(جادو جنات اور علاج قسط نمبرA4 )
(imran shahzad tarar, mandu bhauddin)
(جادو جنات اور علاج قسط نمبرA4 )
کتاب:شریر جادوگروں کا قلع قمع کرنے والی تلوار مئولف: الشیخ وحید عبدالسلام بالی حفظٰہ للہ '
ترجمہ: ڈاکٹر حافظ محمد اسحٰق زاھد -
مکتبہ اسلامیہ،
یونیکوڈ فارمیٹ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
|
|
پہلا حصہ
سحر کی تعریف سحر۔۔۔۔لغوی اعتبار سے جادو کے لئے عربی زبان میں سِحر کا لفظ
استعمال ہوتا ہے جس کی تعریف علماء نے یوں کی ہے: اللیث کہتے ہیں: “سحر وہ
عمل ہے جس میں پہلے شیطان کا قرب حاصل کیا جاتا ہے اور پھر اس سے مدد لی
جاتی ہے۔” الأزھری کہتے ہیں: “سحر دراصل کسی چیز کو اس کی حقیقت سے پھیر
دینے کا نام ہے۔” (تہذیب اللّغہ، ج 4 ص 290) اور ابن منظور اس کی توجیہ
بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ “ ساحر (جادوگر) جب باطل کو حق بنا کر پیش
کرتا ہے اور کسی چیز کو اس کی حقیقت سے ہٹا کر سامنے لاتا ہے تو گویا وہ
اسےدینی حقیقت سے پھیر دیتا ہے۔”(لسان العرب، ج4ص348) ابنِ عائشہ سے مروی
ہے کہ “عربوں نے جادو کا نام سحر اس لئے رکھا ہے کہ یہ تندرستی کو بیماری
میں بدل دیتا ہے۔” (لسان العرب، صفہ مذکورہ)
ابنِ فارس سحر کے متعلق کہتے ہیں: “ایک قوم کا خیال یہ ہے کہ‘سحر’ باطل کو
حق کی صورت میں پیش کرنا ہے۔” (مقاییس اللغۃ ص507 اور المصباح ص 267)
المعجم الوسیط میں ‘سحر’ کی تعریف یوں ہے :“سحر وہ ہوتا ہے جس کی بنیاد
لطیف اور انتہائی باریک ہو۔” (المعجم الوسیط، ج ا ص 419)
صاحبِ محیط المحیط کہتے ہیں: “سحر یہ ہے کہ کسی چیز کو بہت خوبصورت بنا کر
پیش کیا جائے تاکہ لوگ اس سے حیران ہو کر دنگ رہ جائیں۔” (محیط المحیط، ص
399)
سحر ۔۔۔۔۔ شریعت کی اصطلاح میں شرعی صطلاح میں ‘سحر’ کی تعریف کچھ اس طرح
سے کی گئی ہے: امام فخر الدین الرازی کہتے ہیں: “شریعت کے عرف میں ‘سحر’
(جادو) ہر اس کام کے ساتھ مخصوص ہے جس کا سبب مخفی ہو۔ اسے اس کی اصل حقیقت
سے ہٹ کر پیش کیا جائے اور دھوکہ دہی اس میں نمایاں ہو۔”(المصباح المنیر، ص
267) امام ابن قدامہ المقدسی کہتے ہیں: “جادو ایسی گرہوں اور ایسے دم درود
اور الفاظ کا نام ہے جنہیں بولا یا لکھا جائے، یا یہ کہ جادو گر ایسا عمل
کرے جس سے اس شخص کا بدن یا دل یا عقل متاثر ہو جائے جس پر جادو کرنا مقصود
ہو۔ اور جادو واقعتاً اثر رکھتا ہے، چنانچہ جادو سے کوئی شخص قتل بھی ہو
سکتا ہے، بیمار بھی ہو سکتا ہے اور اپنی بیوی کے قرب سے عاجز بھی آ سکتا
ہے، بلکہ جادو خاوند بیوی کے درمیان جدائی بھی ڈال سکتا ہے اور ایک دوسرے
کے دل میں نفرت بھی پیدا کر سکتا ہے اور محبت بھی۔ (المغنی، ج10 ص 104)
امام ابن قیم کہتے ہیں: “جادو’ اَرواح خبیثہ کے اثر و نفوذ سے مرکب ہوتا ہے
جس سے بشری طبائع متاثر ہو جاتی ہیں۔”(زادالمعاد،ج4ص126)
غرض سحر جادوگر اور شیطان کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے کا نام ہے جس کی
بنا پر جادوگر کچھ حرام اور شرکیہ امور کا ارتکاب کرتا ہے اور شیطان اس کے
بدلے میں جادوگر کی مدد کرتا ہے اور اس کے مطالبات کو پورا کرتا ہے۔ شیطان
کا قرب حاصل کرنے کے لئے جادوگروں کے بعض طریقے شیطان کو راضی کرنے اور اس
کا تقرب حاصل کرنے کے لئے جادوگروں کے مختلف وسائل ہیں، چنانچہ بعض جادوگر
اس مقصد کے لئے قرآن مجید کو اپنے پاؤں سے باندھ کر بیت الخلا میں جاتے ہیں
اور بعض قرآن مجید کی آیات کو گندگی سے لکھتے ہیں، بعض انہیں حیض کے خون سے
لکھتے ہیں، بعض قرآنی آیات کو اپنے پاؤں کے نچلے حصوں پر لکھتے ہیں، کچھ
جادوگر سورۃ فاتحہ کو الٹا لکھتے ہیں، کچھ بغیر وضو کے نماز پڑھتے ہیں، کچھ
ہمیشہ حالتِ جنابت میں رہتے ہیں اور کچھ جادوگروں کو شیطان کے لئے جانور
ذبح کرنے پڑتے ہیں اوروہ بھی بسم اللہ پڑھے بغیر، اور ذبح شدہ جانور کو
شیطان کی بتائی ہوئی جگہ پر پھینکنا پڑتا ہے۔ بعض جادوگر ستاروں کو سجدہ
کرتے ہیں اور ان سے مخاطب ہوتے ہیں، بعض کو اپنی ماں یا بیٹی سے زنا کرنا
پڑتا ہے اورکچھ کو عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں ایسے الفاظ لکھنا پڑتے
ہیں جن میں کفریہ معنی پائے جاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ شیطان’ پہلے
جادوگر سے پہلے کوئی حرام کام کرواتا ہے پھر اس کی مدد اور خدمت کرتا ہے۔
چنانچہ جادوگر جتنا بڑا کفریہ کام کرے گا ، شیطان اتنا زیادہ اس کا
فرمانبردار ہو گا اور اس کے مطالبات کو پورا کرنے میں جلدی کرے گا، اور جب
جادوگر شیطان کے بتائے ہوئے کفریہ کاموں کو بجا لانے میں کوتاہی کرے گا تو
شیطان بھی اس کی خدمت کرنے سے رک جائے گا اور اس کا نافرمان بن جائے گا۔ سو
جادوگر اور شیطان ایسے ساتھی ہیں جو اللہ تعالٰی کی نافرمانی کرنے پر ہی
آپس میں ملتے ہیں۔ اور آپ جب کسی جادوگر کے چہرے کی طرف دیکھیں گے تو آپ کو
میری یہ باتیں درست معلوم ہوں گی کیونکہ اس کے چہرے پر کفر کا اندھیرا یوں
چھایا ہوتا ہے گویا وہ سیاہ بادل ہو۔ اگر آپ کسی جادوگر کو قریب سے جانتے
ہوں تو یقیناً اسے زبوں حالی کا شکار پائیں گے۔ وہ اپنی بیوی، اپنی اولاد
حتٰی کہ اپنے آپ سے تنگ آ چکا ہوتا ہے۔ اسے سکون کی نیند نصیب نہیں ہوتی
اور اس پر مستزاد یہ کہ شیطان خود اس کے بیوی بچوں کو بھی اکثر و بیشتر
ایذا دیتے رہتے ہیں اور ان کے درمیان شدید اختلافات پیدا کر دیتے ہیں۔ سچ
فرمایا ہے اللہ ربّ العزت نے کہ وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ
مَعِيشَةً ضَنْكًا (سورۃ طہٰ :١٢٤) “اور جس نے میرے دین سے منہ موڑ لیا
(دنیا میں) اس کی زندگی تنگ گزرے گی۔”
جاری ہے..... |
|