14اگست یومِ آزادی ،تجدید عہد کا دن۔۔۔!
(Talib Ali Awan, Sialkot)
قوموں کی بقاء میں کچھ ناقابلِ فراموش دن
ہوتے ہیں جن کو کسی صورت بھی بھلایا اور جٹلایا نہیں جاسکتا ۔ہم پاکستانی
بھی 14اگست کو کبھی نہیں بھول سکتے ہیں ۔ہماری آزادی کی تاریخ بڑی طویل،صبر
آزما اور عظیم جدوجہد سے عبارت ہے۔آزادی حاصل کرنے کے لیے ویسے تو قربانی
پیش کرنا ہی پڑتی ہے مگر حصولِ پاکستان کے لیے مسلمانانِ برصغیر نے جس قسم
کی قربانیاں پیش کیں ان کی مثال اقوامِ عالم میں نہیں ملے گی۔ہماری آزادی
کا ایک ایک باب خون سے رنگین ہے کیونکہ آزادی خون مانگتی ہے کچھ ایسی ہی
کیفیت 14اگست 1947ء کو دیکھنے میں آئی تھی جب لُٹے پٹے قافلے ڈھیروں خون
میں لت پت لاشیں لئے اس مملکتِ خدادادِپاکستان میں داخل ہو رہے تھے۔وہ ایک
ایسے نئے جذبہ سے سرشارتھے جوسارے دکھوں اور غموں کو برداشت کرنے کی قوت
پیدا کر رہا تھا۔ان میں پیار،محبت ،اخوت اور لگن تھی،وہ محکومی اور غلامی
کی ذلت سے نجات حاصل کر چکے تھے۔ہمیں آزادی انگریزوں نے نہ تو طشتری میں
سجا کر بطو ر تحفہ دی تھی اور نہ ہی برصغیر میں بسنے والی غیر مسلم اقوام
نے بخشیش کے طور پر عنایت کی تھی بلکہ تحریک ِآزادی پاکستان میں لاکھوں
مسلمانوں کی خونچکاں داستان تحریر ہے۔
مگر افسوس کہ جو خواب ہمارے اکابرین ،آباؤ اجداد اور ہماری مخلص قیادت نے
دیکھا تھا کہ پاکستان کو اسلام کا گہوارہ بنائیں گے ۔ایک اﷲ،ایک رسول ؐ
اورایک قرآن کے نام پر پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنائیں گے۔بدقسمتی سے قیام
پاکستان کے چند سال بعد ہی ہمارے اندرفرقہ واریت کا زہر سرایت کرنے
لگا،سیاسی جماعتوں کے علاوہ انتہاپسند جماعتیں منظر عام پر آنے
لگیں۔’’کُرسی‘‘کے خواش مندچند نام نہاد لیڈروں نے اسلام کو بطور ہتھیار
استعمال کیا۔ملک کی تمام دولت چند خاندانوں کی لونڈی بن گئی ،یہی خاندان
قیام پاکستان سے لے کر آج تک کسی نہ کسی صورت میں حکمران ہیں۔غریب پِس کر
رہ گیا ہے اور مہنگائی نے اس کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔امیر کا پاکستان اور
ہے اور غریب کا پاکستان اور ہے۔افسر کا پاکستان اور ہے اور کلرک کا پاکستان
کا اورہے۔امیر کے بچوں کا نظام تعلیم اور ہے اور غریب کے بچوں کا نطام
تعلیم اور ہے۔غریب ساری عمر کی محنت کے باوجود اپنا مکان نہیں بنا سکتا ہے
جبکہ سرمایہ دار کی ہر صوبہ میں الگ الگ کوٹھی ہے۔محنت غریب کرتا ہے جبکہ
اس کا پھل سرمایہ دار کھاجاتا ہے۔ہماری صفوں میں آج بھی میر قاسم اور میر
جعفر موجود ہیں جو اپنے مفاد کی خاطر ملکی مفاد اوربقاء داؤ پر لگا دیتے
ہیں۔ہمارے ہاں سیاسی نعرے اور وعدے ہیں جنہیں سُن سُن کرکان پک گئے
ہیں،بہلاوے ہی بہلاوے ہیں دکھاوے ہی دکھاوے ہیں،کشتی ملت بھنور میں ہے۔ہر
شخص اپنا اپنا راگ الاپ رہا ہے۔
ہماری بقاء وسلامتی ،تعمیروترقی اور عالمی برادری میں باوقار مقام حاصل
کرنے کے لیے ہمارے اندراتحاد ویگانگت اور مکمل ہم آہنگی بہت ضروری ہے۔میری
دُعا ہے کہ یومِ آزادی کے اس مبارک دن کے موقع پربحیثیت قوم اﷲ تعالی سے
اپنی کوتاہیوں کی معافی کے طلبگار ہوں اور آئندہ کے لیے تمام قسم کی
برائیوں ،تعصبات اورنفرتوں سے پرہیز کریں۔ایک ملت کی حیثیت سے اﷲ کی رسی کو
مضبوطی سے تھام کر پاکستان کی بقاء وسلامتی کے لیے ہمہ تن مصروف ہو
جائیں۔اسی میں ہماری اور ہماری آئندہ نسلوں کی بقاء ہے۔آمین
ـ |
|