برداشت سے ہی ترقی ممکن ہے!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
ورکشاپ دو روزہ تھی، صحافیوں کو آن
لائن جرنلزم کی ضرورت و اہمیت کے بارے میں بتایا جارہا تھا۔ اگرچہ اب
صحافیوں کی اکثریت آن لائن جرنلزم سے واقف ہے، مگر دوردراز کے علاقوں میں
رہنے والے لوگ اس سہولت سے بھر پور فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں، جس کی صرف
ایک ہی وجہ ہے کہ ان میں تربیت کی کمی ہے، انہیں ٹیکنالوجی کے وسیع سمندر
میں غوطہ زنی کے ہنر سے آگاہی نہیں ، یوں وہ یہاں سے وہ فائدے حاصل نہیں
کرسکتی جن کا حصول مناسب رہنمائی سے ممکن ہو سکتا ہے۔ یہ دوروزہ ورکشاپ
بہاول پور پریس کلب اور ’پیس جرنلزم فورم‘ کے اشتراک سے منعقد کی گئی
تھی۔حالات میں بے حد تبدیلی آچکی ہے، پہلے بس یہی ہوتا تھا کہ کسی بھی ہنر
کا ماہر اپنا کام کرتا تھا اور دوسرے اسے دیکھ کر سیکھتے تھے، سیکھنے والے
بڑوں سے ان کے تجربہ کی بنیاد پر سوال کرتے اور رہنمائی لیتے تھے۔ یہ نہیں
کہ اب یہ سلسلہ منقطع ہو چکا ، یا اس کی افادیت دم توڑ چکی ہے، بلکہ یہ کام
فطری طور پر جاری ہے۔ تاہم تربیت کا نظام اپنا اثر رکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ
جدید دور میں اس کی افادیت کو ایک ضرورت کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر احسان صادق بہاول پور کے ریجنل پولیس آفیسر ہیں، انہوں نے پولیس کی
روایات تبدیل کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے، انہوں نے ورکشاپ کے مہمانِ خصوصی
کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے میڈیا کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے
کا منظر نامہ میڈیا ہی بناتا ہے، کیونکہ میڈیا جو کچھ دیکھتا ہے، وہ بیان
کردیتا ہے، اسی کے بیان کئے ہوئے منظر پر ہی لوگ اعتماد کرتے اور اسی کو
آگے بیان کرتے ہیں۔ جدید دور میں جدید ٹیکنالوجی سے انسان کی زندگیاں متاثر
ہورہی ہیں، میڈیا زندگیوں میں تبدیلیاں رونما کرنے میں اپنا کردار ادا
کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا رائے سازی میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے،
کسی شخص سے کوئی بات معلوم کی جائے تو یہی جواب ملے گا کہ اخبار میں پڑھی
ہے، گویا اخبار کی خبر پر لوگ اعتبار کرتے ہیں اور اسی لئے اس خبر کو معتبر
بھی ہونا چاہیے۔ میڈیاجب کرائم کا کھوج لگا رہا ہوتا ہے تو ایسا محسوس
ہورہا ہوتا ہے کہ اس وقت دراصل کرائم کو پرموٹ کیا جارہا ہے،کیونکہ جو لوگ
جرم کے نشیب وفراز سے آشنا نہیں ہوتے وہ میڈیا کے ذریعے جرم کی تکنیک
سیکھتے اور اسے معاشرے پر آزماتے ہیں، یوں دراصل جرم کے خاتمے کے لئے کوشاں
میڈیا خود جرم میں اضافے کا کام کر رہا ہوتا ہے، اسی لئے ایک صحافی کا فرض
ہے کہ وہ نہایت احتیاط اور ذمہ داری کے ساتھ رپورٹنگ کرے تاکہ اس کی کوشش
اپنا مثبت اثر معاشرے اور لوگوں پر چھوڑ سکے۔
آر پی او کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر ہم بہت کچھ سیکھ رہے ہیں، اور مثبت
رپورٹنگ کی بات کررہے ہیں تو ہمیں وہ باتیں بھی بُھلا دینے کی سخت ضرورت ہے،
جو معاشرے میں بگاڑ ، تلخی یا خرابی کا باعث بنتی ہیں۔ جرائم اور قانون
شکنی کے معاملات کو ہی اچھالنے سے معاشرے کا جو عکس دنیا کے سامنے جاتا ہے،
وہ حقیقت میں پورے حالات کی عکاسی نہیں کرتا، صرف تنقید کرنے اور منفی
باتوں کو اجاگر کرنے کی بجائے مثبت باتوں اور بہتری کی طرف پیش رفت کرنے
والے اقدامات کی بھر پور حوصلہ افزائی بھی بہت ضروری ہوتی ہے۔ اس حقیقت سے
بھی انکار ممکن نہیں کہ الیکٹرانک میڈیا اپنا درست کردار ادا نہیں کرسکا،
ٹاک شوز میں سنجیدگی کی ضرورت ہے، باہر کے ممالک میں کسی ایشو پر ٹاک شو
دیکھیں تو ایسا معلوم ہوگا کہ پروفیسرز کسی عنوان پر پُر مغز گفتگو کررہے
ہیں، اپنے ہاں ٹاک شو کے شروع ہونے کے تھوڑی دیر بعد ہی ایک ہنگامہ سا برپا
ہو جاتا ہے، اور پھر کسی کی کوئی بات سمجھ نہیں آتی۔ آرپی او کا کہنا تھا
کہ ہمیں میڈیا کے معاملات پر بھر پور بحث کی ضرورت ہے، کیونکہ اس کا کردار
سب سے بڑا اور اہم ہے۔ ڈاکٹر ظفر اقبال اور آصف بھٹی نے مذہبی اور ثقافتی
ہم آہنگی کی ضرورت اور اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جب تک کسی ملک کے
اندر ایک دوسرے کے مذہب اور ثقافت کو برداشت نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک
ملک اور معاشرے میں بھائی چارہ، امن اور سکون نہیں ہوگا، خود کو دوسروں سے
برتر تصور کرنا اور دوسروں کو کمتر سمجھ کر نفرت کرنا ہی اصل خرابی ہے، جس
سے اسلام بھی منع کرتا ہے اور اخلاق بھی۔ امن اور برداشت کو اپنانے سے ہی
قومیں ترقی کی راہوں پر گامزن ہوسکتی ہیں۔ |
|