل کتب جن میں خطبات و مقالات،
افادات وملفوظات، حالات ،تعلیمات و سیاسی افکار وغیرہ شامل ہیں کا مطالعہ
کیا جا سکتا ہے‘‘ |
|