قندیل بلوچ کا قتل ۔۔ مشرقی معاشرے پر ہرزہ سرائی کیوں؟

جس دن سے متنازعہ ماڈل و اداکارہ قندیل بلوچ قتل ہوئی ہیں ۔ کچھ دانشو راپنی پوری آب و تاب کے ساتھ میدان میں کود پڑے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں کہ یہ بہت بڑا ظلم ہوا ہے ۔ اس قتل سے بربریت کی داستان رقم کی گئی ہے اور ملت ِ اسلامیہ اس عظیم نقصان سے دو چار ہوئی ہے جس کا ازالہ ممکن نہیں اور اس قتل سے پیدا ہونے والا خلا کبھی پُر نہیں ہو گا۔اس قتل کی آڑ میں معاشرے پر خوب لعن طعن کی جا رہی ہے۔ پاکستانی معاشرے کو اس طرح آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے کہ جیسے یہ خود ساختہ دانشور اس معاشرے کا حصہ نہیں ہیں بلکہ یہ کوئی آسمانی مخلوق ہیں۔اس قتل کے تانے بانے عورت کی آزادی سے ملائے جا رہے ہیں کہ آج کے اس جدید دور میں بھی عورت کو کسی قسم کی آزادی نہیں ہے بلکہ ان پر جبر کیا جاتا ہے۔ سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کے لیے کہا یہ جا رہا ہے کہ زندگی کے قول و فعل کا ہرانسان خود ذمہ دار ہے اورکسی کو بھی سزا و جزا کا حق نہیں ہے۔بالکل ٹھیک ۔ سزا و جزا کا اختیار کسی فرد ِ واحد کو نہیں ہے۔ آپ کی بات سے سو فی صد اتفاق ہے کہ سزا وجزا کا حق اور اختیار صرف رب کائنات کے پاس ہے یا حکومت ِ وقت غلط عادات و اطوار یا غیر اخلاقی حرکات پر نوٹس لے سکتی ہے مگر حکمرانوں کو تو اپنے’’ اللوں تللوں ‘‘سے ہی فرصت نہیں ہے توپھر آپ سے سوال ہے کہ آپ بتائیں قندیل بلوچ نے سستی شہرت حاصل کرنے ک لیے جو راستہ اختیار کیا تھا اس کو دیکھنے کے بعد اس کے بھائی کیا کرتے ؟؟؟ آپ آزادی ِ ا ظہار کے نام پر ہلکان ہو رہے ہیں مگر کیا آپ آزادی اظہار کی تعریف بتانا پسند کریں گے ؟؟؟ کیا آزادی اظہار کی آڑ میں کوئی جو چاہے کرتی پھرے؟؟؟باریک لباس میں فوٹو بنوائے یا مختصر لباس زیب ِ تن کرکے نیم برہنہ تصاویر بنوا کر بڑے فخر سے نیٹ یا فیس بک پرUPLOAD کر کے بے حیائی کے فروغ کا باعث بنے ؟؟ بے شرمی و بے غیرتی کی حدیں عبور کرتی پھرے ؟؟؟ کھلونوں کی طرح جسم کی نمائش کرتی پھرے مگر اس کو کوئی پوچھنے والا نہ ہو ؟؟؟اگر آپ کے نزدیک اس کا نام آزادی ہے تو مہربانی فرمائیں اس کو اپنے تک محدود رکھیں کیونکہ اسلام یا مشرقی معاشرہ اس کی اجازت نہیں دیتا مگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ غیرت کو بنیاد بنا کرقتل ِ عام کا بازار گرم کر دیا جائے کیونکہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل تصور کیا جاتا ہے ۔اگر قندیل اپنے کیے کی خود ذمہ دار تھی تو اس کا بھائی بھی اپنے فعل کا خود ذمہ دار ہے وہ قانون کی حراست میں ہے اور قا نون بہتر فیصلہ کرے گا-

راقم الحروف نے اپنے گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ مجھ کو حیرت ہو رہی ہے ان دانشوروں پر جو قندیل کی موت پہ ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔معلوم نہیں انہیں قندیل کی موت کا افسوس ہے یا اس بات پہ رنجیدہ ہیں کہ ان کی آنکھوں کو جو تسکین قندیل کی نیم برہنہ تصاویر دیکھ کر ملتی تھی وہ چھن گئی ہے۔ان کو قندیل کی موت یا د آ رہی ہے ، قندیل کی بے بسی پر رونا آ رہا ہے ، قندیل کا خون ِ نا حق نظر آ رہا ہے ،اس کے بھائی کی سفاکی دکھائی دے رہی ہے مگر قندیل کی بے غیرتی ، بے حیائی اور بے شرمی والی سرگرمیاں اور کہانیاں یا دکیوں نہیں آرہی ہیں؟؟؟انسانیت کے ان ٹھیکے داروں کو اس کا غیر مہذبانہ انداز ِ زندگی کیوں نظر نہیں آ رہا ہے ؟؟؟ اس کی وہ حرکات و سکنات کیوں نظر نہیں آرہی ہیں جسے دیکھ کر معصوم اذہان غلط راستے کی طرف راغب ہوتے تھے ۔قندیل کے بھائیوں کے دل پہ کیا گزرتی ہو گی؟؟؟ اس کا احساس نہیں ہو رہا ہے۔پاکستانی اورمشرقی معاشرے کو ’’کوڑھ زدہ ‘‘ معاشرہ قرار دینے والوں سے میں یہ پوچھنے کی جسارت ضرور کروں گا کہ اگر آپ کی بہو ، بیٹی یا بہن قندیل بلوچ کے اختیار کردہ راستے کو اپنا لے تو کیا آپ اس کو اپنے ماتھے کا جھومر بنا لیں گے؟؟؟ کیا آپ اس کو اپنے گلے لگا کر خراج ِ تحسین پیش کریں گے ؟؟؟بالکل نہیں۔ ہر گز نہیں۔ آپ سے تو میرے یہ الفاظ برداشت نہیں ہو رہے ہیں۔ آپ کا خون کھول رہا ہے اوردل میں نہ جانے کیا کیا ’’صلواتیں‘‘ سنا رہے ہیں تو پھر یاد رکھیں جہاں آپ کو یہ بات یاد ہے’’ سز وجزا کا مالک صرف اﷲ ہے‘‘ یا یہ یاد ہے کہ’’ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے‘‘ تو وہاں نبی اکرم حضرت محمدﷺ کا یہ ارشاد ِ گرامی بھی ذہن میں رکھیں کہ’’ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند کرو جو تم کو اپنے لیے پسند ہے‘‘ اپنی اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت کے خواہش مندوں کے منہ میں اس وقت کیوں رال ٹپکنے لگتی ہے جب وہ قندیل بلوچ کی نیم عریاں لباس میں تصاویر دیکھتے ہیں۔ارشاد نبویﷺ ہے کہ ’’ مُردوں کو بُرا مت کہو ‘‘ اس لیے میں قندیل بلوچ کی سرگرمیوں کے متعلق کچھ نہیں کہنا چاہتا مگر آپ کی خدمت میں ضرور عرض کرنا چاہوں گا قندیل بلوچ کی موت کی آڑ میں مشرقی و پاکستانی معاشرے کے خلاف ہرزہ سرائی کی جو گردان آپ نے شروع کر رکھی ہے اس کو بند کریں اور ان دانشوروں کی عقل پر تو ویسے ہی ماتم کرنے کو دل کر رہا ہے جو یہ ارشاد فرمارہے ہیں کہ قندیل بلوچ نے یہ راستہ غربت دور کرنے کے لیے اختیار کیا تھا۔ کیا کہنے آپ کی سوچ کے ۔۔۔ کیا منطق لائے ہو ڈھونڈ کر ۔۔ کیا غربت دور کرنے کا یہ طریقہ ہے جو قندیل بلوچ نے اپنایا ؟؟؟؟ہمہ وقت دوسروں کا دل لبھانے کے لیے تیار رہنا۔۔ غربت دور کرنے کا طریقہ ہے ؟؟؟ آپ لوگ جتنی ہمدردی کا آج اظہار کر رہے ہیں اسکی زندگی میں اس کی مالی مدد کر کے اس کی چادر اور چار دیواری کا تحفظ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے۔۔۔ بند کریں ایسی من گھڑت تاویلیں۔قندیل بلوچ کے قتل کی مذمت ضرور کریں مگر الفاظ کا چناؤ سوچ سمجھ کر کریں کیونکہ یہ معاشرہ صرف آپ جیسے آزاد خیال لوگوں پر ہی مشتمل نہیں ہے۔ اﷲ ہم سب کو صراط ِ مستقیم پر چلنے کی توفیق دے ۔ آمین
Rasheed Ahmed Naeem
About the Author: Rasheed Ahmed Naeem Read More Articles by Rasheed Ahmed Naeem: 126 Articles with 122361 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.