حج کی فرضیت : فوائد و ثمرات
(Abdul Bari Shafiq, Mumbra Mumbai)
حج اسلام کاپانچواں رکن ہے ،جو ہر صاحب استطاعت پر زندگی میں ایک بار فرض ہے ،جس کی ادائیگی پر اللہ تعالیٰ بندوں سے بہت خوش ہوتاہے اوراس کو اس مقدس سرزمین سے ایسے ہی واپس بھیجتاہے جیساکہ اس کی ماں کے رحم اور بطن سے پاک وصاف بھیجا تھا۔ عبدالباری شفیق السلفی ۔ ممبئی |
|
مذہب اسلام دنیا کے تمام ادیان و مذاہب سے
زیادہ ممتاز اور رب کریم کے یہاںمعتبر وپاکیزہ ہے یہی وہ دین اور ملت ہے جس
کی تعلیمات پر عمل کرنے کا دنیائے انسانیت کو مکلف کیا گیا ہے، حج اسلام کا
وہ اہم رکن ہے جسکی اہمیت و فرضیت مسلم ہے نبی آخرالزماں ﷺ کی تعلیمات و
احکامات سے یہ بات معلوم شدہ ہے کہ رب کریم کی رضاجوئی کے لئے یہ فریضہ
زندگی میںایک بار ہر آزاد ،عاقل و بالغ ،مسلمان ،صاحب استطاعت مرد و عورت
پر فرض ہے،چنانچہ دین میںاس فریضے کو پانچواںستون قرار دیا گیا ہے جس کا
منکر دائرہ اسلام سے خارج اور مخلد فی النار ہو جاتاہے ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ وَلِلّہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ
الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہ سَبِیْلاً وَمَن کَفَرَ فَإِنَّ اللہ
غَنِیٌّ عَنِ الْعَالَمِیْنَ( ‘‘( آل عمران : ۳؍۹۷)۔’’ اور اللہ نے ان
لوگوںپر جو اس کی طرف راہ پا سکتے ہوں اس گھر کا حج فرض قرار دیا ہے اور جو
کوئی کفر کرے تو اللہ ( اس سے بلکہ) تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے ‘‘۔
حج کے لغوی معنی: قصدوارادہ کے ہیں،اور شرعی معنٰی’’قصد بیت اللہ الحرام
والمشاعرلأداء عبادۃ مخصوصۃ فی زمن مخصوص بکیفیۃ معینۃ۔ (صحیح فقہ
السنۃلابن سالم ۲؍۱۶۰)یعنی مخصوص زمانے میںمخصو ص کیفیت کے ساتھ مخصوص
عبادت کی ادائیگی کے لئے خانہ کعبہ ومشاعر کاقصدکرنا، اور استطاعت کا لفظ
اتنا جامع اور وسیع ہے کہ اس میں مالی،جسمانی،اور ملک میں امن و سکون وغیرہ
ہرقسم کی استطاعت داخل ہے۔اس کی فرضیت سن ۹ء میں ہوئی جب کہ بعض کا خیال ہے
کہ سن۵ ھ یا ۶ھ میں ہوئی ہے۔ (ذخیرہ العقبیٰ فی شرح المجتبیٰ ۲۳؍۲۷۰)
’’ من استطاع الیہ سبیلا‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے علماء نے لکھا ہے کہ اس سے
مراد زاد راہ کی استطاعت اور فراہمی ہے ۔ یعنی اتنا خرچ ہو کہ سفر کے
اخراجات پورے ہو جائیںاس کے علاوہ استطاعت کے مفہوم میںیہ بھی شامل ہے کہ
راستہ پرامن ہو اور جان و مال محفوظ رہے ۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ
انسان صحت و تندرستی کےلحاظ سے سفر کے قابل ہو اوراسی طرح عورت کے لئے محرم
کا ہونا بھی شرط اورضروری ہے ۔ ( تفصیل کیلئے دیکھئے : فتح القدیر ، احسن
البیان : ۳؍۹۷)۔
اور جب ہم نبی آخرالزماں ﷺ کی پاکیزہ زندگی کا مطالعہ کرتے ہیںتومعلوم
ہوتاہے کہ نبی محترم ﷺ نے دین کے کسی بھی تعلیم کو ہم سے پو شیدہ نہیں رکھا
بلکہ لوگوں کوعملاً ،فعلاً اورحکماً بتلایا اور سکھلایاہے جیسا کہ ابوہریرہ
b کا فرمان ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا ’’ ۔۔۔۔
ایھاالناس ! قد فرض علیکم الحج فحجو ا ‘‘ اے لوگو ! تم پر حج فرض کیا گیا
ہے لہٰذا تم حج کرو ۔ ایک آدمی (اقرع بن حابس b ) نے پوچھا ’’ ا کل عام یا
رسول اللہ ؟ اے اللہ کے رسول ﷺ کیا ہرسال حج کریں؟ فسکت ،حتی قالھا ثلاثا
‘‘ پس اللہ کے رسول ﷺ خاموش رہے یہاں تک کہ انہوںنے تین بار یہی سوال کیا
،تب آپ نے فرمایا ’’ لو قلت نعم لوجبت و لما استطعتم ‘‘اگر میںہاںکہہ دیتا
تو تم پر ہر سال حج فرض ہو جاتا اور تم ہر سال نہ کرپاتے ۔ ( رواہ مسلم فی
کتاب الحج ،باب فرض الحج مرۃ فی العمر۔ ح؍ ۲۳۸۸)
اسی طرح نبی کا یہ فرمان ’’ بنی الاسلام علی خمس ۔۔۔‘‘ الخ ۔ (صحیح بخاری
:کتاب الایمان۔ باب بنی الاسلام علی خمس ۔ صحیح مسلم : کتاب الایمان ،باب
بیان ارکان الاسلام ۔۔ ) کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم و دائم ہے
اس میں سے پہلی چیزکلمہ شہادت : اشھد ان لاالہ الا اللہ و اشھد ان محمدا
عبدہ ورسولہ ‘‘ ہے کہ بندہ اس بات کی گواہی دے کہ اللہ ہی حقیقی معبود ہے
اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں(۲) نماز قائم کرنا (۳) زکوٰۃ دینا
(۴)حج کرنا (۵) رمضان کے پورے مہینے کا روزہ رکھنا ۔
مذکورہ احادیث اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ حج اسلام کا ایک اہم ستون ہے ۔
جو ہر مکلف عاقل و بالغ اور صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک مرتبہ
واجب او رفرض ہے اورایک سے زائدنفل ہے اور اس کا منکر یا اس فریضے کی
ادائیگی میںاپنے مال و اسباب اور وقت کا ضیاع تصور کرنےوالا شخص کافر اور
دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتاہے ،اور اگر طاقت کے باوجود تغافلی و تساہلی
برتے تو ایسا انسان دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ہوگا البتہ فاسق و فاجر اور
گناہ کبیرہ کامرتکب ضرور ہوگا ۔ اسی لئے استطاعت کے بعد فورا ایک موحد کو
اس فریضے کی ادایئگی کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ و ہ رب کا محبوب و مقرب بندہ
بن سکے ۔
حج کے فضائل اور فوائد و ثمرات :
حج ایک ایسا کثیرالمقاصد و کثیر الفوائد اور جامع عبادت ہے ۔یہ بندۂ مومن
پر زندگی میں صرف ایک مرتبہ فرض ہونے کے ساتھ بہت زیادہ ثواب کا حامل ہے،
یہ فریضہ صرف انہی مخصوص ایام میںادا کیا جاسکتا ہے جس کا ثبوت نصوص سے
ثابت ہے جیساکہ فرمان الٰہی ہے ’’ الْحَجُّ أَشْہُرٌ مَّعْلُومَاتٌ فَمَن
فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوقَ وَلاَ جِدَالَ فِیْ
الْحَجِّ وَمَا تَفْعَلُواْ مِنْ خَیْرٍ یَعْلَمْہُ اللہُ وَتَزَوَّدُواْ
فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی وَاتَّقُونِ یَا أُوْلِیْ الأَلْبَاب
( ‘‘( بقرہ :۲؍۱۹۷) یعنی حج کے مہینے مقرر ہیں اس لئے جو شخص ان مہینوںمیں
حج کی نیت کرے وہ اپنی بیوی سے ہمبستری کرنے ،گناہ کرنے اورلڑائی جھگڑا
کرنے سے اجتناب کرے ،اور تم جو نیکی کروگے اس سے اللہ باخبر ہے اوراپنے سفر
حج کے ساتھ زادراہ ساتھ لے کر نکلو ،سب سے بڑا توشہ تقویٰ ہے اور اے
عقلمندو! میری نافرمانی سے پرہیزکرو۔
ارکان حج کی ادائیگی کے لئے خاص دن مقرر ہیں جو آٹھ ذی الحج سے شروع ہوتے
ہیںاور تیرہ پر ختم ہوتے ہیں۔
’’الحج اشھر معلومات ‘‘ حج کے مقرر مہینے کون کون سے ہیں اس کے بارے میں
مفسرین کا راجح قول یہ ہے کہ اس سے مراد ’’ شوال ،ذی قعدہ ،اور ذو الحجہ
ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عمرہ سال میں ہر وقت جائز ہے لیکن حج صرف مخصوص
دنوںمیںہی جائز ہے ، اس لئے اس کا احرام حج کے مہینوں کے علاوہ دوسروں میں
جائز نہیںہے ۔ ( تفسیر ابن کثیر۔ احسن البیان: ۲؍۱۹۷)
چنانچہ حج ہی وہ عظیم عبادت اور تقرب الی اللہ کا ذریعہ ہے جس کی ادائیگی
پر نبی کائنات ﷺ نے جنت کی بشارت اور گناہوںسے پاکی کا عام اعلان فرمایا ہے
کہ اگر ایک حاجی دنیاوی خرافات اور لہو لعب سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے
اس مبارک فریضہ کی انجام دہی کرتاہے تو وہ اسی طرح اس شہر مبارک سے لوٹتا
ہے جیساکہ آج ہی کے دن اس کی ماںنے اسے جناہو ۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ’’ من حج
للہ فلم یرفث و لم یفسق رجع کیوم ولدتہ امہ ‘‘(بخاری مع الفتح ۳؍۴۴۶۔کتاب
الحج باب فضل الحج المبرور : ح؍۱۵۲۱، ۱۸۱۹،۱۸۲۰ )جس نے اللہ کی رضا کے لئے
حج کیا اور اس دوران کوئی بیہودہ بات ، گناہ یا فسق و فجور سے اجتناب کیا
تو وہ گناہوںسے اسی طرح پاک و صاف ہوجاتاہے جیسے اس دن پاک تھا جب اس کی
ماںنے اس کو جنم دیاتھا ۔
نبی محترم ﷺ کی یہ حدیث اس بات پر دال ہے کہ اگر حاجی دنیاوی خرافات اور
بیہودہ افعال سے اجتناب کرتے ہوئے اس فریضہ کی تکمیل کرتا ہے تو وہ تمام
معصیات و گناہوں سے مبر ا ہوکر و طن عزیز کوو اپس ہوتا ہے ،بصورت دیگر اس
کے تما م روپئے ضائع و برباد ہوجائیںگے اور ناکامی و نامرادی اس کے ہاتھ
آئے گی۔ اسی لئے اللہ کے حبیب نے فرمایا کہ ’’ العمرۃ الی العمرۃ کفارۃ
لما بینھما والحج المبرور لیس لہ جزاء الا الجنۃ ‘‘ ( بخاری مع
الفتح6983،کتاب العمرۃ ،باب وجوب العمرۃ و فضلھا : ۱۷۷۳، مسلم: ۱۳۴۹)
۔ابوہریرۃ b حدیث کے راوی ہیں وہ فرماتے ہیںکہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ
عمرہ دوسرے عمرہ کے درمیان ان تما م گناہوںکا کفارہ ہے جو موجودہ اور گذشتہ
عمرہ کے درمیان سرزد ہوتے ہیں اور حج مبرور کا بدلہ تو جنت ہی ہے ۔
مذکورہ حدیث میں بھی’’الحج المبرور‘‘کی قید لگا دی گئی ہے،علامہ صفی الرحمن
مبارکپوری ؒ ’’اتحاف الکرام شرح بلوغ المرام (ص: ۴۵۹)میںتشریح کرتے ہوئے
لکھتے ہیںکہ اس سے مراد وہ حج ہے جس میںکسی گناہ کا ارتکاب نہ ہو۔بعض نے
کہا ہے کہ حج مبرور وہ حج ہے جس کے کرنے والے کی دینی و اخلاقی حیثیت پہلے
سے بہتر ہوجائے اور بعض نے اس کے معنی حج مقبول کے کئے ہیں اور یہ سب اقوال
باہم قریب قریب ہیں ،ان میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے ۔
اسی طرح مسلم کی ایک دوسری حدیث میں ہے’’۔۔۔اماعلمت ان الاسلام یھدم ما کان
قبلہ؟ و ان الھجرۃ تھدم ماکان قبلھا ؟و ان الحج یھدم ماکان قبلہ ‘‘(مسلم :
کتاب الایمان ح؍۱۲۱)
عمرو بن عاص b بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کی
محبت ڈال دی تو میں رسول اکرم کی خدمت میں حاضرہوا اور میں نے کہا کہ اے
اللہ کے نبی ﷺ آپ اپنا ہاتھ آگے بڑھایئے تاکہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت
کروں چنانچہ آپ نے جوںہی اپنا دست مبارک آگے بڑھایا تو میں نے اپنا ہاتھ
پیچھے کھینچ لیا ،آپ ﷺ نے فرمایا عمرو تمہیںکیا ہوگیا ،میں نے کہا اے اللہ
کے نبی ﷺمیں ایک شرط لگانا چاہتاہوںآپ نے پوچھا کون سی شرط ہے ،میںنے کہا
میری شرط یہ ہے کہ اللہ میرے تمام گناہ معاف فرمادے ۔تو نبی کریمﷺ نے
فرمایا ’’ اما علمت یا عمرو۔۔۔ان الحج یھدم ماکان قبلہ‘‘(صحیح مسلم :کتاب
الایمان ،باب کون االاسلام یھدم ماقبلہ و کذا الھجرۃ والفتح )کہ اے عمرو
کیا تم نہیں جانتے کہ اسلام سابقہ تمام گناہوںکومٹادیتاہے ،ہجرت سابقہ
خطائوں کو ختم کردیتی ہے اور حج تمام گناہوںکو مٹادیتاہے ۔
اسی طرح مناسک حج کی ادائیگی اور فضیلت میں ایک عظیم اور لمبی روایت کچھ اس
طرح ہے جس کے راوی حضرت عبداللہ بن عمرو ہیںوہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ
نے فرمایا کہ’’جب تم اپنے گھر سے بیت اللہ کا قصد کرکے نکلتے ہو تو تمہاری
سواری (اونٹنی ) کے ایک ایک قدم پر اللہ تعالیٰ تمہارے لئے ایک نیکی لکھ
دیتاہے اور تمہارا ایک گناہ معاف کردیتاہے اور طواف کے بعد تمہاری دو رکعت
اسماعیل کی اولاد میں سے ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہوتی ہے اور صفا
،مروۃ کے درمیان تمہارا سعی ستر غلاموںکو آزاد کرنے کے برابر ہوتا ہے اور
یوم عرفہ کی شام کو اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر آکر تم پر فخر کرتے ہوئے
فرشتوںسےکہتاہے’’دیکھو یہ میرے بندے ہیں جو دوردرازسے پراگندہ حالت میں اور
غبار آلود ہوکر میرے پاس آئے ہیں یہ میری رحمت کے امید وار ہیں ،اگر
تمہارے گناہ ریت کے ذرات یا بارش کے قطروںکے برابر یا سمندر کی جھاگ کے
برابر ہوںتومیںنے ان تمام کو معاف کردیا اورسن لو میرے بندو!اب تم مزدلفہ
کی طرف لوٹ جائو میںنے تمہاری اور جن کے لئے تم نے دعا کی ہے سب کی مغفرت
کردی ہے، اور جب تم جمرات کو کنکریاں مارتے ہو تو ہر کنکری کے بدلے ایک
کبیرہ گناہ مٹادیتاہوںاور جب تم قربانی کرتے ہو تواس کا اجر تمہارے رب کے
یہاںتمہارے لئے ذخیرہ کردیا جاتاہے اور جب تم سر منڈاتے ہو تو ہر بال کے
بدلے اللہ تعالیٰ تمہارے لیے ایک نیکی لکھ دیتاہے اور ایک گناہ مٹادیتاہے
پھر جب تم طواف کرتے ہو تو اس طرح گناہوںسے پاک ہو جاتے ہو جیساکہ تم اپنی
ماںکے پیٹ سے گناہوںسے بالکل پاک پید اہوئے تھے ،اور ایک فرشتہ آتاہے اور
تمہارے کندھوں کے درمیان ہاتھ رکھ کر کہتاہے کہ جائو مستقبل کے لئے عمل کرو
کیونکہ تمہارے پچھلے گناہ مٹا دیئے گئے ہیں ۔ (صحیح ترغیب وترہیب ۲؍۹۔۱۰
کتاب الحج ،باب الترغیب فی الحج و العمرۃ :۱۱۱۲۔ وقال الالبانی: حسن لغیرہ
من حدیث عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما )
اللہ ہمیں شریعتِ مطہرہ کی روشنی میں حج و عمرہ کرنے کی توفیق بخشے نیز ہم
میں سے جو اس فریضے کو ادا کر چکے ہیں ان کے حج کو قبول فرمائے ۔آمین!
|
|