یقینا بہت اچھوتی اور نایاب خبر ہے کیونکہ
پوری دنیا میں سوائے ہماری سرزمین کے ایسے حالات اور ایسی خبریں ممکن ہی
نہیں ہوتیں۔ دنیا میں حکومتیں ہوتی ہیں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے۔ ہمارے
ہاں حکومت نام کی شے کوئی نہیں۔ یہاں راجدھانیاں ہیں۔ کسی وڈیرے کی
راجدھانی، کسی جاگیردار کی۔ کسی منتخب نمائندے کی یا کسی با اثر شخص کی
راجدھانی۔ عوام تو لٹتا ہے کسی نہ کسی کے ہاتھوں۔ کچھ عرصہ پہلے خبر تھی کہ
سندھ کے علاقے گھوٹکی میں ایک خاص طبقے نے احتجاج کیا اور وہ بھی پولیس کے
خلاف۔ گھوٹکی سندھ کا علاقہ ہے اور اندرون سندھ کی وجہ شہرت یا تو وہاں کے
وڈیرے اور پیر ہیں یا وہاں کے ڈاکو۔ تو احتجاج کرنے والا طبقہ وہاں کے ڈکو
ہیں جو بھاری اسلحہ اور راکٹ لانچر اٹھائے سڑکوں پر نکل آئے اور الزام
لگایا کہ پولیس ان سے بہت زیادہ بھتہ مانگتی ہے حالانکہ وہ شدید کاروباری
مندے کا شکار ہیں۔ لوگوں نے اپنی حفاظت کے لئے جدید اسلحہ اور پرائیویٹ
گارڈ رکھ لئے ہیں۔ وہ جب کسی کو لوٹنے یا اغوا برائے تاوان کے لئے اٹھانے
جاتے ہیں تو لوگ مقابلے پر اتر آتے ہیں۔ چونکہ ہم جان کا رسک نہیں لیتے۔
اسلئے ان حالات میں ہمارا کاروبار تباہی کا شکار ہے۔ ایک تو ہم کاروباری
حالات سے پریشان ہیں دوسرا پولیس ہماری مشکل کو سمجھنے کی بجائے اب بھی
ماضی ہی کے حساب سے ایک لاکھ روپے فی ڈاکو بھتہ مانگتی ہے جو ہم نہیں دے
سکتے مگر جو کچھ کماتے ہیں وہ پولیس زبردستی وصول کر لیتی ہے۔ اگر دینے سے
انکار کریں تو ہمارے خلاف جعلی پولیس مقابلے کا ڈارمہ رچا کر ہمارے ساتھیوں
کو مار دیا جاتا ہے۔
ڈاکو صحیح کہتے ہیں اصلی پولیس مقابلہ تو کبھی سالوں میں ایک آدھ بار ہی
ہوتا ہے اور جب ہوتا ہے پولیس کو بھی کافی نقصان پہنچتا ہے۔ باقی مقابلے سب
جعلی ہوتے ہیں اور ان میں مارے جانے والے وہ غریب لوگ ہوتے ہیں جو پولیس کی
فرمائش کے مطابق پیسے مہیا نہیں کر سکتے۔ گھوٹکی کے ڈاکو بھی اسی لئے
پریشان تھے کہ پولیس کی فرمائش کرنے میں انہیں مشکل کا سامنا تھا اور ڈر یہ
کہ پیسے کے جھگڑے میں پولیس کہیں کسی مقابلے میں ان کے دو چار ساتھیوں کو
اوپر نہ پہنچا دے۔ تاہم پولیس ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔ پولیس کے لوگ
کہتے ہیں کہ ڈاکو ان کو خوامخواہ بدنام کر رہے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ پولیس
ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کی تیاریاں کر رہی ہے اور ڈاکوؤں کو گھیرے میں لیا
جا رہا ہے۔ اس ڈر سے ڈاکو انہیں بلیک میل کرنے کیلئے احتجاج پر اتر آئے ہیں۔
کمال غیرت مند اور مستعد ہماری ملک کی پولیس کے جوان ہیں کہ دنیا میں اس کی
مثال نہیں مل سکتی۔ کرپشن کے لحاظ سے ملک کے تمام محکمے ہی اس بہتی گنگا
میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ مگر پولیس کا کرپشن میں کوئی ثانی نہیں۔ اگر کرپٹ
ترین کا مقابلہ ہو تو پہلے تینوں انعامات پولیس ہی کے تھانیدار یا ڈی ایس
پی حضرات حاصل کر لیں گے اور ٹرافی بھی پولیس کا آئی جی ہی حاصل کرے گا۔
پولیس کی سرپرستی کے بغیر یہ تو نہیں کہ جرائم بالکل نہیں ہوں گے مگر جرائم
پھل پھول نہیں سکتے۔ جرائم کی شرح میں پولیس کے آشیرباد کے بغیر اس قدر
اضافہ ممکن ہی نہیں۔
چند سال پہلے میں ایک شادی کی تقریب میں موجود تھا۔ قریب ہی ایک ڈی ایس پی
صاحب بیٹھے تھے۔ سیالکوٹ کے علاقے میں ایک دن پہلے ایک مشہور ڈاکو مارا گیا
تھا اور اس دن کے اخبارات میں وہ خبر چھپی تھی اور اس خبر کے حوالے سے ڈی
ایس پی صاحب اور ان کے ساتھی مصروف گفتگو تھے۔ ڈی ایس پی فرما رہے تھے کہ
مجھے اس کے مرنے کا بڑا افسوس ہے۔ میں تھانیدار کے طور پر فلاں علاقے میں
تعینات تھا جب یہ دو ساتھی ڈکیتی کے چکر میں گرفتار ہوئے۔ انہیں کئی سال
قید ہو جانا تھی مگر میں نے مہربانی کی ااور انہیں بچا لیا اور ہدایت کی
تھی کہ بیٹا کوئی دوسرا کم کرو۔ ڈکیتی برا کام ہے یہ نہ کرو تو بہتر ہے۔
ایک کو میری بات سمجھ آ گئی۔ الیکشن آئے تو اس نے کونسلر کا الیکشن جیت لیا۔
اب وہ ایم پی اے ہے مگر اس نے ڈکیتی نہیں چھوڑی۔ سمجھتا تھا کہ بڑے بڑے
لوگوں سے تعلقات ہیں اسے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ مگر برا وقت آئے تو کون
ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ خصوصاً ڈکیتی کے کیس میں کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا۔ ہر ایک
کو اپنی عزت اور جان پیاری ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اب نتیجہ
سامنے ہے۔
ڈی ایس پی صاحب بیان اس انداز سے دے رہے تھے کہ گویا تھانیدار کے طور پر وہ
نیکی بکھیرتے اور بانٹتے رہے مگر حقیقت یہ ہے کہ پہلی ڈکیتی پر ہی مک مکا
ہو جانے پر ڈاکو حوصلہ مند ہو گیا ہو گا اور اپنے انجام سے بے خبر وارداتوں
میں مصروف رہا ہو گا۔ کوئی ڈکیت پولیس کی حوصلہ افزائی کے بغیر مسلسل ایسی
وارداتوں کا ارتکاب نہیں کر سکتا۔ پولیس کو جرم کے خاتمے سے زیادہ اپنے حصے
سے غرض ہوتی ہے۔ پولیس والے پیسے لے کر کام کرتے ہیں اس پر بھی سمجھتے ہیں
کہ مجرم پر انہوں نے احسان کیا لیکن معاشرے کے ساتھ اس وجہ سے جو زیادتی
ہوتی ہے اس کا انہیں احساس ہی نہیں ہوتا۔
میں بہت دفعہ کہہ اور لکھ چکا ہوں کہ ہماری پولیس نا قابل اصلاح ہے۔ کوئی
ایماندار آدمی پولیس میں رہ نہیں سکتا۔ یہ قانون کے ساتھ کھیلتی ہے اور
قانون کی تشریح بھی قابو آنے والے شخص کے اثر رسوخ کو دیکھ کر اپنی مرضی سے
کرتی ہے۔ وہ ادارے اور وہ لوگ جنہیں پولیس کو پوچھنا ہوتا ہے۔ بالکل نہیں
پوچھتے بالکل پولیس کے بگڑے ہوئے مزاج کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پولیس کو اپنے
مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ کسی عدالت نے پولیس کے جرموں کو جانتے ہوئے
بھی کسی پولیس والے کو سزا نہیں دی۔ کبھی حقیقی احتساب کی شروعات ہوئی تو
یقینا ابتدا پولیس اور دوسرے تفتیشی ادارے کے لوگوں سے ہو گی کیونکہ ڈاکوؤں
سے بھتہ وصولی کی خبر یں سن کر ہر شخص یہ سوچتا ہے کہ اصلی اور بڑا ڈاکو
کون ہے۔ |