بھارت اور عوامی جمہوریہ چین
(Dr Sajid Khakwani, Islamabad)
بھارت اوراسکے پڑوسی ممالک (1)
|
|
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
بھارتی حکومت کے جمہوریہ چین کے ساتھ ایک عرصہ سے متعدد سرحدی تنازعات جاری
ہیں۔’’اکسائی چن‘‘ان سرحدی تنازعات میں سے ایک اہم ترتنازعہ ہے۔’’اکسائی
چن‘‘کالفظی مطلب ’’سفید ندی‘‘ہے ،یہ چین،پاکستان اور بھارت کے سرحدی علاقوں
میں واقع ایک وسیع و عریض جگہ ہے۔جغرافیائی طورپر’’اکسائی چن‘‘تبت شمال
مغربی کاسطح مرتفعائی خطہ ارضی ہے ،ہمالیہ جیسے بلندوبالا پہاڑی سلسلوں میں
گھرے اس ’’اکسائی چن‘‘میں انسانی آبادی بہت کم ہے۔گزشتہ تاریخ کے مطابق
اٹھارویں صدی عیسوی تک ’’اکسائی چن‘‘کاعلاقہ لداخ کے حکمرانوں کے زیراثر
رہاتھا۔اسی صدی کے نصف آخرمیں جب سکھوں نے اپنی سلطنت کی توسیع کے لیے فوج
کشی کاآغاز کیاتوشمالی پنجاب، خیبرپختونخواہ اورکشمیر سمیت ’’اکسائی چن‘‘پر
بھی تسلط حاصل کرلیا۔1841ء میں جب سکھ افواج نے چین پر فوج کشی کے ارادے سے
تبت پر حملوں کاآغاز کیاتوچینی افواج نے انہیں نہ صرف پسپائی پرمجبور دیا
بلکہ ’’اکسائی چن‘‘پر بھی چینی افواج نے اپنا قبضہ جما لیااور یوں سکھوں کی
حکومت کو ’’اکسائی چن‘‘سے ہاتھ دھونا پڑے۔1846ء میں سکھاشاہی اپنے انجام کو
پہنچی اور تاج برطانیہ کاسورج جگمگانے لگا۔اگست1947میں جب گوراسامراج یہاں
سے رخصت ہوا تو’’اکسائی چن‘‘بدستورچین کی قلمرومیں شامل تھا۔ برہمن کی حریص
نظریں ’’اکسائی چن‘‘پر للچانے لگیں اور دہلی سرکارنے اس علاقے پر اپنی حق
ملکیت کادعوی کردیااور یوں چین کے ساتھ بھارت سرکار کی کھینچاتانی شروع ہو
گئی۔اس وقت یہاں بدھ مذہب کے ماننے والوں کی ایک کثیر تعدادموجود ہے
اورساتھ امت مسلمہ کے بدن کاایک حصہ بھی یہاں کئی صدیوں سے سکونت پزیرہے۔
تبت اور سنکیانگ کے درمیان اہم تجارتی شاہراہ جو پاکستان سے چین میں داخل
ہونے کا زمینی راستہ ہے ،چونکہ اسی خطہ ارضی ’’اکسائی چن‘‘سے گزرتی ہے اسی
لیے چین کے ہاں یہ علاقہ بہت زیادہ دفاعی ومعاشی اہمیت کا حامل ہے چنانچہ
چینی حکومت اس علاقے کی دست برداری کا سوچ بھی نہیں سکتی۔
بھارت کادعوی ہے کہ 35,241مربع کلومیٹر پر محیط ’’اکسائی چن‘‘چونکہ جموں
وکشمیرکا حصہ ہے اس لیے اس پر بھارت کا حق فائق ہے جبکہ چین کا کہنا ہے کہ
یہ ’’اکسائی چن‘‘اس کے صوبے سنکیانگ کا اٹوٹ انگ ہے۔جموں وکشمیراور
’’اکسائی چن‘‘کے درمیان واقع سرحدLine of Actual Control (LAC)کہلاتی
ہے۔چین اور بھارت کے درمیان سرحد کی کل لمبائی 4056کلومیٹر(2520میل)بنتی
ہے،دونوں ملکوں کے درمیان یہ سرحدی پٹی بھارت کی پانچ ریاستوں جموں
کشمیر،اترکھنڈ،ہماچل پردیش،سکم اور ارنچل پردیش کے درمیان سے گزرتی ہے۔جب
کہ چین کے اندر سے یہ تمام سرحدتبت کے نیم خودمختار علاقے کے درمیان واقع
ہے۔1962ء کی چین بھارت جنگ کے بعد سے اس متنازعہ سرحدی پٹی کو Line of
Actual Control (LAC)نام سے پکاراجاتارہالیکن چینی دانش وروں کاکہناہے کہ
سب سے پہلے Line of Actual Control (LAC)کی اصطلاح چینی وزیراعظم ’’ظہوانلائی‘‘نے
اس خط میں استعمال تھی جو انہوں نے 24اکتوبر1959کو بھارتی وزیراعظم
جواہرلعل نہرو کولکھاتھا۔بہرحال اس اصطلاح کو باقائدہ دستاویزی حیثیت
1993اور1996بھارت چین معاہدوں کے درمیان حاصل ہو گئی۔ان معاہدوں کے مطابق
دونوں ممالک اس متنازعہ سرحدی پٹی میں کسی طرح کی بھی پیش قدمی نہ کرنے کے
پابند رہیں گے۔بھارتی حکومت کا دعوی تھا چینی افواج ہر سال سینکڑوں باراس
سرحدی پٹی کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ان معاہدوں میں اس متنازعہ سرحدی پٹی کی
بیشتر تفصیلات تو طے کر لی گئیں لیکن کم و بیش بیس کلومیٹرکی چوڑائی کے
علاقے پر کسی طرح کا سمجھوطہ نہ ہو سکااور معاملہ دونوں حکومتوں کے درمیان
لٹکتارہ گیا۔
ان معاہدوں کے بعد چین کی حکومت نے اپنی طرف کے علاقے میں وسیع پیمانے پر
ترقیاتی کاموں کومہمیزدی اور بہت بڑے بڑے منصوبے تکمیل کے مراحل میں تیزی
سے داخل ہو نے لگے۔بھارتی حکومت نے اپنی دیرینہ مخاصماتی فطرت کے باعث اپنی
طرف کے علاقے میں بھی سال2000ء کے بعد سے ترقیاتی کاموں کی بنیاد ڈالناشروع
کر دی۔بھارتی فوج نے ان ترقیاتی کاموں کی آڑ میں اپنے دفاعی مورچے بھی
بنانا شروع کر دیے جو کہ گزشتہ معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی تھی۔چینی حکومت
نے اس دفاعی اقدام کو اپنے خلاف کھلم کھلا جارحیت تصور کیا۔چین چونکہ ایک
طاقتورملک ہے اور وہ اچھی طرح جانتاہے کہ دنیامیں سینکڑوں نہیں ہزارہا
زبانیں بولی جاتی ہیں ،لیکن ایک زبان ایسی ہے جو ہرقوم کو سمجھ آجاتی ہے ،اور
وہ زبان ’’طاقت‘‘کی زبان ہے۔بھارتی حکومت کا مستند،مجرب اورآزمودہ کار علاج
بھی قوت کی زبان ہی ہے۔چنانچہ 2011ء میں چینی افواج نے متنازعہ علاقہ کے
اٹھارہ کلومیٹر اندرتک مار کیااور سترہ انچ موٹائی کے بنے مضبوط بھارتی
مورچے تباہ و برباد کر دیے۔چینی افواج اگر ان مورچوں کی تباہی کے لیے
مزاکرات کی زبان بولتیں،امن،پیاراور محبت سے سمجھانے کی کوشش کرتے،عالمی
برادری میں اس مسئلے کو’’اجاگر‘‘کرتے یااقوام متحدہ میں قرارداد منظور
کراتے تو بھارتی حکومت نے ان تمام اقدامات کو گنگااور جمناکے پانیوں پر لکھ
کر بحرہند میں بہادینا تھا۔چین کے اس اقدام میں بھارت کے دیگر ہمسایہ ممالک
کے لیے بہت بڑا سبق عیاں ہے۔
15پریل2013ء کوچینی افواج نے اس علاقے میں اپنے خیمے لگائے تو اگلے ہی دن
بھارتی سرحدی نیم فوجی دستوں نے ان چینی خیموں کو تاڑ لیا۔شرارت چونکہ
برہمن کی فطرت میں شامل ہے اس لیے آؤدیکھا نہ تاؤ بھارتی فوج نے بھی محض
تین سو میٹر کے فاصلے پر اپنے خیمے بھی نصب کر دیے۔چینی افواج کو چونکہ
ٹرکوں اور ہیلی کوپٹروں کی اعانت حاصل تھی اس لیے دہلی سرکار کو کپکپی لگ
گئی اور اس واقعے کو سال کا حساس ترین عسکری واقعہ قراردیاجانے لگا۔اب کی
بار بھارتی فوج خوفزدہ تھی اسی لیے بھارتی حکومت سے استدعاکی گئی کہ اس
مسئلے کو سفارتی سطح پر حل کیاجاناچاہیے۔بہرحال دونوں فوجوں کے درمیان فوری
طور پر امن کی بات چیت بڑھنے لگی،آگے نہ بڑھنے کے وعدے کپڑوں پر لکھ کر ایک
دوسرے کے سامنے آویزاں کیے گئے اور کافی حد تک سرحدی مسائل مقامی کمانداروں
کی باہمی ملاقاتوں میں ہی طے ہو گئے ۔اس واقعے سے روزروشن کی طرح عیاں
ہوگیا کہ برہمن سامراج صرف طاقت کے سامنے ہی جھکنا جانتاہے،شرافت کی زبان
اس کی لغت سے خارج ہے۔اس سارے واقعے کو مغربی ذرائع ابلاغ نے آڑے ہاتھوں
لیا اور بہانے بہانے سے چینی فوج پر جارحیت کی الزام تراشی کی۔مقامی فوجی
افسران کی گفت و شنید کے استناد کے لیے بھارتی وزیرخارجہ3مئی کو چین کے
دورے پر روانہ ہوئے اور بیس دنوں تک مزاکرات جاری رہے اور بلآخربھارت کو
چین کا مطالبہ ماننا پڑا کہ چمار سیکٹر میں واقع بھارتی فوج کے مضبوط قلعے
مسمار کر دیے جائیں اور مطالبے کے منوانے تک چینی افواج اپنی مقام پر پوری
ثابت قدمی سے موجود رہیں۔اس کے علاوہ بھارتی فوج نے چینی علاقے کی نگرانی
کے لیے بلند وبالا چوٹیوں پر جوسمعی و بصری جاسوسی کے آلات نصب کررکھے تھے
چینی حکومت کے عسکری دباؤ کے باعث بھارتی حکومت نے ان آلات کے بھی عزل کا
فیصلہ مان لیااور جب بھارتی حکومت نے یہ تمام امور انجام دے لیے تب چینی
فوج اپنی اس جگہ سے واپس اپنے مقام پر لوٹ آئی۔اسے کہتے ہیں لاتوں کے بھوت
باتوں سے نہیں مانتے۔
’’دیپ سنگ‘‘کے پہاڑی میدان بھی ایک عرصہ تک چین اور بھارت کے درمیان وجہ
نزاع رہے،1962ء کی جنگ میں چین نے ان میدانوں پر قبضہ کرلیاتھا،تاہم بعد
میں لوٹا دیے ۔2013ء میں چین نے ڈنڈے کے زور پر ان میدانوں کا مسئلہ حل
کروالیا۔’’اکسائی چن‘‘کے آس پاس کے علاقے بھی ایک عرصہ سے حل طلب مسائل کی
فہرست میں شامل ہیں۔’’دیم چوک ‘‘جوکم و بیش پانچ سو کلومیٹرکے رقبہ پر محیط
ہے،’’چمار‘‘جوجنوبی لداخ کاحصہ ہے دونوں ملکوں کے افواج کے لیے سرحدی
نگرانی کے لیے دوڑدھوپ کی جگہ ہے اور یہاں کے معاملات اکثروبیشتر دونوں
ملکوں کی حکومتوں کے درمیان کھنچاؤ کا باعث بنتے رہتے ہیں۔’’دیم چوک‘‘کا
70%علاقہ چین کے زیرانتظام ہے اور 30%رقبہ بھارت کے تسلط میں ہے جس کانام
بھارتیہ سرکار نے ’’نیودیم چوک‘‘رکھا ہے،’’کرک ‘‘کی پہاڑیاں،’’شپ کیلہ‘‘جو
کہ چین بھارت کے درمیان ایک پہاڑی درہ ہے اور ماضی میں اپنی تجارتی اہمیت
کے باعث شاہراہ ریشم کہلاتاتھا،اس تجارتی درے کو بھارت نے اپنے فوجی مقاصد
کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے جوکہ چین کے لیے باعث تشویش ہے اور ان
کے علاوہ کتنے کی چھوٹی بڑی چرا گاہیں جو کہ پہاڑی علاقوں میں بہت اہمیت کی
حامل ہوتی ہیں،بھارت کے قبضے میں ہین چین اس کا دعوے دار ہے اور اگر چین کے
پاس ہیں تو بھارت ان کا واویلا مچاتاہے۔
’’اروناچل پردیش‘‘بھارت اور چین کے درمیان ایک اوربہت بڑی وجہ نزاع
ہے۔’’اروناچل پردیش‘‘انتہائی شمال مشرقی بھارت میں واقع ہے،اس کے جنوب میں
آسام اور ناگالینڈ ہیں،مغرب میں بھوٹان،مشرق میں برما(میانمار)اور شمال میں
عوامی جمہویہ چین کی ریاست واقع ہیں۔لفظ’’اروناچل پردیش‘‘کامطلب ایسی
سرزمین کے ہیں جو شفق والی صبح کی مالک ہو۔’’ایٹانگر‘‘یہاں کادارالحکومت
ہے۔’’اروناچل پردیش‘‘بھارت کی سات بہنیں ریاستوں میں سے ایک ہے
جوجغرافیائی،مذہبی اور ثقافتی طور پر ایک عالی شان تہذیب و تمدن کی مالک
ہے۔برطانوی راج میں ’’اروناچل پردیش‘‘کانام شمال مشرقی سرحدی
ایجنسی(North-East Frontier Agency)تھا،1972ء میں بھارت نے اس ریاست
کانام’’اروناچل پردیش‘‘رکھ دیااور اسے ایک ریاست کادرجہ دے
دیاگیا۔’’اروناچل پردیش‘‘کے مقامی لوگ تبتی ہونے کے باعث اپنے آپ کو چینی
باشندہ کہنے پر فخر محسوس کرتے ہیں لیکن بھارت نے ان پر اپنا ناجائز تسلط
جما رکھا ہے۔یہ علاقہ چونکہ جغرافیائی طور پر جنوبی تبت کا حصہ ہے اس لیے
چین اس پر اپنی حق ملکیت کا دعوی کرتاہے۔’’اروناچل پردیش‘‘کی سرحدی پٹی
پہلے بھی چین اور بھارت کے درمیان ایک جنگ کاباعث بن چکی ہے۔
’’اروناچل پردیش‘‘کے لوگ زیادہ تر ’’تانی‘‘قبائل سے تعلق رکھتے ہیں
جو’’تانی لینڈ‘‘نامی آزاد ریاست کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔یہ لوگ بھارت سے
علیحدگی چاہتے ہیں اور سرحد کت دوسری طرف چین میں بسنے والے اپنے قبائل کے
لوگوں سے الحاق کے خواہاں ہیں۔یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ برطانوی سامراج کی غیر
فطری لکیر نے انہیں کاٹ کر علیحدہ کیاہوا ہے جبکہ ان کے دل اکٹھے دھڑکتے
ہیں اور سرحد کے دونوں جانب کے ’’مانی قبائل‘‘کے لوگ اپنی ثقافت،تاریخ اور
روایات میں یکساں ہیں۔یہاں کی تحریک آزادی Taniland Republic.کے نام سے
اپنی الگ مملکت کے لیے میدان میں موجود ہیں۔’’اروناچل پردیش‘‘میں ماؤ نواز
باغی بھی National Socialist Council of Nagalandکے نام سے بہت زیادہ متحرک
ہیں۔بعض اخباری اطلاعات کے مطابق ان کے تعلقات چین سے بھی قائم ہیں۔
بھارت اور چین کے درمیان ’’اروناچل پردیش‘‘کے سرحدی تنازعہ کے ڈانڈے
دورغلامی سے ملتے ہیں جب تاج برطانیہ یہاں پرآقاآقا کاکھیل کھیل رہاتھا اور
اپنی اس مستعار ریاست میں شرق تاغرب ایسے مسائل کے بیج بوکرگیاہے کہ آج تک
جنگ کاآلاؤ بھڑک رہاہے اوریہاں کے باشندے اس میں جھلس جھلس رہے ہیں۔بیسویں
صدی کے آغاز میں برطانوی حکومت نے فیصلہ کیااپنی جنوبی ایشیائی ریاست کے
گرد بیگانے علاقے(Buffer Zones)بنائے جائیں۔1913اور1914میں چین،تبت اور
ہندوستانی حکومتوں کے نمائندوں نے شملہ کانفرنس میں ایک معاہدے پر دستخط
کیے ۔سر ہنری میکمو ہن(Sir Henry McMahon)جو اس وقت برطانوی حکومت کے
وزیرخاجہ تھے،انہوں نے دونوں ملکوں کے نقشے سامنے رکھ کرایک خط لگایاجوتبت
اور ہندوستان کے درمیان ایک سرحدی نشان کی حیثیت اختیارکرگیا۔اس خط کی
جغرافیائی لمبائی 550میل بنی۔اس خط کو تاریخی دستاویزات میں’’خط
میکموہن‘‘(McMahon Line)کہاجاتاہے۔فساد کی اصل جڑ یہی خط ہے جو بھارت
اورچین کے درمیان وجہ تنازع ہے۔ شملہ کانفرنس کے بعداس خط کے مطابق سرحدوں
کے علاقوں کی تعیین کے اقدامات شروع ہوئے لیکن بلندوبالا پہاڑوں کے درمیان
وادیوں اور دریائی نالوں میں گھرے اس علاقے میں کاغذ پر لگی لکیرکی پابندی
انتہائی مشکل امر تھا۔شاید اسی لیے 1937ء میں شائع ہونے والی ایک برطانوی
دستاویز(Aitchison's Collection of Treaties)میں اس خط کاکوئی ذکر
نہیں۔مسلسل سرحدی تنازعات اور عسکری کھنچاؤسے بچنے کے لیے چینی انقلابی
راہنما چوئن الائی نے 7نومبر1959کو تجویز دی کہ دونوں ملکوں کی افواج ’’خط
میکموہن‘‘سے بیس بیس کلومیٹرپس انداز کریں۔اس تجویزکے باوجود بھارتی ہٹ
دھرمی نے دونوں ملکوں کو میدان میں صف آراکردیا۔1962ء کی چین بھارت جنگ میں
چینی افواج نے ’’خط میکموہن‘‘کے اس پار بھارتی موجودہ ریاست ’’اروناچل
پردیش‘‘کے اکثرپر قبضہ کرلیا۔جنگ ختم ہوتے ہی چینی افواج نے اپنی فتح
کااعلان کیا اور واپس ’’خط میکموہن‘‘پر اپنی گزشتہ مقام پر لوٹ آئے۔چین کی
کوئی بھی ’’خط میکموہن‘‘کو ماننے پر تیارنہ ہوئی،ان کا موقف ہے کہ تبت
کاعلاقہ ماضی قریب کی تاریخ میں کبھی بھی خودمختارریاست نہیں رہااور یہ
اختیارحاصل نہیں ہے کہ اس کے دستخطوں سے دو ملکوں کی سرحد کاتعین ہو
سکے۔چنانچہ متنازعہ علاقہ تاییوان کے کل رقبہ سے تین گنابڑا ہے اور ابھی تک
لاینحل ہے۔
’’خط میکموہن‘‘سے ایل اے سی(Actual Control (LAC))تک لداخ،اکسائی چن اور
اروناچل پردیش ،ایک سہ جہتی سرحدی تنازعہ ہے جس میں بھارت کی ہٹ دھرمی نے
دونوں قوموں کے تعلقات کو سردمہری کاشکارکررکھاہے۔بھارت کایہی رویہ دوسری
دنیاؤں کے فوجی کانواؤں کو اس خطے کی راہ سجھاتاہے۔ظاہر ہے کہ یہ فطری
قانون تب ضرور لاگو ہوتاہے جب ایک جگہ کاخلا پر کرنے کے لیے دوسری جگہ کی
ہوائیں امڈ آتیں ہیں۔جب اہل خانہ خود امن و سکون اور پیارمحبت سے نہیں رہیں
گے اور ان کی چینخ وپکار پڑوسیوں کے آرام میں مخل ہوتی رہے گی تو پڑوسی
دنیاؤں کے لوگ کب تک کان لپیٹے منتظر فردا رہیں گے۔آخر کو وہ وقت ہماری
نسلوں نے دیکھ لیا کہ سمندرپار سے خفیہ والے اور بندوقوں والوں نے
ایشیاء میں بھی اپنی طاقت کو انڈیل دیا کہ یہاں امن قائم ہونا چاہیے۔دوبڑی
بڑی عالمی جنگوں کے بعداگریورپ کے متحاربین اپنے وطن اور اپنی عوام کے لیے
شیروشکر ہوسکتے ہیں،ان کادفاع،محکمہ خاجہ اور کرنسی ایک ہو سکتی ہے تو
ایشیاء کے لوگ اور خاص طور جنوبی ایشیاء کے لوگ توایک دوسرے کے ساتھ
تاریخی،ثقافتی،تہذیبی،علاقائی،مذہبی اورہمسائگی کے علاوہ بھی بے پناہ
حوالوں سے محبتوں ،الفتوں اور وارفتگیوں کے مقروض ہیں،پھرایساکیوں نہ ہو ہم
اپنی آنے والی نسلوں کوایک اچھااور صحت مند ماحول دے کرجائیں ۔جب کہ حقیقت
یہ ہے کہ اب آنے والی نسلیں خواہ کسی ملک کی ہوں ان کے باہمی روابط انہیں
ایک کیے دے رہے ہیں،دوسری دنیاؤں کی خوشحالیاں وہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ
کرتے ہیں پس قریب ہے کہ برہمن کاسحر ٹوٹنے کوہے اورتنگ نظر پنڈت و پروہت کی
شب تاریک اپنے انجام کو پہنچا چاہتی ہے۔ وقت کی تیزہوائیں ایک بار پھر اس
برہمن سامراج کوپارلیمان اور ایوان ہائے اقتدارسے محروم کر کے تودیرکی کال
کوٹھری میں مندرکی پوجا تک محدود کردیں گی اورامن و آشتی کی ٹھنڈی ہوائیں
اس خطے میں خوب خوب چلیں گی اوردورغلامی سے پہلے کا جاری تاریخ کاکارواں
ایک بار پھرسوئے منزل جادہ پیماہوگااورتاریخ کے ماضی کوانسانیت کے مستقبل
سے جوڑ کر پیارومحبت والفت میں پروتاچلا جائے گا،انشاء اﷲ تعالی۔ |
|