دم توڑتی انسانیت!
(Syed Muhammad Ishtiaq, Karachi)
ہمارا مذھب اسلام عبادات کے ساتھ انسانیت
کا بھی درس دیتا ہے۔لیکن فی زمانہ معاشرے کے حالات کو دیکھتے ہوئے ہم یہ
سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ معاشرہ انسانیت کو چھوڑکر حیوانیت کی
جانب گامزن ہے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں طلبا مختلف درسگاہوں سے فارغ
التحصیل ہوکر معاشرے کا حصہ بنتے ہیں لیکن اس کے باوجود معاشرہ مسلسل زبوں
حالی کا شکار ہے۔معاشرے کی زبوں حالی پر غوروفکر رواں دور کی اہم ضرورت ہے۔
بنیادی وجہ تو اس کی یہی نظر آتی ہے کہ اساتذہ اور والدین نے اپنے بچوں کے
ذہنوں میں تعلیم کو معاشی مقاصد کے حصول تک محدود کردیا ہے اسی لئے تعلیم
کی اہمیت طلبا کے نزدیک اسی سوچ تک محدود ہو گئی ہے، ایک درجے میں یہ سوچنا
جائز بھی ہے کیونکہ زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے اس حد تک تو معاشی طور
پرمستحکم ہونا ضروری ہے کہ کسی کہ آگے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہ آئے اور
ضروریات زندگی احسن طریقے سے پوری ہوجائیں۔لیکن کیا صرف معاشی استحکام ہی
کامیاب معاشرے کی کنجی ہے؟بالکل نہیں صرف معاشی استحکام کامیاب معاشرے کی
بنیاد نہیں ہے ۔ کامیاب معاشرہ وہ ہوتا ہے جہاں قوانین کی پاسداری کے ساتھ
شہریوں میں خدمت اور انسانیت کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہو۔
اگر ہم دینی و مذہبی حوالے سے معاشرے کا جائزہ لیں تو ہر گلی ومحلے میں
مساجد اور مدرسے آباد ہیں لیکن یہ مساجد و مدرسے بھی ایک فلاحی معاشرے کے
قیام میں کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں علمائے کرام بھی معاشرے
کے سدھار میں وہ کردار ادا نہیں کر پا رہے ہیں جو اُن کی ذمّہ داری کے زمرے
میں آتا ہے۔کیونکہ بہت کم علماء ہی فرد کی اصلاح اور نفع والے اعمال کی
بابت بات کرتے ہیں۔عموما موضوع بحث فروعی ،مذہبی اور مسلکی اختلافات ہی
ہوتے ہیں ،جس کی وجہ سے دفاتر اور محلّے میں بھی مذہبی اور مسلکی اختلافات
کے اثرات پائے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ شہری ایک دوسرے کی مدد کے لئے تیار
نہیں ہو پاتے ۔ اگر فرد کی اصلاح کی بات مسجد کے منبر سے ہو تو فرد کی
اصلاح کے ساتھ معاشرے میں بھی سدھار آسکتا ہے۔کیونکہ فرد سے ہی معاشرے کی
تشکیل ہوتی ہے۔مولانا محمّد یوسف لدھیانوی شہید سے مسجد میں جب کوئی مذہبی
و مسلکی اختلافی سوال پوچھا جاتا تھا تو سوال کا جواب دینے سے گریز فرماتے
تھے اور فرماتے تھے میں منبر مسجد سے صرف وہ بات کروں گا جو تمہارے نفع کی
ہو۔اس لئے تمام علمائے کرام کو چاہئے کہ منبر مسجد سے اختلافی مسائل پر بات
کرنے کی بجائے ،فرد کے نفع یعنی عبادات کی ترغیب کے ساتھ ہی معاشرے کے
سدھار کی بھی بات کی جائے تاکہ شہری پرامن رہنے کے ساتھ وقت پڑنے پر ایک
دوسرے کی مدد کرنے پر آمادہ ہوں اور اُن میں انسانیت کی حس بیدار ہو جائے ۔کسی
زمانے میں درسگاہوں میں اساتذہ کرام اور طلباء میں ایک ٹھوس تعلق قائم ہوتا
تھا۔
یہ تعلق طلباء کی تعلیمی استعداد کو جلا دینے کے ساتھ ساتھ ،طلباء کو آئندہ
زندگی میں معاشرے کامخلص اور معزّز شہری بننے میں بھی مددگار ثابت ہوتا
تھا، اس تعلق میں کمی کے اثرات معاشرے پر بگاڑ اور بے حسی کی صورت میں
نمودار ہو رہے ہیں۔کسی بھی کامیاب معاشرے کے لیے جہاں شہریوں کوقوانین کی
پاسداری کرنا ضروری ہے وہیں اس کے ساتھ انسانیت کی حس کا بیدار ہونا بھی
اشد ضروری ہے۔روز مرّہ کی زندگی میں ایسے بے شمار واقعات رونما ہوتے رہتے
ہیں جو انسانیت کے نام پر بدنماداغ ہیں۔مثلا ،معاشرے میں حادثات کا وقوع
پذیر ہونا معمول کی بات ہے۔لیکن اکثر شہری ان حالات میں ذمّہ دار شہری ہونے
کا ثبوت دینے میں ناکام ثابت ہوتے ہیں۔اگر ہم صرف شاہراہوں پر ہونے والے
حادثات کو مثال بنا کر اپنے کردار کا جائزہ لیں تو کتنے افرد ایسے ہوتے ہیں
۔جو اس موقع پر ذمّہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہیں ،زخمی یا مجروح شخص
جائے حادثہ پر دم توڑ دیتا ہے لیکن کوئی اس کی مدد کو آگے نہیں بڑھتا
تاوقتیکہ پولیس یا ایمبولنس نہ آجائے۔جب کہ اب یہ قانون بھی بن چکا ہے کہ
زخمی کواسپتال پہنچانے والے سے کسی بھی قسم کی تفتیش اُس وقت نہیں کی جائے
گی۔اساتذہ کرام طلباء میں اور علمائے کرام شہریوں میں ایک دوسرے کے لئے
ہمدردی اور مدد کا جذبے کو فروغ دینے میں بنیادی کردار ادا کرسکتے ہیں۔شہری
و سماجی اداروں کی بھی ذمّہ داری ہے کہ وہ طلباء اور شہریوں کو حادثات سے
نمٹنے کی اور ابتدائی طبّی امداد کی تربیت کا اہتمام ،مدارس ،اسکول اور
دفاتر میں کریں تاکہ حادثات کی صورت میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کو
روکاجاسکے اور انسانیت سڑکوں ،شاہراہوں پر دم توڑتی نظر نہ آئے۔ |
|