غریب پوزیشن ہولڈرز؟
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
میٹرک کا رزلٹ ہر سال معمول کی ایک خبر لے
کر آتا ہے، فلاں بورڈ کا رزلٹ اتنے فیصد رہا، فلاں بورڈ میں لڑکیوں (یا
لڑکوں نے) میدان مار لیا وغیرہ وغیرہ۔ اس عام سی مگر کسی حد تک نمایاں خبر
میں ہمیشہ چھوٹی چھوٹی کئی خبریں پوشیدہ ہوتی ہیں، جو بعض اوقات بین السطور
میں دیکھی جاسکتی ہیں اور اکثر اوقات کھل کر سامنے آجاتی ہیں۔ خبر کی نوعیت
اور خبریت کی تلاش دراصل میڈیا کے نمائندے کے کمالات کا حصہ ہوتی ہے، وہ
اپنے تجربے کی بنا پر معاملے کو ہر پہلو سے جانچتا، دیکھتا اور پرکھتا ہے،
ایک ہی طرح کی خبر سے بہت سی اور مختلف خبر نکالتا ہے۔ جنوبی پنجاب کے
بورڈز کے نتائج بھی معمول کے مطابق ہی رہے، تاہم بہاول پور بور ڈ نے مجموعی
طور پر پنجاب بھر میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ مگر دلچسپ بات یہ ہوئی کہ
مذکورہ بورڈ کے تین اضلاع بہاول نگر، رحیم یار خان اور بہاول پور میں خود
مرکزی شہر (بہاول پور ،ڈویژنل ہیڈ کوارٹر) پوزیشن لینے میں تیسرے نمبر پر
رہا۔ بورڈ میں ہونے والی تقریب کے مہمان خصوصی ،صوبائی وزیر ملک اقبال چنڑ
نے برہمی کا اظہار کیا، کہ بہاول پور میں اتنے اچھے اور ادارے ہیں، مگر
کوئی نمایاں پوزیشن حاصل نہیں ہو سکی۔ یہ الگ بات ہے کہ موصوف کی بات سے
محکمہ تعلیم کے ضلعی افسران تو پریشان ہوئے ہونگے، مگرکوئی اور نہیں،
کیونکہ وزارت کے مزے لینے کے علاوہ اُنہوں نے بھی کوئی کارِ نمایاں کبھی
سرانجام نہیں دیا۔ یہ بات اگر ایک صوبائی وزیر نے نہ بھی کہی ہوتی تو محکمہ
تعلیم اور اداروں کے لئے قابل غور ضرور ہے۔
ایک اہم خبر یہ بھی ہوئی کہ بورڈوں میں پوزیشن لینے والے بہت سے بچوں کے
والدین مزدور، سبزی فروش، کسان، حجام، گدھا ریڑھی چلانے والے یا اسی طرح
دیگر کاموں میں مزدوری کرنے والے لوگ بھی تھے۔ خواتین نے گھروں میں کام
کرکے اپنے بچوں اور بچیوں کو پڑھایا، بعض دیہات سے ٹرانسپورٹ کا مناسب
بندوبست نہ تھا، بعض لوگوں کے وسائل اس قدر نہیں تھے، تاہم ان بچوں اور
بچیوں نے محنت کی، ان کے والدین نے ان کی بھر پور مدد بھی کی اور دعائیں
بھی دیں۔ بچے خوشی سے نہال تھے اور ان کے والدین کی آنکھوں میں خوشی کے
آنسو تھے، اس غریب طبقے کے لوگوں نے کبھی اس طرح اپنی عزت ہوتی نہ دیکھی
تھی، اس نتیجے کے پیچھے والدین کا وہ جذبہ بھی ہوتا ہے، جس کے تحت وہ اپنا
پیٹ کاٹ کراپنے بچوں کی تعلیم کا بندوبست کرتے رہے اور نتیجہ سے یہ ظاہر
ہوا کہ یہ بچے بلا کے ذہین تھے، اور بہت ذمہ داربھی، وہ جانتے تھے کہ ان کے
والدین نے کن حالات میں ان کو پڑھایا، فریقین کی محنت رنگ لائی۔ غریبوں کے
بچوں اور بچیوں کی پوزیشنوں سے ایک اور بات بھی سامنے آئی کہ یہ تقریباً
تمام پوزیشنز آرٹس کے مضامین میں آئیں، یعنی یہ لوگ سائنس میں کوئی معرکہ
نہ مار سکے، ممکن ہے بہت سے غریب بچوں نے سائنس بھی پڑھی ہو، مگر نتیجہ بتا
رہا ہے کہ سائنس میں انہوں نے کوئی نام پیدا نہیں کیا۔ اس کی وجہ بھی غربت
ہی ہے ، اگر ان کے پاس کچھ رقم وافر ہوتی تو وہ اپنے بچوں کی کوچنگ کا
اہتمام کرتے، انہیں شہر کے اچھے اور معروف اساتذہ کے پاس ٹیوشن رکھواتے اور
اکیڈمیوں میں تعلیم دلواتے، مگر وہ ایسا نہ کرسکے۔ غربت ان کے پاؤں کی
زنجیر بن گئی اور وہ دنیا کی دوڑ سے پیچھے رہ گئے۔
بتایا جاتا ہے کہ آئینِ پاکستان کی شق 25کہتی ہے کہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ
تعلیم حاصل کرنے کی عمر کے ہر بچے کو سرکاری سرپرستی میں مفت تعلیم دلوائے۔
کہنے کو اپنی حکومتیں اپنا فرض بخوبی نبھا رہی ہیں، بلکہ تعلیم ان کی پہلی
ترجیح ہے، مگر یہ ان کا صرف قول ہے، ان کے افعال اپنے اقوال سے میل نہیں
کھاتے۔ یہ تضاد امتحانات کے نتائج کی صور ت میں سامنے آتا ہے۔ اب اگر بہت
سے غریب لوگوں کے بچوں نے پوزیشن لے لی ہے تو یہ افسوسناک منظر اگلے دو
سالوں میں سامنے آسکتا ہے، کہ ان میں سے بہت کم بچے یا بچیاں ایف اے کے
پوزیشن ہولڈرز میں شامل ہونگے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ میٹرک تک تو
پھر بھی کتابیں اور تعلیم مفت ہونے کی وجہ سے بچوں کو ان کے والدین نے
تعلیم دلوالی، مگر کالج کی تعلیم مفت نہیں، فیس اور کتابیں دونوں پر ہی
خرچہ اٹھتا ہے، اور غریب والدین کے پاس اس قدر پیسے نہیں۔ برہم ہونے والے
وزیر یا کوئی حکومتی اہلکار دو برس بعد ایف اے کے امتحانات کے نتائج میں سے
میٹرک کے اب کے آرٹس کے سٹوڈنٹس کو تلاش ضرور کرے۔ |
|