جہالت اور ذمہ داری؟
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
تین معصوم بچے ایک ہی تکئے پر سر رکھ کر سو
رہے ہیں، ان کی عمریں بالترتیب نو، چھ اور چار سال ہیں۔ بڑے دو بھائی ہیں
اور چھوٹی چار سالہ زنیرہ بہن۔ چھوٹے بہن بھائی لگتا ہے بس باتیں کرتے کرتے
سو گئے، کہ دونوں کے رُخ اور سر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ قریب ہی ایک
تصویر ان کے باپ کی ہے، وہ بھی سو رہا ہے، گھر کا اور کوئی فرد وہاں موجود
نہیں۔ بچوں کی ماں فوت ہو چکی ہے، اور دوسری ماں اپنے میکے گئی ہوئی ہے۔ یہ
سونے والے بچے دراصل ابدی نیند سوئے ہوئے ہیں، کہ اب یہ کبھی بیدار نہیں
ہونگے۔ اور قریب ہی سونے والا ان کا والد ابدی نہیں ، بے ہوشی کی نیند سو
رہا ہے، جو کچھ دیر کے بعد ہوش میں آجائے گا۔ بہاول پور کی قائد اعظم
کالونی کہ جس میں غریب اور مزدور طبقہ کی اکثریت رہائش پذیرہے، کا المناک
واقع یہ ہے کہ تینوں بچوں کو ابدی نیند سلانے والا خود اُن بچوں کا والد ہی
ہے۔ ان بچوں کی ماں کو اپنے بچوں کو مامتا کا پیار دینے کا موقع نہ ملا۔
ازل سے بلاوا آگیا، وہ رخصت ہوئی اور بچے بے آسرا ہوگئے۔ والدنے دوسری شادی
کرلی، مگر نئی آنے والی ’ماں‘ کا بچوں کی وجہ سے اپنے شوہر سے اکثر جھگڑا
رہنے لگا، گزشتہ دنوں وہ اسی سلسلے میں ناراض ہو کر اپنے میکے چلی گئی تو
سفاک والد نے اپنے بچوں کو زہر پلا دی ، اس کا اثر ہونے سے قبل ہی ان کا
گلا گھونٹ کر انہیں بھی ان کی حقیقی ماں کے پاس بھیج دیا۔اگرچہ کچھ دوائی
خود بھی پی، مگر اتنی کہ زیادہ اثر نہ ہوا۔
کتنا ہی سنجیدہ معاملہ تھا، کہ اگر کسی فرد کے تین بچے ہیں اور ان بچوں کی
ماں ملکِ عدم سدھار جاتی ہے، تو اُن بچوں کو کون پالے گا؟ اس حقیقت سے کوئی
ذی شعو ر انکار نہیں کر سکتا کہ اگر بچوں کا والد فوت ہو جائے تو ان کی ماں
زندگی بھر بیوہ اور بے آسرا رہ کر اپنی اولاد کو پال لیتی ہے، مگر جب کسی
کا باپ فوت ہو جائے تو اس کے لئے اپنے بچوں کو پالنا ممکن نہیں ہوتا۔
کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے یہ صلاحیت ہی عورت میں رکھی ہے، وہی بچوں کو پال سکتی
ہے، جبکہ مرد کا کام باہر جاکر کام کرنا اور پیسہ کما کر لانا ہے، تاکہ بال
بچوں کا پیٹ پال سکے۔ یہی وجہ ہے کہ عورت کے فوت ہونے پر مرد اکثر شادی
کرلیتے ہیں۔ یہ الگ کہانی ہے کہ مرد کو چار شادیوں تک کی اجازت ہے ،اگر وہ
انصاف کی شرط پوری کر سکے، مگر اپنے ہاں ایک سے انصاف نہیں ہوتا اور بات
آگے سے آگے چلی جاتی ہے۔ اگر مرد اپنی بیوی کے فوت ہونے کے بعد کوئی مرد
دوسری شادی کرتا ہے تو آخر اس کے گھر والے اور دیگر عزیزو اقارب آنے والی
خاتون کے خاندان کا جائزہ لیتے ہیں، انہیں بتایا جاتا ہے کہ پہلے اس مرد کے
تین بچے بھی ہیں، وہ بھی ساتھ ہی رہیں گے۔ مگر اپنے ہاں بدقسمتی سے ایسے
معاملات میں شادی کے موقع پر بہت کچھ چھپا لیا جاتا ہے، وقت کے ساتھ ساتھ
پوشیدہ راز کُھلتے جاتے ہیں، اور خوشگوار تعلقات کشیدہ ہونے لگتے ہیں،
انجام وہی ہوتا ہے جو اوپر کے تازہ واقع میں بیان ہوا ہے۔ اپنے معاشرے میں
ایسی بے شمار شادیاں ہوتی ہیں، جن میں والدین کو علم بھی نہیں ہوتا، بسا
اوقات تو پہلی بیوی کو بھی بہت بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے شوہرِ
نامدار نے دوسرا بیاہ بھی رچارکھا ہے۔ یوں اس اہم ترین معاشرتی مسئلے کو کہ
جس کی بنیاد پر نئی نسل کا دارومدار ہے، نہایت غیر سنجیدگی سے نبھایا جاتا
ہے۔
ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ایک خاندان کا اب کیا باقی رہا، ایک بیوی
فوت ہوگئی، دوسری اپنے گھر چلی گئی، بچوں کو قتل کردیا گیا، رہ گیا فردِ
واحد ، جوکہ اس ساری داستان کا مرکزی کردار ہے۔ اس کا کیا بنے گا؟ کچھ عرصہ
جیل اور پھر نامعلوم انجام، تین بچوں کے قتل پر اسے سزائے موت بھی ہو سکتی
ہے، مگر کبھی ایسی سزائے موت کی خبر سنی نہیں کہ کسی کو اپنے ہی بچوں کو
قتل کردینے کی پاداش میں سزا ہوگئی۔ دہشت گردی یا دوسروں کو قتل کرنے والوں
کو توپھانسیاں ہوتے دیکھتے ہیں، مگر مذکورہ بالا کیس میں ایسا کم ہی ہوتا
ہے۔ اس بھیانک عمل کی روک تھام کے لئے پورے معاشرے کو کردار ادا کرنے کی
ضرورت ہے، مگر یہاں تعلیم عام کئے اور قانون پر عمل درآمد کئے بغیر کوئی
کامیابی ممکن نہیں۔ |
|