معاشی مثبت و منفی اشارے، اقدامات و منصوبے

جسطرح معمولی بارش سے پورا ملک گھٹنوں تک پانی میں ڈوب جاتا ہے ویسے ہی پورے ملک کو قرضوں میں ڈبونے کے بعد خبر آئی ہے کہ رواں سال کے آخر تک آئی ایم ایف کو خیر آباد کہہ دیں گے یعنی ابھی بھی عرصہ 5ماہ ہم آئی ایم ایف کے خونی شکنجے سے ملک کو نجات نہ دلواسکیں گے۔ جب 5ماہ بعد بھی یہود و نصاری کے مالی ادارے کے سودی نظام سے آزادی موجودہ حکومت نے دلوانی تھی تو پھر 5ماہ قبل ہی اسکے اعلان کی کیا ضروری تھی۔ ویسے تو ہمارے حکمرانوں نے اپنی الیکشن مہم میں قرضوں کے کشکول سے چھٹکارا دلوانے کا وعدہ کیا تھا لیکن جتنے قرضے موجودہ اور اس سے پہلے زرداری دور میں لئے گئے اسکی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ 20کروڑ عوام کا ہر شہری ایک لاکھ سے اوپر کا مقروض ہے لیکن ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ بے روزگاری کی شرح بلندیوں پر ہے۔ 10کروڑ سے زائد عوام غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزاررہے ہیں۔ پورا ملک بجلی کی ناروا لوڈ شیڈنگ اور واپڈا کے ظلم و ستم کا شکا رہے۔ لیکن اکنامک Indicater بتاتے ہیں کہ سارا ملک ترقی و کامرانی کی طرف گامزن ہے۔ سٹاک ایکسچینج میں کاروبار کی سطح بلند ہے۔ بیرون ملک سرمایہ کار متوجہ ہورہے ہیں۔ 46ارب ڈالر کی چین کی اقتصادی راہداری اور توانائی کے شعبوں میں سرمایہ کاری سے ہمارے حکمران پھولے نہیں سماتے ، یہ کریڈٹ نواز شریف کو جاتا ہے کہ ان کے دو رمیں اتنا بڑا منصوبہ شروع کیا گیا ان کے بقول چین کی حکومت ان کے دور کا انتظار کرتی رہی کہ کب دوبارہ نواز شریف کی حکومت اقتدار میں آئے اور کب یہ منصوبہ شروع کیاجاسکے۔ کیونکہ زرداری دور میں اس منصوبے کو کرپشن کی نظر ہونے کا خطرہ تھا۔ چین ہی تھرکول میں 3ارب 10کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری براہ راست کررہاہے۔ اس منصوبے سے 1320میگا واٹ بجلی پیدا ہوسکے گی۔ تھر میں مذکورہ توانائی منصوبے پر چینی کمپنی شنگھائی الیکٹرک سرمایہ کاری کرے گی۔ منصوبے کیلئے تھر سے سالانہ 78لاکھ ٹن کوئلہ نکالاجائیگا، ویسے کوئلے کے ذخائر سے ہمیں اﷲ تعالی نے اتنا نوازا ہے کہ ہم 150سال تک اس قدرتی معدنیات سے مستفید ہوسکتے ہیں لیکن توانائی کا جو بھی منصوبہ حکمران شروع کریں اس میں Cost of Productionکا خاص خیال رکھیں۔ 20روپے یونٹ کا بل بھرنا عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے اس میں مزید اضافہ خطرناک ہوگا۔ عوام کو بجلی چاہئے لیکن مہنگی نہیں سستی بجلی ۔ مہنگی بجلی سے بہتر ہے کہ زیادہ توجہ پانی اور شمسی توانائی کے منصوبوں پر مرکوز رکھی جائے کیونکہ عوام مہنگائی کی چکی میں اس قدر پس چکی ہے کہ اب مزید گنجائش پسنے اور خوار ہونے کی ان میں نہیں ہے۔ ملک کا پورا نظام توانائی بحران نے ہلاکر رکھ دیاہے۔ جتنی شدید گرمی امسال پڑر ہی ہے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔ شدید گرمیوں میں خصوصا دیہاتوں میں صرف 4گھنٹے اور شہروں میں 12سے 14گھنٹے بجلی مہیا کی جارہی ہے۔ نوا زشریف دور کے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں سے عوام تاحال مستفید نہیں ہوپارہے ہیں لیکن ان کے اس عزم نے عوام کا حوصلہ بڑھادیاہے جس میں انہوں نے اعادہ کیا کہ ہم اپنے دور کے آخر تک لوڈ شیڈنگ کو ختم کرکے رہیں گے۔ ان کے بقول پاکستان کا شمار دنیا کی ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں ہورہاہے۔ ہمارے دشمن ہماری ابھرتی ہوئی معیشت، اربوں روپوں کی سرمایہ کاری سے خوف زدہ ہیں ۔ وہ ملک میں انتشار پھیلاکر ان منصوبوں کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے ارادے ہم اﷲ تعالی کی مدد اور خلوص کے باعث خاک میں ملادیں گے۔ صدر پاکستان ممنون حسین نے بھی ایسے خدشات کا اظہار کیاہے۔ انہوں نے سی پیک منصوبے پر غلط فہمیاں پیدا کرنے والو ں کو باز رہنے کی تلقین کی ۔ مذکورہ تمام دعوؤں، منصوبوں اور بیانات سے قطع نظر عوام تک ریلیف کا پہنچنا انتہائی ضروری ہے۔ بجلی اور گیس کے استعمال میں آبادی کے تناسب کیساتھ اضافہ ہورہاہے لیکن پیداوار میں اس نسبت سے اضافہ نہیں ہورہاہے۔ گیس کا شارٹ فال دو ارب معکب فٹ ہے جسکے باعث سالانہ 14ارب کا نقصان ہورہاہے جبکہ بجلی کی اوسطا کمی 4ہزار میگا واٹ ہے جو گرمی میں بڑھ کر 7ہزار میگاواٹ ہوجاتی ہے یہ کمی کل ملکی طلب کی 23%ہے اس کمی میں آئے روز اضافہ ہورہاہے۔ اوپر سے سونے پہ سہاگہ کرپشن نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرکے رکھ دیاہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک میں کرپشن کے خاتمہ کیلئے ایک مربوط، منصفانہ نظام وضع کیاجائے جو بلا امتیاز ہر کرپٹ آدمی کا احتساب کرے لیکن بدقسمتی سے اس میں کوئی مخلص نہیں ہے۔ ہر کوئی دوسری سیاسی جماعت پر تنقید کرنے میں پیش پیش ہے لیکن اپنے گریبان میں کوئی جھانکنے کو تیارنہیں ہے۔ پی ٹی آئی نے یوم احتساب منایا لیکن اپنے صوبے میں انہیں اپنے وزیروں کی کرپشن نظر نہیں آتی جس کے خلاف ان کے اپنے قومی و صوبائی اسمبلی کے نمائندے صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں۔ پاکستان کی کرپٹ ترین جماعت پی پی پی کے بلاول بھٹو زرداری پھر احتساب اور پانامہ لیکس کی بات کررہے ہیں لیکن سندھ میں کرپشن، بدانتظامی، لاقانونیت ، اقرباء پروری آخری حدوں کو چھو رہی ہے اسکی طرف ان کی توجہ نہیں ہے۔ تمام جماعتوں کا کرپشن کے خلاف احتجاج صرف اور صرف عوام کی توجہ مسائل سے ہٹاناہے اور ان کی ہمدردیاں حاصل کرناہے۔ اگر ہر جماعت جہاں جس کی حکومت ہے وہاں بہتر کارکردگی دکھائے تو پورے پاکستان پر اسکا اثر پڑے گا لیکن لگتا ایسا ہے کہ ہم نے تہیہ کررکھا ہے کہ ہم نے دوسروں کے عیب تلاش کرنااور اپنے عیبوں پر پردہ ڈالناہے۔ پی ٹی آئی کے عمران خان کے بارے میں کسی دانشور کے یہ الفاظ مجھے یاد ہیں کہ جتنا زور انہوں نے نواز شریف کو ہٹانے ، دھرنا اور احتجاجی سیاست پر لگایا اگر اتنا Focusانہوں نے اپنے صوبہ پر کیا ہوتا تو آج انکا صوبہ اور ان کی جماعت دیگر صوبوں اور پاکستان کی عوام کیلئے رول ماڈل ہوتی لیکن کاش ایسا ہوسکتا۔
Sohail Aazmi
About the Author: Sohail Aazmi Read More Articles by Sohail Aazmi: 181 Articles with 137171 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.