بچوں، بچوں کے بچپن اورمعصومیت کااغواء،بازیابی کے اقدامات ،حفاظتی انتظامات اوروالدین
(Muhammad Siddique Prihar, Layyah)
میرے دیس کے بچے کس کے نشانے پر ہیں؟ان
بچوں پرجای ظلم کااصل ذمہ دارکون ہے؟بچے تومعصوم ہوتے ہیں ۔ بچے توسب
کوپیارے ہوتے ہیں۔ ان کی کسی سے دشمنی نہیں ہوتی۔بچے توقوم کامستقبل ہوتے
ہیں۔قوم کامستقبل گذشتہ کئی دہائیوں سے دکھائی نہ دینے والی بلاؤں کے نشانے
پرہے۔آرمی پبلک سکول پشاورکادلدوزسانحہ کس کوبھول سکتا ہے۔اس سانحہ
کاذکرلکھتے اورپڑھتے ہوئے اب بھی کلیجہ منہ کوآنے لگتا ہے۔جس میں سینکڑوں
بچوں کوبربریت کانشانہ بناتے ہوئے شہیدکردیاگیا۔قصور اوردیگرشہروں میں بچوں
کوجنسی درندگی کانشانہ بنانے کاواقعہ بھی کوئی فراموش نہیں کرسکتا۔اونٹ ریس
کیلئے بچوں کے اغواء کے واعات سے کون واقف نہیں ہے۔ اب بچوں کے اغواء
اورگمشدگی کے واقعات میں تیزی آگئی ہے۔گذشتہ چندہفتوں سے آئے روزبچوں کے
اغواء کے واقعات ہورہے ہیں۔ ملتان اور شجاع آبادسے خبر ہے کہ چاہ بلی
والالاڑ کے قریب شہریوں نے خاتون سمیت دوافرادکوبچوں کے اغواء کے الزام میں
پکڑ لیااوران کو ڈنڈوں سے وحشیانہ تشدد اکانشانہ بنایاجس سے خاتون کے دونوں
بازواورٹانگیں ٹوٹ گئیں۔شہریوں نے اغواء کاروں کوپولیس کے حوالے کرنے سے
انکار کردیا ۔تشدد زدہ خاتون کونشترہسپتال داخل کرادیاگیا۔پولیس کے مطابق
واقعہ کی تفتیش جاری ہے ۔خاتون اورمردحلیے سے غیرملکی معلوم ہوتے ہیں۔ان کی
شناخت کی کوشش کی جارہی ہے۔بہاوالپورمیں شہریوں نے ایک شخص کواغواء کے
الزام میں پکڑکرتشدد کانشانہ بنایا پھراسے پولیس کے حوالے کردیا۔بوریوالہ
کی ایک خاتون نے پولیس کودی گئی درخواست میں کہا کہ اس کی دس سالہ بیٹی
دودھ لینے گئی اس کواہل علاقہ کے اغواء کارکے چنگل سے چھڑایا۔ مبینہ اغواء
کارکے بتایا کہ اس کے دیگرچارساتھی بھی ہمراہ تھے جوآگے گئے ہوئے ہیں وہ
بھی بچوں کواغواء کرتے ہیں۔خانیوال میں تین افرادبچے کواغواء کرکے لے جارہے
تھے کہ لوگوں نے تعاقب کرکے بچے کوچھڑوالیااورایک اغواء کارکوقابوکرکے تشدد
کانشانہ بنایاجبکہ اس کے دوساتھی فرارہوگئے۔بعدازاں ملزم کوپولیس کے حوالے
کردیاگیا ۔ اس طرح واقعات اب روزانہ اخباروں میں پڑھنے کوملتے ہیں۔مرغیوں
کے ٹرک سے بچوں کے برآمدہونے کی خبریں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ قائم مقام چیف
جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثارنے میڈیارپورٹس کی بنیاد پرلیے
گئے ازخونوٹس کے حکم میں قراردیاہے کہ میڈیامیں پنجاب سے بچوں کے اغواء
ہونے کے واقعات رپورٹ ہورہے ہیں جن کے مطابق پنجاب سے چھ سوسے
زائداورلاہورسے تین سوسے زائدبچے اغواء ہوچکے ہیں۔ رپورٹس میں اس بات کی
نشاندہی کی گئی ہے کہ بچوں کے اغواء کی وجہ ان کے جسمانی اعضاء کی فروخت ،بچوں
کوبھکاری بنانے سمیت دیگرمذموم مقاصدہیں۔فاضل جج نے قراردیا ہے کہ سپریم
کورٹ کیلئے چندماہ کے دوران بچوں کابڑی تعدادمیں اغواء ہوناتشوئشناک
اورلمحہ فکریہ ہے۔بچوں کے اغواء کے واقعات آئین کے تحت دیے گئے بنیادی حقوق
کی خلاف ورزی ہیں۔سپریم کورٹ نے آئی جی پولیس مشتاق سکھیراکونوٹس جاری کرتے
ہوئے بچوں کے اغواء کے مقدمات پرتفصیلی رپورٹ طلب کی ہے ۔وزیراعلیٰ پنجاب
شہبازشریف کی زیرصدارت چارگھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس میں گمشدہ بچوں کے
واقعات پرہونے والی پیشرفت اورچائلڈ پروٹیکشن بیوروکی کاکردگی کابھی جائزہ
لیاگیا۔وزیراعلیٰ کاکہناتھا کہ گمشدہ بچوں کی بازیابی کیلئے کئے گئے
اقدامات کے مثبت نتائج برآمدہوئے ہیں۔حقائق کوچھپائے بغیر صورت حال کی
اصلاح کیلئے ہرممکن اقدامات کئے جائیں۔وزیراعلیٰ نے کہا گمشدہ بچوں کے
حوالے سے مانیٹرنگ کامستقل نظام وضع کیاجائے۔اورجوبچے ابھی تک لاپتہ ہیں ان
کی گھروں میں واپسی کیلئے موثراقدامات اٹھائے جائیں۔ان کاکہناتھا کہ لاپتہ
بچوں کی بازیابی کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت کامیں خودباقاعدہ جائزہ لوں
گا۔وزیراعلیٰ نے گمشدہ بچوں کے حوالے سے معاون خصوصی رانامقبول احمدکی
سربراہی میں سٹیرنگ کمیٹی کے قیام کی ہدایت کرتے ہوئے کہاکہ کمیٹی اس ضمن
میں تمام ضروراقدامات اٹھائے فعال اورمتحرک اندازمیں کام کریں۔انہوں نے
ہدایت دی کہ معصوم بچوں سے بھیک منگوانے والے افراد کیخلاف
بلاامتیازکارروائی کی جائے ۔شہبازشریف نے لاپتہ بچوں کی بازیابی اوران کی
بحالی کیلئے موثراندازسے کام کرنے پرچائلڈ پروٹیکشن بیوروکی کارکردگی کی
بھی تعریف کی۔ لاپتہ بچوں کے حوالے سے قائم کردہ سٹیرنگ کمیٹی کے اجلاس سے
خطاب کرتے ہوئے شہبازشریف نے کہا کہ صوبے کاہربچہ مجھے عزیزہے۔ بچے قوم
کامستقبل ہیں۔ان کے تحفظ کیلئے کوئی کسراٹھانہ رکھیں گے۔پنجاب حکومت کے
متعلقہ اداروں کے موثراقدامات کے باعث بچوں کی گمشدگی کے واقعات میں
خاطرخواہ کمی ہوئی ہے۔تاہم جوبچے ابھی تک لاپتہ ہیں ان کی تلاش کیلئے محنت
سے کام کیاجائے۔وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ ایساموثرنظام وضع کیاجائے کہ
آئندہ بچوں کی گمشدگی اورلاپتہ ہونے کاواقعہ نہیں ہوناچاہیے۔کیونکہ بچے کی
گمشدگی پروالدین کوجس کرب سے گزرناپڑتاہے یہ وہی جانتے ہیں۔موسم گرماکی
تعطیلات ختم ہونے پرسکولوں کی فول پروف سیکیورٹی یقینی بنائی جائے۔اورسکول
جانے والے بچوں کے تحفظ کیلئے وضع کردہ پلان پرسختی سے عمل کیاجائے۔ وزیر
قانون پنجاب راناثناء اللہ نے چائلڈ پروٹیکشن بیوروکی سربراہ صباء صادق
اورسی سی پی اولاہورکے ہمراہ شاہراہ قائداعظم میں سینیئرصحافیوں، کالم
نگاروں اوراینکرپرسن کیلئے بریفنگ کااہتمام کیا۔بریفنگ میں پنجاب خصوصاً
لاہورمیں بچوں کے اغواء اوربازیابی کے حوالے سے لاہورپولیس کے حکام نے مکمل
ریکارڈ میڈیاکے سامنے رکھا۔جس کے مطابق پنجاب خصوصاً لاہورمیں بچوں کے بڑے
پیمانے پراغواء کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔اب تک ۷۶۷کل گمشدہ بچوں
میں سے سات سوبائیس بچے اپنے گھروں کوواپس آچکے ہیں۔صرف ۵۴ بچے اب تک لاپتہ
ہیں۔جبکہ سال دوہزارپندرہ میں لاپتہ ،گمشدہ یااغواء شدہ بچوں کی تعداد۴۳۱۱
تھی جن میں ۳۹۰۱ بچے وپس آگئے یابازیاب ہوگئے ساڑھے پانچ سال کے دوران چھ
ہزارسات سو۳۹بچے اغواء چھ ہزارچھ سواکسٹھ بازیاب ہو گئے ۔ایک سوبتیس اب تک
لاپتہ ہیں جن کی تلاش جاری ہے۔۴۴ فیصدبچے والدین کے سخت رویہ کی وجہ سے
بھاگے۔سات فیصدرشتہ داروں اورپانچ فیصد خاندانی معاملات کے باعث اغواء
ہوئے۔لاپتہ بچوں کی تصاویرپولیس کی ویب سائٹ پرڈالیں گے۔ایس ایس پی
آپریشنزملتان ڈاکٹررضوان خان نے کہا ہے کہ بچوں کی اغواء کی کوشش کے الزام
لگاکرشہریوں پرتشدد غیرقانونی ہے تشدد کرنے والوں کیخلاف انسداددہشت گردی
ایکٹ کے تحت مقدمات درج کئے جائیں گے۔ایف آئی اے نے کمسن بچوں کواغواء
اوران کے اعضاء بیرون ملک فروخت کرنے کی اطلاعات پرتحقیقات شرع کردیں ۔
یہ بات توسب جانتے ہیں کہ بچے اغواء ہورہے ہیں۔اس کی مذمت بھی کی جارہی
ہے۔حکومت پنجاب بازیابی کیلئے ہرممکن اقدامات بھی کررہی ہے۔سپریم کورٹ
ازخودنوٹس بھی لے چکی ہے۔ ایف آئی اے نے تحقیقات کاآغازکردیا ہے۔اس حوالے
سے سراج الحق اوربلاول بھٹوبھی اپنے اپنے خیالات کااظہار کرچکے ہیں۔بچوں کے
غواء پرسب کوفکربھی ہے اورتشویش بھی۔ایسا ہونابھی چاہیے۔سوچنے کی بات یہ ہے
کہ بچوں کے اغواء پرتوسب کوتشویش ہے بچوں کابچپن اورمعصومیت جوگذشتہ کئی
دہائیوں سے اغواء ہوچکے ہیں اس کی نہ کسی کوفکرہے اورنہ ہی ادراک۔ہماری
معلومات کے مطابق بچوں کابچپن اورمعصومیت پہلے اغواء ہوئے جبکہ بچے بعدمیں
اغواء ہوئے۔کبھی ان بچوں کوشعبدہ بازیاں اورمیجک شودکھاکران کی معصومیت
اغواء کی گئی۔کبھی وی سی آروی سی پی پرفحش اورتشدد سے بھری ہوئی فلمیں
دکھاکران کی معصومیت اغواء کی گئی۔کبھی ان کوکرکٹ اورپتنگوں کے پیچھے
لگاکران کابچپن چھیننے کی کوشش کی جاتی ہے۔کبھی ان سے بھٹوں پرکام کرواکر،
ہوٹلوں میں برتن دھلواکر،ورکشاپوں میں ہتھوڑا پکڑواکر، سڑکوں پربھیک
منگواکران کابچپن اورمعصومیت دونوں اغواء کرلیے جاتے ہیں۔بچوں کے لاپتہ
ہونے یااغواء ہونے کے صدمات کوئی کم صدمات نہیں ہیں ان کے اعضاء فروخت کرنے
کی اطلاعات اس سے بھی بڑاصدمہ ہیں۔کون ہیں وہ لوگ جوکرنسی کے چندنوٹوں کی
خاطرمعصوم بچوں کی معصومیت اورزندگی سے کھیل رہے ہیں۔بچے جب تک گھرواپس
نہیں آتے والدین بے چین رہتے ہیں۔بچوں کوگھرآنے میں ذراسی دیرہوجائے والدین
کی نظریں دروازے پرمرکوزہوجاتی ہیں۔ ہرسانس کے ساتھ یہ خیال دل میں آنے
لگتا ہے کہ اللہ خیرکرے بچے ابھی تک گھر کیوں نہیں آئے اس طرح کی صورت حال
توعام دنوں میں ہوتی ہے جب اس طرح کے واقعات نہیں ہورہے ہوتے۔جب آئے
روزبچوں کے اغواء کی خبریں پڑھنے اورسننے کوملیں ان کے اعضاء فروخت کرنے کی
اطلاعات بھی میڈیامیں آچکی ہوں ان حالات میں بچوں کے بروقت گھرنہ پہنچنے
پروالدین کی کیاکیفیت ہوگی اس کااندازہ لگاناکوئی مشکل نہیں ہے۔سکول کھلنے
پروالدین کی پریشانیوں میں اوربھی اضافہ ہوگیا ہے۔پرائیویٹ سکولوں کے بچوں
کوسکولوں کی گاڑیاں گھرسے لے بھی جاتی ہیں اورواپس گھرچھوڑ بھی جاتی
ہیں۔سرکاری سکولوں کے بچوں کیلئے یہ سہولت میسرنہیں ہے۔کئی والدین بچوں
کوخود سکول چھوڑآتے اورواپس لے جاتے ہیں۔تاہم تمام والدین مصروفیت کی وجہ
سے ایسا نہیں کرسکتے۔دیہاتوں میں رہنے والے بچوں کوان کے والدین روزانہ
سکول تک نہیں چھوڑسکتے ۔ دیہاتوں سے سکولوں میںآنے والے بچے پانچ سے سات
کلومیٹرکاسفرطے کرکے آتے ہیں۔ان کے والدین ان کوسکول چھوڑنے اورسکول سے
لینے آئیں تووہ محنت مزدوری نہیں کرسکتے۔اب وہ بچوں کوسکول بھیجتے ہیں
توانہیں یہ فکرلاحق رہتی ہے کہ کہیں میرے بچے کے ساتھ بھی ایسانہ ہوجائے
ویسانہ ہوجائے۔ اور والدین بچوں کوسکولوں میں نہیں بھیجتے تووہ تعلیم سے
محروم رہتے ہیں۔اب والدین کیاکریں اورکیانہ کریں۔ایسی ٹرانسپورٹ کاانتظام
کرناجوبچوں کوگھرسے لے جائے اورسکول سے واپس گھرلے آئے دیہات میں رہنے والے
والدین کیلئے بہت مشکل ہے۔محدودآمدنی کی وجہ سے وہ ٹرانسپورٹ کے اخراجات
بھی برداشت نہیں کرسکتے۔اگرچہ پنجاب حکومت نے بچوں کی حفاظت کاپلان مرتب
کیا ہے۔اس پلان کے تحت کہاں تک بچوں کی حفاظت کی جاسکتی ہے۔ شہروں میں
توکسی حدتک ممکن ہے۔دیہات سے اوردوردرازسے آنے والے بچوں کی حفاظت کیسے کی
جاسکتی ہے۔سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کیلئے توکسی حدتک حفاظتی منصوبہ
بنالیاگیاہے ورکشاپوں، ہوٹلوں، ہیئرڈریسرکی دکانوں، درزیوں ،بیکریوں
اوردیگردکانوں پرکام کرنے والے بچوں کی حفاظت کوم کرے گا۔ والدین بچوں
کوسوداسلف خریدنے بھی بھیجتے ہیں۔سوداسلف خریدنے جاتے ہوئے بچوں کے اغواء
کی رپورٹس بھی اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں۔ اب والدین بچوں کوسوداسلف
خریدنے بھی نہ بھیجیں؟ان کی حفاظت کیلئے بھی حفاظتی منصوبہ
بنایاجاناچاہیے۔اب نہ توپانچ سے سات کلومیٹرتک حفاظتی گارڈ تعینات کیے
جاسکتے ہیں اورنہ ہی والدین ہروقت بچوں کی حفاظت کرسکتے ہیں۔اب وہ ایک ہی
کام کرسکتے ہیںیاوہ روزگارکماسکتے ہیں یابچوں کی نگرانی کرسکتے ہیں۔بچوں کی
نگرانی کیلئے سکولوں کی طرف آنے والے راستوں اورسڑکوں پرسیکیورٹی کیمرے
لگائے جاسکتے ہیں۔لیکن یہ کیمرے بھی اکثربے وفانکلتے ہیں۔جب بھی دہشت گردی
یاایسی کوئی واردات ہوتی ہے تواس کے بعد یہ انکشاف سامنے آتا ہے کہ سی سی
ٹی وی کیمرے نیندکررہے تھے۔اب یہ کیمرے لگائے بھی جائیں جب کسی بچے کے ساتھ
کوئی واردات ہوجائے اورنزدیکی سیکیورٹی کیمرہ اس وقت نیندکررہاہوتووہ کیسے
بتائے گاکہ کس بچے کے ساتھ کس کس نے واردات کی ہے۔کیمرے لگائے جائیں توان
کونیندنہ کرنے دی جائے۔ان کیمروں کاایک مرکزبھی قائم کیاجاتا ہے جسے کنٹرول
روم کہاجاتاہے۔ ہرکیمرہ براہ راست اپنے مرکزکوبتاتاہے کہ میرے سامنے
کیاہورہا ہے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب یہ کیمرے نیندکررہے ہوتے ہیں توکیاان
کے مرکزکوپتہ نہیں چلتا کہ فلاں کیمرہ نیندکررہا ہے اسے بیداراورچوکس
کردیں۔بچوں میں کریکرسسٹم یاچپ بھی لگائی جاسکتی ہے۔یہ چپ بچوں کی گھڑی،
پین، جیومیڑی، عینک یابستہ میں بھی لگائی جاسکتی ہے ۔ اس سے بچے جہاں بھی
رہیں گے والدین کے سامنے رہیں گے۔بچوں کواغواء کرنے والے کسی رعائت کے
مستحق نہیں ہیں ۔جب بھی کوئی اغواء کاررنگے ہاتھوں پکڑاجائے اس کوعوام کے
سامنے عبرتناک سزادی جائے ۔بچوں کواغواء کرنے میں کون کون ملوث ہیں۔ سب
کوبے نقاب کیاجائے۔یونیسیف کوبھی اس سلسلہ میں اپنا کردار اداکرناچاہیے۔ |
|