اسلام انسانی حقوق کو تحفظ دیتا ہے
(Dr. Muhammad Javed, Dubai)
تاریخ کا یہ سبق ہے کہ جن معاشروں میں انسانی حقوق کا احترام ختم ہو جائے وہ معاشرے تباہی وبربادی سے ہمکنار ہو جاتے ہیں۔آج افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلمان معاشرے قرآن حکیم کے پیش کردہ حقوق انسانی کے تصور سے بے گانہ نظر آتے ہیں،اس کا نتیجہ فکری، سیاسی، اور معاشی زوال کی صورت میں نکل رہا ہے۔لہذا بحیثیت مجموعی یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ قرآن حکیم کے انسانی حقوق کے چارٹر کا مطالعہ کیا جائے اور اس کی روشنی میں معاشرے کے اندر بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت کی ایک ایسی مربوط حکمت عملی اختیار کی جائے تاکہ معاشرہ موجودہ پستی اور زوال سے نکل سکے۔ اور ہر سطح کے درس و تدریس ، تبلیغ ونصیحت میں انسانی حقوق کے حوالے سے تربیت کا اہتمام کیا جائے۔اور معاشرے کے اندر ایک تحریک پیدا کی جائے تاکہ انسانی حقوق کے اجتماعی طور پہ تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ |
|
|
روز اول سے انسانی معاشروں کے ارتقاء کو
جاری رکھنے کے لئے مفکرین نے اپنی ذہنی استعدادوں اور عقلی قوتوں کو بروئے
کار لاتے ہوئے انسانی حقوق متعین کئے انہیں مختلف آئینوں اور چارٹروں کی
صورت میں پیش کیا۔تاریخ کا جائزہ لیں تو’’انگلستان میں کنگ جان نے ۱۲۱۵ء
میں میگنا کارٹا جاری کیا تھا وہ درحقیقت امرا کے دباؤکی وجہ سے مرتب کیا
گیا تھا وہ صرف بادشاہ اور امراء کے درمیان ایک قرار داد تھی اس میں امراء
کے حقوق کا لحاظ رکھا گیا تھا عوام الناس کے حقوق کی اس میں کوئی نشاندہی
نہ کی گئی ۔لیکن ٹام پین (Tom pain) (۱۷۳۷ء تا۱۸۰۹ء)نے حقوق انسانی پر
۱۷۹۱ء میں ایک پمفلٹ مرتب کیا،اسی پمفلٹ نے مغربی ممالک میں حقوق انسانی کے
تصور کو اشاعت دی۔
۱۷۸۹ء میں انقلاب فرانس کے عہد میں ’’منشور حقوق انسانی‘‘مرتب ہوا ۔جو روسو
کے نظریہ معاہدہ عمرانی کا ثمرہ تھا۔
بگوٹا کانفرنس میں امریکی ریاستوں نے ۱۹۴۸ء میں انسانی حقوق وفرائض کا ایک
منشور مرتب کیا۔
دو عالمگیر جنگوں کی تباہیوں نے بیسویں صد ی کے انسان کو یہ امر سوچنے پر
مجبور کر دیا کہ انسانوں کے حقوق متعین کئے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہو
سکتا۔چنانچہ ۱۹۴۱ء کے اٹلانٹک چارٹر اور واشنگٹن،ماسکو،ڈمبارٹن اوکسن کے
مذاکرات کے بعد آخر کار سان فرانسسکو کے چارڈر کے ذریعہ ادارہ اقوام متحدہ
کی اساس رکھی گئی اور حقوق انسانی کو ایک بین الاقوامی مسئلہ قرار دیا گیا
،اس مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر ۲۷ جنوری ۱۹۴۷ء سے لیک سیسکس میں مسز
فرینکلن روز ویلٹ کی زیر صدارت متعدد اجلاس ہوئے اور ایک چارٹر مرتب کیا
گیا جسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے آخری شکل دے کر ۱۰دسمبر ۱۹۴۸ء کو
عالمی اعلان حقوق انسانی کا نام دے کر منظور کیا اس مسئلہ کی اہمیت کے پیش
نظر ہر سال ۱۰ دسمبر کو دنیا کے ہر ملک میں یوم حقوق انسانی منایا جاتا
ہے۔یو ۔این۔او کے اعلان کے تیس آرٹیکل ہیں۔آرٹیکل ۲۸،۲۹،اور ۳۰ تو محض رسمی
ہیں ،بارہ آرٹیکل اقتصادی اور سماجی زندگی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے
ہیں۔تین قانون کے ضابطوں اور ملزم کے حقوق کے متعلق ہیں،صرف بارہ آرٹیکل
ہیں جو انسانی حقوق کے اصول بیان کرتے ہیں ۔‘‘انسانی حقوق کے ان دستوروں
اور اعلانات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اقوام عالم کے مدبرین نے اس حقیقت کا
ہمیشہ ادراک کیا کہ انسانی معاشرے میں انسانی حقوق کا تعین اور ان کی حفاظت
ضروری ہے۔
آج اقوام متحدہ کے چار ٹر کا مطالعہ کریں تو جن انسانی حقوق کی ا دائیگی
اور حفاظت کے حوالے سے قواعد و ضوابط بتائے گئے ہیں،آج سے چودہ سو سال پہلے
اسلام نے انسانی معاشرے کو ان ہی بنیادی حقوق کی طرف توجہ دلائی اور ان کی
حفاظت کے لئے رہنما اصول فراہم کئے، اسلام نے انسانی معاشرے میں انسانوں کے
درمیان عدل کو قائم رکھنے کی تلقین کی ہے ۔عدل و انصاف کو انسانوں کا ایک
اہم حق قرار دیا ہے ۔
کیونکہ ایک معاشرے میں انسانوں کی ترقی اس وقت تک جاری وساری نہیں رہ سکتی
جب تک انہیں عدل وانصاف کا ماحول میسر نہ آئے۔
اسلام نے تمام انسانوں کو ایک وحدت میں پرو کر یک جان بنا یا وہاں انہیں
واجب التکریم واحترام بھی بنایا ۔تاکہ وہ ایک دوسرے کی قدر کریں۔کل انسانیت
کو ایک اساس اور ایک سرچشمہ قرار دے کر سب بنی نوع انسان کو ایک کڑی میں
پرو دیا۔اسلام نے سارے دنیا کے مذاہب کو مخاطب کرتے ہوئے یہ پیغام دیا کہ
انسان صرف انسانیت ہی کی بنیاد پر متحد اور باہم شیر وشکر ہو کر رہ سکتے
ہیں۔اور یہی ارتقاء کے لئے بنیادی اساس ہے۔اور اسی سے بنیادی انسانی حقوق
کا تعین ہوتا ہے۔برصغیر کے معروف سیاسی مفکرمولانا عبید اللہ سندھی اس
حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ۔
’’قرآن نے تمام اقوام،ادیان،اور مذاہب کے مرکزی نکات کو کل انسانیت پر
منطبق ہو سکتے ہیں یکجا کیا اور ساری دنیا کو یہ دعوت دی کہ صرف یہی ایک
بنیاد ہے جس پر صحیح انسانیت کی تعمیر ہو سکتی ہے اگر یہودیوں کی قوم میں
انسانیت کا فقدان ہے تو وہ خواہ اپنے منہ سے خدا کے بیٹے اور اس کے محبوب
بنیں،گمراہ ہیں،اگر عیسائی اس سے خالی ہیں تو ان کا عیسیٰ علیہ السلام کو
خدا کا بیٹا ماننا کسی کام نہ آئے گا۔اور اگر ہندؤں میں انسانیت کی کمی ہے
تو ان کا پوتر(پاک)ہونا محض خام خیالی ہے اسی طرح مسلمانوں پر بھی اس حکم
کا اطلاق ہو سکتا ہے قرآن ایک میزان ہے اس میں سب تولے جا سکتے ہیں‘‘
گویا اسلام نے یہ بنیادی کسوٹی دے دی کے معاشروں کے نگہبان وہی نظریات ہو
سکتے ہیں جن میں انسانیت کا فقدان نہ ہو ۔اور جب وہ معاشرے میں حقوق کی بات
کریں تو اسی بنیادی نظرئیے کو مد نظر رکھیں۔وگرنہ ان کا نظریہ ناقص ہو گا
اور وہ انسانیت کی ترقی اور حفاظت میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکے گا۔
اسلام کے اس نظریہ مساوات انسانی کی تائید کرتے ہوئے ہندو لیڈر سر پی۔سی
رائے لکھتا ہے۔
’’اسلام مذاہب عالم میں سب سے زیادہ جمہوریت پسند ہے۔یہ بنی نوع انسان کو
ٹھیک ایک سطح پر لے آتا ہے جونہی کوئی شخص اسلام قبول کرتا ہے اس کا درجہ
تمام مسلمانوں کے برابر ہو جاتا ہے مسجد میں شاہ وگدا امیر وغریب اور ایک
ادنیٰ سے ادنیٰ مزدور اور بہشتی دوش بدوش نماز پڑھتے ہیں۔‘‘اسی طرح دوسرا
مصنف بابو پین چندر پال لکھتا ہے-
’’اسلام نے اخوت اور برادارانہ روابط پر جس قدر زور دیا ہے اور وہ جس شد
ومد سے اس پر عمل پیرا ہوا اس کی مثال دنیا کا کوئی مذہب پیش کرنے سے قاصر
ہے۔اس میں ہندوؤں کی ذات پات کا رواج نہیں ۔یہ مسلمانوں کی انتہائی ہمدردی
اور خدا ترسی تھی جس نے ہندوستان جیسے عظیم الشان ملک میں مذہبی زندگی اور
خیالات میں انقلاب عظیم برپا کر دیا اسلام نے سیاسی طور پر بنی نوع انسان
کو ایسے حقوق عطا کئے جو رومیوں اور دیگر اقوام نے صدیوں میں بھی اپنی
رعایا کو نہ دئیے تھے۔اسلام نے ٹیکس محدود کرایا۔قانوناً سب انسانوں کو ایک
دوسرے کے مساوی بنا دیا۔حکومت خود اختیاری کے قانون رائج کیئے بادشاہوں کے
اختیارات پر پابندیاں عائد کر دیں۔‘‘
اور اسی طرح مسٹر کے سکامارن بی۔اے اچھوتوں کے لیڈر نے اچھوتوں کی نجات کے
راستہ کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا۔
’’میرے خیال میں دنیا میں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو ہم کو نجات دے سکتا
ہے اور اسی کی آغوش میں ہم سیاسی،معاشرتی ومذہبی رخصت حاصل کر سکتے ہیں ۔یہ
تسلیم شدہ امر ہے کہ دنیا میں کوئی مذہب ایسا نہیں ہے جس میں اخوت ومساوات
اور عملی ہمدردی اس قدر بلند درجہ پر پہنچ گئی ہو۔جیسی کہ اسلام میں ہے۔‘‘
اسلام نے خدمت انسانیت کی تعلیم دی ہے۔ اور کسی انسان کو ضرر، دینے اسکے
مفادات کو نقصان پہنچانے ،اسکے حقوق پامال کرنے کی سختی سے ممانعت کی
ہے۔اسلام ایک ایسے معاشرے کی تخلیق کا تصور دیتا ہے جہاں انسانوں کے تمام
حقوق کو تحفظ حاصل ہو ۔اور انسان بلا کسی خوف خطر امن وخوشحالی کی زندگی
بسر کریں۔انسانی معاشرے میں جس امر کا سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے وہ انسانوں
کے درمیان فتنہ وفساد ہوتا ہے جس سے انسانی جانیں عدم تحفظ کا شکار ہو جاتی
ہیں ۔اسلام فتنہ وفساد کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیتا ہے۔اور ہر ایسے عمل
کو جس سے انسانوں کی جان و مال و آبرو کو خطرہ درپیش ہو اسے معاشرے سے ختم
کرنے کا نظریہ دیتا ہے۔اور کسی کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ مذہب، عقیدے
اور تعصب کے نام پہ انسانی زندگیوں سے کھیلیں اور معاشرے کے اندر کشت و خون
کا بازار گرم کریں۔
اسلام کے نزدیک انسانی معاشرے کے ارتقاء کی بنیاد مرد وعورت کا تعلق ہے جس
کی بنیاد پر وہ ایک تہذیب وتمدن کو پروان چڑھاتے ہیں قرآن حکیم اس ازلی
مساوات کے تصور پر سماجی زندگی میں مرد و عورت کی شمولیت کی راہوں کو متعین
کرتا ہے ۔ اور دونوں کو اس سماجی سفر کا ساتھی قرار دیتا ہے ۔
قرآن حکیم نے انسانیت کی اس صنف کو ذلت اور بے وقعتی کی زندگی سے نکال کر
عزت اکرام اور تقدس کی زندگی اور مقام تک پہنچانے کی نوید سنائی ۔ سماجی
زندگی میں مردوں کی ان بے اعتدالیوں اور ظالمانہ روش کی مذمت کی اورعورت کو
انتہائی مقدس اور پا کیزہ مقام عطا کیا ۔ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں
خواتین کو تمدنی زندگی کی تشکیل اور معاشرے کی اکائی ’’گھر‘‘میں مرد کے
برابر حقوق عطا کرکے انہیں معاشرے کا ایک فعال انسان بنایا ۔ اور انہیں
برسوں کی اس احساس کمتری سے نجات دلائی جسمیں وہ اپنی شخصیت کھو چکی تھی ۔
قرآن حکیم مردوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ اپنی منکوحہ بیویوں کو نیک صحبت
دیں ان کا اکرام کریں اور ان سے اس طریقے سے معاملات طے کریں تا کہ گھریلو
زندگی آرام اور استحکام کا گہوارہ بنے ۔ خواتین کو اسلام وراثت کے وسیع
حقوق عطا کرتاہے اسے اپنے والد ، شوہر ، اولاد اور قریبی رشتہ داروں سے
وراثت ملتی ہے اور اس وراثت کی وہ بلا شرکت غیرے مالک ہوتی ہے اسے قانونی
طور پر اس پرتصرف کا پورا اختیار ہوتا ہے۔
اسلام نے انسانوں کو زمین پر رہنے کا حق عطا کیا ہے اور اس کی حفاظت ریاست
کے ذمے قرار دی ہے۔کوئی بھی طاقت یا گروہ یا فرد اسے اس حق سے محروم نہیں
کر سکتا۔
اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ رزق اور معاش کا حقیقی تعلق صرف ذات الہیٰ سے
وابستہ ہے اور وہی ہر فرد کا کفیل ہے اور گرچہ اس کی مصلحت عام اور حکمت
تام کا تقاضا یہ ہے کہ دنیا کے اس متنوع ماحول میں رزق کے اندر تفاوت درجات
پایا جائے لیکن امارت وغربت کے فطری تنوع کے باوجود یہاں ایک فرد بھی محروم
المعیشت نہ رہے۔ انسانی معاشرے میں محنت کا اہم کردار رہا ہے زندگی کے تمام
شعبہ جات،صنعت وحرفت،تجارت،تخلیق وتعلیم ہر شعبہ محنت ہی کے دم سے رواں
دواں ہے اور خصوصاً معاشیات میں تو محنت ہی بنیادی محرک ہے۔اور محنت کش اہم
کردار ادا کرتا ہے۔لہذا محنت کی اسی اہمیت اور محنت کش کے اس مقام کو مد
نظر رکھتے ہوئے اس کے حق کو بھی بہت اہم قرار دیا ہے۔اسلامی سوسائٹی میں ہر
آدمی اپنی محنت اور کسب کا ثمرہ پانے کا مستحق ہے۔
خالق کائنات معاشرے میں ارتکاز دولت کی ہر شکل کی ممانعت کرتا ہے تا کہ
دولت صرف چند ہاتھوں میں گردش نہ کرے بلکہ پوری سوسائٹی اس سے فائدہ
اٹھائے۔اور کوئی شخص بھی اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے رزق سے محروم نہ ہو۔اس
طرح اللہ تعالیٰ نے ارتکاز دولت ،اکتناز دولت اور احتکار دولت کی ہر شکل کو
حرام قرار دیا جس کی وجہ سے معاشرے میں طبقات پیدا ہوتے ہیں۔
قرآن حکیم بر ملا یہ اعلان کرتا ہے کہ ہر ایک کی خو د ارادیت ، مذہبی حقوق
محفوظ ہیں ۔ نظریات اور عقائد کے اختلاف کی بنا پر انسانو ں کے عام معاشرتی
اور انسانی حقوق سے رو گردانی نہیں کی جا سکتی بلکہ ان کے بنیادی حقوق کے
تحت یہ حق دیا جارہا ہے کہ مذہبی آزادی اور مذہبی رواداری کو اُن کے بنیادی
حقوق میں شامل کر لیا جائے ۔قرآن کریم چونکہ معاشرے میں مذہبی عقائد اور
ایمانیات کے حوالے سے ہر طرح کے جبر کی نفی کرتا ہے اور انسانوں کو اپنی
عقل و شعور کی بنیاد پر کسی بھی عقیدے اور فکر کو اختیار کرنے کی دعوت
دیتاہے اور اپنی فکر کو استد لال سے پیش کرتا ہے۔
اسلام ہر فرد کے لئے عام آزادیاں فراہم کرتا ہے آزادی آزادانہ نقل
وحرکت۔اور ہر وہ جس پر آزادی کا اطلاق ہوتا ہے اسلام انسان کے حق میں اسے
تسلیم کرتا ہے اور اسلام یہ سمجھتا ہے کہ ان آزادیوں اور حریتوں کا جتنا
فائدہ خود عوام اور پبلک کے لئے ہے اس سے بڑھ کر فائدہ ریاست اور مملکت کے
حق میں ہے۔مگر اسلام یہ ضروری قرار دیتا ہے کہ ہر فرد اس وقت تک اپنے
معاملات میں آزاد ہے جہاں تک کسی اور کو ضرر کا خطرہ نہ ہو اور جس مقام پر
اس کی آزادی سے کسی اور کو ضرر پہنچنے کا خطرہ ہو تو اس کی آزادی ختم ہو
جاتی ہے ۔اور اسلام یہ ضروری سمجھتا ہے کہ کسی کی آزادی ریاست اور قومی
آئین کے حق میں مضر نہ ہو۔
اچھی گفتگو کرنا اور اچھائی سے پیش آنا انسانیت کا اولین فرض ہے۔حسد وبغض
معاشرہ کی جڑوں کو اس طرح چٹ کر جاتا ہے جس طرح گھن لکڑی کو کھا جاتا ہے
انہی برائیوں سے عداوت کی آگ بھڑکتی ہے۔جو خرمن امن کو بھسم کر دیتی ہے اور
رشتہ اخوت کو جلا دیتی ہے اسلام نے ان دونوں برائیوں کو سختی سے منع کیا
ہے۔
ٓٓآج بالخصوص مسلمان معاشرے قرآن حکیم کے اس حقوق انسانی کے تصور سے بے
گانہ نظر آتے ہیں، جن معاشروں میں انسانی حقوق کا احترام ختم ہو جائے وہ
معاشرے تباہی وبربادی سے ہمکنار ہو جاتے ہیں۔آج اقوام متحدہ کا چارٹر بھی
ان ہی بنیادی انسانی حقوق کے گرد گھومتا ہے جو کئی سو سال پہلے نہ صرف
تسلیم کئے جا چکے ہیں بلکہ ان کی روشنی میں معاشرے کی تشکیل کو انسانیت کے
لئے ضروری قرار دیا گیا ہے۔آج خاص طور پہ مسلمان معاشرے ان انسانی حقوق سے
نابلد نظر آتے ہیں۔جس کی وجہ سے انتہائی درجہ اخلاقی پستی اور معاشی بد
حالی میں مبتلا ہو کر انتشار میں مبتلا ہیں۔لہذا بحیثیت مجموعی یہ ہماری
ذمہ داری ہے کہ انسانی حقوق کے اس چارٹر کا مطالعہ کیا جائے اور اس کی
روشنی میں معاشرے کے اندر بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت کی ایک ایسی مربوط
حکمت عملی اختیار کی جائے تاکہ معاشرہ موجودہ پستی اور زوال سے نکل سکے۔
|
|