جرات پہ قتل
(Zulfiqar Ali Bukhari, Rawalpindi)
برائی کی طرف مائل ہونے والے عوامل کا جب تک خاتمہ نہیں کریں گے، لوگ بے راہ روی کا شکار ہوتے رہیں گے اور کئی قندیل بلوچ منظر عام پر آتی رہیں گی۔ |
|
|
معروف ماڈل قندیل بلوچ کو غیرت کے نام پر
قتل کیا گیا ہے۔غیرت مند بھائی نے اپنی بہن کی سرگرمیوں کو ناپسندیدہ
سمجھتے ہوئے اُس کو جان سے مار دیا۔اب یہ سوچنے کی بات ہے کہ اتنے عرصہ تک
جب سے وہ ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہوئی تھی غیرت مند بھائی کی غیرت کیوں
سوئی ہوئی تھی؟
ہمارے ہاں خواتین کو اکثر ہی بے جا ذیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اُن
کو ہرمیدان میں پیچھے رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔میری پیاری بہن القاابراہیم
بے حد دلبرادشتہ ہوئی ہے کہ غیرت کے نام پر ایک بھائی ہی اپنی ہی بہن کو
یوں غیرت کے نام پر قتل کرنے والا بنا ہے۔شاید عورت کا جرات کا مظاہرہ کر
کے مرد کے برابر آنے کی کوشش ہی اُس کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کی وجہ بنا
ہے جو کہ شاید اُسکی جرات پہ قتل کہا جا سکتا ہے۔بہت سی خواتین اپنی مند
پسند زندگی گذارنا چاہتی ہیں اور جب ان کے راستے میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے تو
وہ جرات کا مظاہرہ کر کے من چاہی زندگی گذارنا شروع کرلیتی ہیں مگر بہت سی
ایسی ہیں جو کہ اس کی بھاری قمیت ادا کرتی ہیں کہیں اُن کو پسند کی شادی
کرنے پر قتل کر دیا جاتا ہے کہیں آزادی کے حصول پر کئی طرح کی پابندیوں میں
جکڑا جاتا ہے۔
قندیل بلوچ کی سرگرمیوں پر لاکھ اعتراض کئے جا سکتے ہں مگر یہ بھی سوچنے کی
بات ہے کہ اُس کے ساتھ ایسا کچھ تو کیا گیا تھا جس کی بنا پر اُس نے ایسا
راستہ چنا لیا تھا جس کے سبب اُس کو اپنی جان سے بھی بالاخر ہاتھ دھونا پڑا
ہے۔مگر ہم لوگ بے حس ہو چکے ہیں ہم اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت نہیں
کرتے ہیں کہ ہم دوسروں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں مگر جب ہم انکے ردعمل کا
سامنا کرتے ہیں تو بہت تکلیف میں ہوتے ہیں۔لیکن ہمیں یہ محسوس نہیں ہوتا ہے
کہ ہمارے ہی کسی فعل کی بنا پر ایسا ہمارے ساتھ ہوا ہے۔
یہ معاشرہ کبھی بھی سدھر نہیں سکتا ہے جہاں مرد اپنے گناہ کر کے عزت دار
بنے رہتے ہیں مگر عورت کو اُس کی ذرا سی غلطی اور گناہ پر قتل کر دیا جاتا
ہے یا زندگی بھر عذاب بھگتنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ مجرم کو سدھارنے کی
بجائےہم لوگ خود ہی سزا دے کر مجرم بننے کی تمنا رکھتے ہیں۔بے غیرت لوگ
غیرت کے نام پر قتل کر کے کبھی غیرت مند نہیں بن سکتے ہیں۔ہمیں اسلامی
قوانین کے مطابق پہلے خود کو دیکھنا چاہیے کتنے پانی میں ہیں پھر کسی کو
سزا دینا چاہیے۔
ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ہم برائی کی طرف مائل ہونے والے
عوامل کا جب تک خاتمہ نہیں کریں گے، لوگ بے راہ روی کا شکار ہوتے رہیں گے
اور کئی قندیل بلوچ منظر عام پر آتی رہیں گی۔ہمیں عورت کو بھی مرد کے برابر
حقوق دینے ہونگے ورنہ قندیل بلوچ جیسی لڑکیاں جرات پہ قتل ہونگی کہ ہم لوگ
عورت کو شاید پاوں کی جوتی سمجھنے لگے ہیں۔ اس میں ہمارا معاشرہ قصوروار ہے
اور ذرائع ابلاغ بھی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کررہا ہے جس کی وجہ سے بے راہ
روی عام ہو رہی ہے اور لوگوں کو گمراہی کی طرف بھی چند افراد لے کر جا رہے
ہیں تب ہی ہم لوگ یہ جانے بنا کہ اسلام میں قانون کو اپنے ہاتھ لے کر کسی
کو سزا دینے کا حق ہم نہیں رکھتے ہیں۔ہم میں اس قدر حوصلہ نہیں رہا ہے کہ
برداشت کرسکیں اور یہی عدم برداشت ہی ہمیں قتل جیسے گھناونے فعل پر مجبور
کرتا ہے۔
جب تک ہم خود پورے کے پورے اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے والے نہیں بن جاتے
ہیں ایسے واقعات جنم لیتے رہیں گے۔یہی دیکھیں لیں کہ غیرت کے نام پر قتل
کرنے والے اپنے فعل پر نادم بھی پہلے پہل نہیں بوتے ہیں مگر بعد ازں وہ ایک
روز اپنے گناہ پر پشیمان ہوتے ہیں مگر ایسا کرنے سے قتل ہونے والے واپس
نہٰیں آتے ہیں۔عزت کے نام پر قتل کرنے والے کبھی بھی باغیرت نہیں بن سکتے
ہیں کہ وہ از خود اتنی غیرت نہیں رکھتے ہیں کہ وہ سچائی کو تسلیم کر
سکیں۔تب ہی وہ جرات کرنے اور حق مانگنے والوں کو جان سے مارتے ہیں جب تک ہم
اپنی سوچ کو نہیں بدلیں گے تب تک ایسی کئی قندیل بلوچ جرات کر کے دوسروں کا
اصل چہرہ سامنے لانے اور اپنا حق لینے کی کوشش کرنے اور من پسند زندگی
گذارنے کے جرم میں مرتی رہیں گی۔ |
|