قوموں کی تاریخ میں آزادی کا دن بنیادی
اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔زندہ قومیں یہ دن عزم،ولولے اور جوش کے ساتھ مناتی
ہیں۔باوقار قومیں اس دن اپنے لیے نصب العین اور مقاصد کا تعین کرتی
ہیں۔منزل کے حصول کے لیے راہِ عمل متعین کی جاتی ہے اور ماضی کے تجربات اور
اقدامات کا محاسبہ بھی کیا جاتا ہے۔
آزادی کا بنیادی مطلب یہ ہے کہ قوم کے افراد اپنے افکار،نظریات اور فلسفے
کے مطابق اپنی زندگیاں گزار سکیں۔قوموں کے افکار اور نظریات صدیوں کے سفر
کے بعد متعین ہوتے ہیں۔یہی افکار ان کے تہذیبی ورثے کی بھی آئینہ داری کرتے
ہیں۔آزادی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ افراد اپنے اس تہذیبی ورثے کی نہ صرف
حفاظت کریں بلکہ اس کے ارتقاء میں معاون ہوں اور ان مزاہم قوتوں کا بھی قلع
قمع کریں جو اس ورثے کوتباہ کرنے پر آمادہ ہوں۔آزادی بالعموم
تاریخی،سماجی،معاشی اور تہذیبی عوامل کے تحفظ اور بقا کا نام ہوتی ہے۔
اگر ہم پاکستان کے قیام کے لیے چلائی جانے والی تحریک آزادی کا جائزہ لیں
تو اس کے کئی ایک پہلو سامنے آتے ہیں۔اس تحریکِ آزادی کا بنیادی مقصد سمندر
پار سے آئے تجارتی سامراج( جو ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت میں آیا)سے چھٹکارا
پانا تھاکیونکہ تجارتی سامراج تہذیبی اور تاریخی قدروں میں رخنہ انداز ہوتا
ہے۔برصغیر میں آنے والے بیرونی سامراج نے ہمارا تاریخ اور تہذیب سے رشتہ
منقطع کر دیا تھا اور یوں تاریخی ارتقاء اور تسلسل میں بسنے والا معاشرہ
یکدم گھاٹی میں جا گرااور وہ اس معاشرے میں منتشر اذہان کی پیدائش کا سبب
بنا۔بیرونی سامراج کا مقصد ہمیں اپنی تاریخی روایت سے الگ کرنا اور ہماری
آزادی کا پہلا مقصد خود کو اس روایت کے ساتھ جوڑنا تھا۔قابض سامراج اور
مقبوضہ قوم کی اخلاقی قدروں میں تفاوت پائی جاتی ہے۔انگریز سامراج نے اپنی
اخلاقی قدریں یہاں لاگو کرنے کی کوشش کی برصغیر کا سماج تجارتی اخلاقی
قدروں کی نسبت زرعی اخلاقی قدروں کے قریب تھا۔اس آزادی نے ہمیں یہ موقع دیا
کہ ہم اپنی اخلاقی قدروں کا تسلسل قائم رکھ سکیں۔آزادی کے مقاصد میں یہ بات
بھی شامل ہے کہ آزاد ہونے والی قوم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی اپنے
نظریہ حیات کے مطابق گزار سکے۔نظریہ حیات قوموں کے مناالحیث مجموعی تصور کا
نام ہے جوقومیں صدیوں کے تسلسل میں بنا پاتی ہیں۔نظریہ حیات ہی قیامِ
پاکستان کی بنیادی وجہ بنا۔تصورِ پاکستان دراصل ایک خاص نظریہ حیات سے جڑا
ہوا ہے اور وہ نظریہ حیات اسلام کا نظریہ حیات ہے اور اسی نظریے سے پاکستان
کی بنیادوں کو سینچا گیا ہے۔
آزادی حاصل کرنے سے اپنی آزادی کی حفاظت کرنا اور اسے برقرار رکھنا زیادہ
مشکل اور اہم بھی ہوتا ہے۔جو قومیں اپنے ماضی کا احتساب کرنا جانتی ہوں وہ
اپنی آزادی کی حفاظت بھی خوب کر سکتی ہیں۔جو قوم مڑ کر اپنی تاریخ کی طرف
نہیں دیکھتی وہ اپنے مستقبل کے خواب بھی نہیں دیکھ سکتی ۔تاریخ کو کوڑے دان
میں نہیں پھینکا جا سکتا ۔جب تک ماضی میں سر زد ہونے والے تحسامات کا ازالہ
نہیں کیا جائے گا اس وقت تک عمارت میں موجود نقص دور نہیں ہوگا۔احتساب اسی
کا نام ہے۔آزادی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہم اپنے نصب العین اور مقاصد کا
ازسرِ نو تعین کریں۔پاکستان میں آزادی کا دن منانے میں یہ بات بھی شامل ہے
کہ ہم جہاں سامراج سے آزادی ملنے کی خوشی منائیں وہاں یہ بھی دیکھا جائے کہ
ہم اپنی منزل سے کتنے دور ہیں اور راستے میں کٹھنائیاں کیا ہیں اور ان کا
مقابلہ کیسے کرنا ہے۔
بالعموم پاکستانی حکومتیں دستیاب وسائل میں یہ کوشش کرتی رہی ہیں کہ حصولِ
پاکستان میں مضمر نظریے کی حفاظت کی جائے اور پاکستان کو ایک فلاحی ریاست
میں تبدیل کیا جاسکے۔آج کے دن حکومت کے ساتھ ساتھ اب ہر فرد کی یہ ذمہ داری
ہے کہ وہ اس نظریے کی حفاظت کے لیے اپنا کردار ادا کرے اورملک میں موجود
دہشت گردی کی لہر کو مٹانے اور انتہا پسندی کے اژدھے کو مارنے کے لیے
میدانِ عمل میں نکلے۔جب تک قوم کا ہر فرد اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں کرے
گا اس وقت تک ہماری آزادی پر آج بھی بیرونی سامراج کی تلوار لٹکتی رہے
گی۔ہماری آج کی جدوجہد سے ہی ہماری کل آنے والی نسل سکھ کا سانس لے پائے گی
اور فلاحی ریاست کے قیام کی منزل قریب سے قریب تر ہوتی چلی جائے گی۔ |