تاریخ شاہد ہے کہ جب اہل حق سچی بات کہنے
سے اعراض کرنے لگیں یا حق بات کرنے والوں کے خلاف معاشرہ یک جان ہوکر ظالم
و طاقت ور کی ہمنوا بن جائے تو ایسے میں اس سماج کی پستی و تنزلی یقینی
ہوجاتی ہے۔ایساہی معاملہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں ایک مدت سے
جاری ہے مگر اس پر ظالموں کے ظلم پر مجرمانہ خاموشی اور ظالم کی مدد کرنے
کا رویہ اپنے اقبال عروج پر ہے۔اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ تلک
الایام نداولہا بین الناس’’لوگوں پر ایام (دنوں) کوتبدیل کیا
جاتاہے‘‘۔اسلامی یونیورسٹی میں فردواحد کرپشن و لاقانوینیت ،رشوت بازاری
اور گھٹیا سیاست و فرقہ وارانہ سرگرمیوں کے خلاف آواز حق بلند کرئے تو اس
کو مسل دیا جاتاہے جبکہ اگر طلبہ ہوں یا اساتذہ،آفیسر ہوں یا ملازمین اگر
ناجائز مؤقف ومطالبات جو کہ ان کے شخصی و تنظیمی مفادات پر مبنی ہوں پر بھی
یک قلب و جان ہوکر ندائے بلند کریں تو سبھی ان کی قدم بوسی کیجاتی ہے۔
حال ہی میں اسلامی یونیورسٹی میں تین اہم واقعات پے درپے رونما ہوئے اول
اساتذہ کی ایسوسی ایشن نے یونیورسٹی انتظامیہ کیخلاف صدائے احتجاج بلند کیا
کہ ان کو اساسی و بنیادی حقوق جو دیگر یونیورسٹیوں میں استاذوں کو حاصل ہیں
ان سے محروم رکھاگیا ہے۔اس سلسلہ میں نمایاں طورپر وہی اساتذہ جو طلبہ کو
تختہ مشق بناتے ہیں ،صدر جامعہ اور اس کے اعلی کاروں کی خواہش پر طلبہ کو
یونیورسٹی سے بے دخل کرتے ہیں پیش پیش تھے،جس میں ڈاکٹر نوید اقدس ملک
،ڈاکٹر ظفر اقبال،ڈاکٹر ظاہر خلیلی،ڈاکٹر منور اقبال گوندل قیادت کرتینظر
آئے۔جناب والا یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ
ظلم پھرظلم ہے بڑھتاہے تو مٹ جاتاہے
آپ نے جب طلبہ کے خلاف ناجائز ایکشن لیا اور ان کو یونیورسٹی سے بے دخل کیا
اور ان کے مستقبل کو تباہ و برباد کیا اور ان کے پاک و صاف دامن پر گندگی
لگانے کی سعی کی تو رب کریم کا بنایا گیا قانون مکافات عمل تو موجود ہے اس
سے پہلوتہی و ناواقفیت کی سزا تو آپ کو ضرور ملے گی۔
دوسرا معاملہ سوشل میڈیا پر ضرور شور سے جاری ہے جس کے نتیجہ میں ایک فی
میل طلبہ کے ساتھ نامناسب تعلق قائم کرنے کی کھٹیا کوشش و خواہش ایڈمن و
اساتذہ کی طرف سیظاہر ہوئی جس پر اس طلبہ نے احتجاجاً فیس بک کا سہارا لیا
اور اپنی مظلومیت کا رونارویا جس پر کافی طویل بحث و تمحیص تاحال جاری ہے
اور اس بارے میں بھی چہ مگوئیاں ہیں کہ یہ اکاؤنٹ فیک ہے اور ایسا کوئی
معاملہ ہوا ہی نہیں ہے اور اس کی مزید حقیقت مستقبل قریب میں کھل کر واضح
ہوجائے گی۔البتہ میں اتنا ضرور لکھنا چاہتاہوں کہ میرے آٹھ سالہ تجربہ و
مشاہدہ سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ اسلامی یونیورسٹی میں اساتذہ،
انتظامیہ اور یہاں تک کے صدر و ریکٹر تک کے لوگوں کے بارے میں کیسز سامنے
آئے کہ وہ طالبات سے ناجائز تعلقات قائم کرتے نظر آتے ہیں۔اس سلسلہ میں کچھ
کرداروں کے خلاف ایکشن بھی لیا گیا مگر وہ ایکشن اعزاز و تفاخر سے کم نہ
تھا کہ مکمل عزت و احترام کے ساتھ ان کو ریٹائر کردیا گیا ۔ابھی بھی بہت سی
گھتیاں سلجھنا باقی ہیں۔طالبات کے ساتھ غلط تعلقات قائم کیے جاتے ہیں مگر
اس کا اظہار اغلب اکثریت اس لئے نہیں کرسکتی کہ ان کے مستقبل پر بہت بڑا
داغ ثبت ہوجائے گا۔
یہ بات بالکل درست نہیں ہے کہ اگر فیک اکاؤنٹ سے کوئی آواز بلند کی گئی ہے
تو اس سے تغافل برتاجائے نہیں عین ثواب ہے کہ مسئلہ سچا و درست ہو مگر وہ
طالبہ اپنی عزت و عصمت کا تحفظ کرنا چاہتی ہو تو لہذا اچ ای سی اور وفاقی
محتسب کو چاہیے کہ وہ اس مسئلہ کی غیرجانبدارانہ طور پر تحقیقات کرائے
۔تاکہ اسلامی یونیورسٹی کے نام پر بدنما داغ و کلنک لگانے والے عبرت کو
نشان بنیں۔
تیسرا مسئلہ بھی اول مسئلہ کے مشابہ ہے اور مجھے حیرت ہورہی ہے کہ جس جماعت
کے اتحاد و کوششوں سے ڈاکٹر ظفر اقبال اساتذہ کی ایسوسی ایشن کے صدر بنے
اسی جماعت کے طلبہ آج سرپائے احتجاج ہیں کہ ان کے خلاف کاررائی کی جائے
۔بہر حال معاملہ جو بھی ہو اسلامی جمعیت طلبہ سمیت تمام طلبہ تنظیموں سے
التماس و گذارش ہے کہ جائز مقاصد کے لئے ڈٹ جانا چاہیے ،عمرہ پیکج،فیس کی
معافی،ہاسٹل کمروں کی ناجائز الاٹ منٹ،صدر جامعہ اور اس کے حواروں کی کاسہ
لیس ترک کرکے طلبہ کے حق کی آواز کو بلا کسی مصلحت غیر بلند کرنے کو اپنا
شعار بنائیں خواہ وہ طالب علم فکر و نظر میں آپ کا ہمنوا ہے یا نہیں اگر وہ
بات درست کررہاہے اور اس کے ساتھ اس لئے زیادتی و نا انصافی کی جارہی ہے کہ
وہ اکیلا ہے تو اس کو کچل دیا جائے تو آپ کو اس کی جائز معاملات میں مدد
کرنی چاہیے۔جس کا اجر آپ کو وہ طالب علم دینے سے رہامگر روزمحشر
کونواقوامین بالقسط ’’ہوجاؤ انصاف و عدل قائم کرنے والوں میں سے‘‘کے نتیجہ
میں اﷲ تعالیٰ اجرعظیم عطافرمائیں گے۔ |