ڈسٹرکٹ ایجو کیشن آفس چکوال کر پشن کا گڑ ھ۔۔۔ احتساب کب ہو گا َ؟
(Rasheed Ahmed Naeem, Patoki)
کومل سعید ۔ تلہ گنگ
پاکستان میں تعلیم کے فروغ کیلئے نت نئے طر یقے اور پا لیسیاں وضع کی جا
رہی ہیں اور ان سب پا لیسیوں اور طر یقوں میں زیر عتاب آ نے والے صرف اور
صرف مظلو م اساتذہ ہیں جو گو ر نمنٹ کی جا ب کو اپنے لئے وبال جان سمجھنے
لگے ہیں کیو نکہ ذرا سی لغزش پہ جر ما نہ ،بے عزتی الگ اور وارننگ بھی اس
طر یقے میں دی جا تی ہے جیسے قتل کے مجر م ہوں ۔ما ہا نہ میٹنگز میں ڈی ای
او کا ایک لمبا لیکچر ہو تا ہے جس میں اساتذہ کو رشوت اور بد دیا نتی کا مر
تکب قرار دے کر دیا نت کا سبق پڑ ھا یا جا تا ہے ۔ان کے خیال سے اساتذہ سکو
لوں میں جا کر صرف اور صرف ٹا ئم پا س کر تے ہیں اور ان کے نزدیک یہ بد دیا
نتی ہے ۔ایسے میں وہ اساتذہ جو اپنی ڈیو ٹی پو ری ذ مہ داری سے ادا کر تے
ہیں خود اپنی نظروں میں مجر م بن کر دل برداشتہ ہو جا تے ہیں ۔آ ج میرا قلم
اس جا نب اٹھا ہے جہاں پہ اساتذہ کو کبھی سکو لوں میں تعداد کم ہو نے کی و
جہ سے تو کبھی سکو لوں میں صفا ئی نہ ہو نے کی و جہ سے (چا ہے وہ صفا ئی
ایک ٹا فی کے ریپر سے وزٹرز کو نظر نہ آ تی ہو )مجر م کے طور پہ پیش کیا جا
تا ہے ۔ڈسٹرکٹ ایجو کیشن آ فس چکوال کہنے کو تو تعلیمی امور کا ذمہ دار
ادارہ ہے مگر اس کی حقیقت یہ ہے کہ یہ کر پشن کا گڑ ھ ہے جہاں پہ ایک چھوٹی
کر سی سے لے کر بڑی تک ر شو ت کے بغیر کسی کی پہنچ نہیں اور رشوت کے بغیر
وہ کسی سے با ت تک نہیں کر تے ۔ میر ے پیا رے نبی ﷺ کا ارشاد پا ک ہے کہ "
رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں دوزخی ہیں" مگر وہاں معا ملہ الٹ ہے
رشوت کو کام ہو نے کی ضما نت تصور کیا جا تا ہے اسلئے لینے والے بخو شی
لیتے ہیں اور دینے والے با امر مجبوری۔اس ڈپا رٹمنٹ میں تحصیل تلہ گنگ اور
اس کے مو اضعا ت سے اساتذہ کو چکوال آ فس طلب کیا جا تا ہے جہاں پہ ان
خواتین کے بیٹھنے کی کو ئی جگہ نہیں وہ مر دوں کے ہجو م میں کھڑی ہونے پہ
مجبور ہو تیں ہیں اور ہر گزرنے والے کی وحشت ناک نظروں کا سا منا کر تیں
ہیں جس سے وہ شدید ذہنی کو فت کا شکار رہتیں ہیں ،کسی بھی کام کی تکمیل
کیلئے کلر کوں کے پاس حاضری اور ان کا جیب خرچہ ضروری ہو تا ہے وگرنہ د ھکے
کھا نے اور خوار ہو نے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو تا۔ کلر کوں کا اصول ہے کہ
وہ کو ئی بھی فا ئل اندر پہنچا نے کیلئے رشوت لیتے ہیں اور اوکے کر تے ہیں
کئی ایک تو ایسے بھی مو جود ہیں جو ایسی مجبور اساتذہ سے جو ٹرانسفر اور
دیگر معاملات کے سلسلے میں دراخوستیں لے کر جا تیں ہیں ان سے 20 سے 30 ہزار
روپے بطور رشوت لیتے ہیں اور پھر کام کے لا رے لگا کر غر یبوں کو بٹورتے
رہتے ہیں دیگر کلر ک بھی اس معا ملے میں کسی سے کم نہیں ۔گذ شتہ د نوں سکو
ل آ ڈ ٹ کے سلسلے میں آ فس میں جا نے والے اساتذہ کی فا ئلوں پہ مہر لگا نے
کے دو سو روپے و صول کئے جا تے رہے جبکہ یہ کا م ان کی ڈ یو ٹی میں شا مل
ہے ۔مجبور اساتذہ دیتے رہے کیو نکہ نہ دینے کی صورت میں ان کی فا ئلیں شا
ید بغیر مہروں کے میز پہ د ھر ی رہتیں ۔ ایجو کیشن ڈپا رٹمنٹ میں ای ڈی او
صاحب کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے پاس آ نے والے مسائل کو تسلی سے سن کر ان کے
تدارک کی سہی کر یں نا کہ صرف ٹیچرز کو جر ما نے کی سزا دے کر بری الذ مہ
ہو جا ئیں ۔خواتین ٹیچرز کا کہنا ہے کہ وہ بعض اوقات موقف سنے بغیر ان کو
دو ،دو ہزار جر ما نے کر کے فارغ کر دیتے ہیں ۔ ایک گا ؤں کی چند خواتین
ایک درخواست لے کر ان کے آ فس میں گئیں جہاں پہ ای ڈی او مو جود تھے مگر
انہوں نے میٹنگ کا بہا نہ کر کے پورے چھ گھنٹے انتظار کروایا اور اس طو یل
انتظار کے باوجود وہ آ فس سے نکلے اور گاڑی میں بیٹھ گئے ان خواتین کے شو
ہر ان کے سا تھ تھے وہ جلد ی سے ان کی گا ڑی کے قر یب گئے اور شیشے سے
درخواست اندر تھما نے کی نا کام کو شش کی مگر انہوں نے با ت سنے بغیر گاڑی
دوڑا دی اور وہ صاحب اور ان کی ہمراہ خواتین گاڑی کی د ھول میں د ھواں
دھواں چہرہ لئے دیکھتی ہی رہ گئیں تو کیا یہ اس محکمے کی کارکردگی پہ سوال
نہیں ؟مزید یہ کہ اس محکمے میں ر شوت لینے والے افراد سے کو ئی پو چھ گچھ
نہیں کی جا تی اگر نہیں کی جا تی تو کیوں ؟اور اگر کی جا تی ہے تو کیا
نتیجہ بر آ مد ہو ا ہے ؟یہ سوال میر ے نہیں میری تحصیل تلہ گنگ کی تما م
خواتین اساتذہ کے ہیں جو وہاں پہ رشوت دے کر اپنے حقوق کی جنگ لڑ تی ہیں
اور پھر بھی ذلت برداشت کر تیں ہیں ۔اس سے قبل کئی مر تبہ اس سسٹم کے خلا ف
کئی خواتین اساتذہ سراپا احتجا ج ہو ئیں ہیں مگر نتا ئج ہمیشہ کی طرح صفرہی
رہے ۔اس ساری صورت حال کو جا ننے کے باوجود اگر اس محکمے کا قبلہ درست نہ
کیا گیا تو وہ دن دور نہیں جب یہ محکمہ" راشی" کے نام سے جا نا جا ئے گا
۔حکو مت پنجا ب سے تما م خواتین اساتذہ کا یہ مطا لبہ ہے کہ انکے خلا ف
ایکشن لیا جا ئے اور اس محکمے کو فرض شناسی اور ایمانداری کے اصولوں سے مز
ین کیا جا ئے اور محکمے کو پا بند کیا جا ئے کہ خواتین اساتذہ کے ساتھ نرم
اور شائستہ انداز میں بات کی جا ئے کیو نکہ وہ اس قوم کی معمار ہیں ان کی
عزت نفس کو مجروح کر نا ان کے اندر اس مقدس پیشے سے نفرت کا عنصر ابھا رنے
کے مترادف ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس قوم کے بچوں کے ساتھ ظلم و زیا دتی ہے
۔جو قومیں اپنے معماروں کی اپنے محسنوں کی عزت کو گروی ر کھ دیتے ہیں ہمیشہ
عروج سے قبل ہی زوال ان کا مقدر بنا ہے ۔اگر تعلیم کا فروغ حکو مت کا مشن
ہے تو صرف تعلیمی اداروں پہ تو جہ دینا کا فی نہیں اس کے لئے پورے تعلیمی
محکموں کی بھی جا نچ پڑ تا ل ضروری ہے ۔پورے محکمے کی جا نچ پڑ تال کر کے
غلطی کے مر تکب افراد کو تنبیہ کی جا ئے وگرنہ رشوت کی جڑ پھیل جا ئے گی جو
ہمارے پورے معاشرے کیلئے نا سور ہے ۔ |
|