دین کا ایک اہم ترین فریضہ ․․․حج بیت اﷲ

اﷲ کے رسول ﷺ نے پانچ چیزوں کو اسلام کا اساس اور بنیاد قرار دیاہے (۱) اس بات کے اقرار کرنا کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں (۲) نماز قائم کرنا (۳) زکوٰۃ دینا (۴) رمضان کے روزہ رکھنا (۵) بیت اﷲ کا حج کرنا۔

یہ پانچ چیز یں اسلام کی اساس اور بنیاد ہے اگر کوئی ان میں سے کسی ایک کابھی انکار کرتاہے تو اسے دائرہ اسلام سے خارج سمجھاجائے گا۔سب سے پہلی اور اہم بنیاد اس بات کی گواہی دینا کہ اﷲ کے سواکوئی معبود برحق نہیں اور حضور اکرم ﷺ اﷲ کے پیغمبر اور رسول ہیں ، جب ایک بندہ اﷲ کی وحدانیت کا اقرار کرتاہے اور رسول کی رسالت کو تسلیم کرتاہے تب اس بندے پر بقیہ کی فرضیت لازم آجاتی ہے۔

نماز سب سے اہم عبادت ہے اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا نماز دین کا ستون ہے ، جس نے نمازچھوڑدی گویا اس نے دین کو ڈھادیا (رواہ البیہقی) چنانچہ نما زہر عاقل ، بالغ مرد وعورت پرفرض ہے ، نماز کسی حالت میں معاف نہیں ۔

زکوٰۃ کے لئے صاحب نصاب ہونا شرط ہے یعنی بندے کے پاس اس قدر مال ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونے کی قیمت کے بقدر ہواور ضرورت سے زائد ہو تو اس مال میں سے ڈھائی فیصد راہ خدا خرچ کو لازم ہے ۔

روزہ یہ بھی ایک اہم عبادت ہے اﷲ تعالیٰ نے ہر بندۂ مومن پر اس کو فرض کیاہے فرضیت کسی سے ساقط نہیں ہاں شریعت نے اتنا حکم ضرور دیاہے کہ اگر کوئی مسافرہو، مریض ہو یاحائضہ عورت ہو توان کے لئے رخصت صرف اتنی دی گئی ہے کہ عذر کی صورت میں روزہ ضروری نہیں لیکن بعد میں اس کی قضا لازم ہے ۔
حج ہراس شخص پر فرض ہے جس کے پاس اتنی دولت ہو کہ وہ بیت اﷲ جاکر واپس آسکتاہو ۔

حج اور اس کاپس منظر:
حج کے لغوی معنی قصداور ارادہ کرنا۔ شرعی اصطلاح میں اسلام کے پانچویں رکن کی ادائیگی کے لئے بیت اﷲ کے قصد کرنے کو حج کہتے ہیں ۔

جب سیدنا ابراہیم واسماعیل علیہما السلام نے اﷲ کے حکم کے مطابق بیت اﷲ کی تعمیر فرمائی تو اﷲ نے حضر ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ ’’لوگوں میں حج کا اعلان کردو ، وہ تمہارے پاس پیدل ، دبلے پتلے اونٹو ں پر سوار ہوکر دور درازکے راستوں سے چلے آئیں گے‘‘ ۔[الحج:۲۷]

اسی حکم خداوندی کے ساتھ حج کا آغاز ہوا،اﷲ تعالیٰ کوحضرت ابراہیم وہاجرہ اور اسماعیل علیہم الصلاۃ والتسلیم کے اعمال کے اتنے پسند آئے کہ اﷲ تعالیٰ نے قیامت تک کے لئے مناسک حج میں شامل کردیا۔
حج قولی ، بدنی اور مالی عبادتوں ایسا مجموعہ جس میں بندہ اﷲ کی عظمت اس کی بڑائی اور بندگی کا بے پناہ اظہارکرتاہے، اور دنیا کے خطے خطے سے اﷲ کے بندے اﷲ کی محبت اور اس کے حکم کی تعمیل کے لئے دیوانہ وارچلے آتے ہیں ، کیا گورا، کیا کالہ ، کیاعربی ،کیاعجمی ،کیا مالدار اور کیا غریب ہرایک کی شان ایک ہوتی ہے ہرایک کالباس ایک گویا حج مسلمانوں کی اجتماعیت اور باہمی اتحاد کا ایک نمونہ ہے بقول علامہ اقبال ؒ
ایک صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ بندہ نواز ۔

حج کے احکام بیان کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا :
’’ حج کے مہینے سبھی کو معلوم ہیں جو شحص ان مقررہ مہینوں میں حج کی نیت کرے اس کو اس بات سے ہوشیار رہنا چاہئے کہ اس سے میاں بیوی والا کوئی تعلق ، کوئی بد کاری ، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو ، اور جو کام تم کروگے وہ اﷲ کے علم میں ہوگا ، سفرِ حج کیلئے توشۂ سفر ساتھ لیجاؤ بے شک توشۂ سفر دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بچائے گا ، پس اے ہوشمندو میری نافرمانی سے بچو ‘‘۔ (۱)۔ [ سورۃ البقرہ : آیت ۱۹۷ ]

حج کی فرضیت :حج حضرت ابراہیم وہاجرہ اور ان کے فرزند ارجمند حضرت ابراہیم علیہم السلام کی یادگار ہے اور اسی زمانہ حج رائج ہے لیکن اسلام کے علاوہ کسی بھی مذہب و ملت میں حج فرض نہیں تھا، حج کی فرضیت صرف امت محمدیہ کی خاص شان ہے ۔

۹؁ھ میں آپ ﷺ مدینہ منورہ میں تشریف فرماتھے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام یہ آیت کریمہ لیکرآئے،
وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً [ سورہ آل عمران: آیت ؍ ۹۷ ] ’’ جو شخص بیت اﷲ تک پہونچنے کی طاقت و قوت رکھتا ہو اس پر بیت اﷲ کا حج کرنا فرض ہے ‘‘

اس آیت کریمہ کے نازل ہونے کے بعد رسول اکرم ﷺ نے حضرات صحابہ کرام ؓ کے ایک مجمع سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
اے مسلمانو ! اﷲ نے تم پر حج فرض کیا ہے ، لہٰذا تم حج کرو ، ایک صحابی کھڑے ہوئے ، عرض کیا یا رسول اﷲ ! کیا ہر سال حج کرنا فرض ہے ؟ آپ نے سکوت فرمایا پھر ان صحابی نے دوبارہ یہی سوال کیا ، آپؐ پھر خاموش رہے ، تیسری مرتبہ پھر یہی سوال کیا ، آپؐ پھر بھی خاموش رہے ، اس کے بعد آپؐ نے فرمایا اگر میں کہہ دیتا کہ ہاں تو یقینا ہر سال حج کرنا فرض ہوجاتاتمہارے اندر ا تنی طاقت و وسعت نہیں کہ تم ہر سال حج کر تے ۔[ رواہ الترمذی : ۸۱۴ ]

پھر آپؐ نے فرمایا مسلمانو ! جس چیز کا میں حکم دوں اس پر عمل کرو ، جس پر خاموش رہوں تم بھی خاموش رہو ، کثرت ِ سوال سے بچو ، تم سے پہلی امتیں کثرت ِ سوال کی ہی وجہ سے ہلاک و برباد ہو ئی ہیں۔ [ رواہ الترمذی : ۸۱۴ ]

خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی پوری حیاتِ طیبہ میں چار عمرہ کئے ہیں اور ہجرت سے پہلے تین زائد حج کئے ہیں ، علامہ بنوری ؒ فرماتے ہیں ہجرت سے پہلے کتنے حج کئے اس کی صحیح تعداد معلوم نہیں البتہ ہجرت کے بعد آپ نے صرف ایک حج فرمایا جس کو حجۃ الوداع کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔
پھر ارشاد فرمایا ، مسلمانو ! حج و عمرہ ساتھ کرو اس لئے کہ یہ دونوں فقر و غربت اور گناہوں کو ایسا دور کر دیتے ہیں جیسے آگ کی بھٹی سونے چاندی کے میل کو دور کردیتی ہے ۔[ رواہ الترمذی] و النسائی ، بحوالہ معارف الحدیث کتاب الحج ، رقم الحدیث : ۱۵۰ ج ۴ ؍ ص ۴۰۲ ] فرمایا رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم : مَنْ حَجَّ لِلّٰہِ فَلَمْ یَرْفُثْ وَ لَمْ یَفْسُقْ رَجَعَ کَیَوْمٍ وَلَدَتْہُ اُمُّہٗ[ رواہ البخاری ، کتاب الحج ، باب فضل الحج المبرور ، رقم الحدیث : ۱۵۲۱]’’ جس نے اﷲ کیلئے اخلاص کے ساتھ حج کیا ، کوئی بد کاری فسق و فجور کی کوئی بات اس سے سرزد نہ ہوئی تو میں اس کے گناہ ایسے ختم کر دیتا ہوں جیسے اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا تھا ۔

حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والا اﷲ کا مہمان ہے اگر وہ اﷲ سے دعا کرے تو اﷲ تعالی اس کی دعا قبول کریگا اگر وہ مغفرت کا طلبگار ہوگا تو اس کی مغفرت کی جائے گی ۔

پھر آپؐ نے فرمایا جب تم کسی حاجی یا عمرہ کرنے والے کو دیکھو تو اس کو سلام کرو اس سے مصافحہ کرو اس سے کہو کہ وہ تمہارے لئے استغفار کرے،اس لئے کہ اس کی مغفرت ہو چکی ہے۔ [ رواہ أحمد ، بحوالہ معارف الحدیث کتاب الحج ، رقم الحدیث : ۱۵۲ ۔ ج ۴ ؍ ص ۴۰۲ ]

سفرِ حج سراسر عشق و محبت کا سفر ہے ، لہٰذا جو حضرات حرمین شریفین حاضری دینے والے ہیں ، انہیں چاہئے کہ اپنے اندر عشق الٰہی کا جذبہ پیدا کریں ، اور یہ حقیقت ہے کہ نہ ہمارے پاس وہ عشق و محبت ہے اور نہ وہ جذبۂ و تڑپ ، اس لئے کم از کم جب کعبۃ اﷲ پہونچیں تو ہمارے پاس ندامت کے آنسو اور گناہوں کا احساس ہو ۔

تاریخ کی کتابوں میں یہ واقعہ مذکورہے کہ ایک فاحشہ و بدکار عورت حضرت جنید بغدادی ؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے گناہوں سے توبہ کی ، توبہ کر کے حج کیلئے روانہ ہوئی ، جوں ہی کعبۃ اﷲ پر اس کی نظر پڑی کہنے لگی ۔

پروردگارا ، کہاں میں گندی اور گنہگار اور کہاں تیرا پاک و مقدس گھر یہ تیری بندہ پروری ہے ۔ میرے آقا ! میرے آنے سے کہیں تیرا پاک گھر ناپاک نہ ہوجائے ،یہ کہا اور چیخ مار کر گر پڑی اور اس کا انتقال ہوگیا ۔
اسی طرح ایک بزرگ کعبۃ اﷲ کا طواف کر رہے تھے ، جب بھی وہ لبیک کہتے ، آسمان سے صدا آتی لَا لَبَّیْکتیری حاضری ہمیں منظور نہیں ، ایک نوجوان بزرگ کے ساتھ طواف کر رہا تھا اس نے آواز سن لی کہنے لگا،چچا محترم ! جب آپ کی لَبَّیْکَ پر لَا لَبَّیْکَ کی صدا آتی ہے تو آپ یہاں سے چلے کیوں نہیں جاتے ہیں ؟ بزرگ نے فرمایا ، اے نوجوان تونے ایک مرتبہ لَا لَبَّیْکَ سنا ، تیرا دل ٹوٹ گیا ، میں ستر سال سے حج کر رہا ہوں اور یہ آواز برابر سنتاآ رہا ہوں ، اور اس در کے علاوہ کوئی دوسرا در بھی تو نہیں کہ وہاں چلا جاؤں ۔یہ کہنا تھا کہ اس کے بعد جو لَبَّیْکَ کہا تو ہاتف غیبی نے صدا دی لَبَّیْکَ یَا عَبْدَیْ ، اے میرے بندے تیری حاضری ہمیں قبول ہے ۔

اس لئے آپ حضرات انتہائی عاجزی و ندامت کے ساتھ لبیک کہئے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری لبیک بھی رد ہو جائے ، اﷲ ہم سب کی حفاظت فرمائے ۔

علماء نے تحریر فرمایا ہیکہ مکہ مکرمہ کے دوران ِ قیام جتنا ہو سکے کثرت سے طواف کا اہتمام کرے اس لئے کہ طواف صرف اور صرف مکہ مکرمہ میں ہوتا ہے ، اور مدینہ کے دورانِ قیام درود و صلاۃ کا بکثرت اہتمام کرے ۔

حضور علیہ الصلوٰۃ و التسلیم نے ارشاد فرمایا : مَنْ حَجَّ فزَارَقَبْرِیْ بَعْدَ مَوْتِیْ کَانَ کَمَنْ زَارَنِیْ فِیْ حَیَاتِی [ المعجم الکبیر : ۱۳۴۹۷] ’’ جس نے میرے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد میرے قبر کی زیارت کی اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی ۔

آپ کے روضۂ اطہر پر حاضری دینے والے حضرات کو چاہئے کہ سر تا پا احترام اور مجسم با ادب ہو کر حاضری دیں ، اس لئے کہ یہ مقام ِادب ہے جہاں جبرئیل امین جیسا مقدس و محترم فرشتہ بھی بصد ادب و احترام حاضری دیتا ہے ، یہی وہ مقدس و با برکت جگہ ہے جس کی گلیوں میں قرآن عظیم کی آیات با برکات کا نزول ہوا کرتا تھا ۔

آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: ’’ مدینہ میری ہجرت کامقام ہے اور وہی میرا مدفن ہے ، قیامت کے دن وہیں سے میں اٹھوں گا ، جو شخص میرے مدینہ والوں کے حقوق کی حفاظت کرے گا قیامت کے دن میں اس کی شفاعت کرونگا اور اس کے ایمان کی گواہی دونگا ، جو مدینہ والوں کے ساتھ برائی کرے گا وہ ایسے گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے[ مشکوٰۃ المصابیح : ۲۶۲۳ ] کسی شاعر نے کیاخوب کہاہے ؂
یہ بارگہ ِ ناز رسول عربی ہے ۔ پلکوں کا جھپکنا بھی یہاں بے ادبی ہے
عمرہ کے فرائض وواجبات
عمرہ میں دوچیزیں فرض ہیں: (۱) احرام باندھنا (۲)۔ اور طواف کرنا ۔
اور دوچیزیں واجب ہیں : (۱) صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا ۔ (۲) حلق کرانا ۔( رد المحتار علی الدر المختار شرح تنویر الأبصار) ۔ کتاب الحج : الجزء الثالث ۔ الصفحۃ : ۴۷۵ ۔ ۴۷۶]
حج کے فرائض وواجبات:
حج میں تین چیزیں فرض ہیں : (۱) احرام باندھنا ۔ (۲) ۹؍ ذی الحجہ کو زوال کے بعد میدان عرفات میں ٹھہرنا ۔ (۳)۱۰؍ ذی الحجہ سے ۱۲ ذی الحجہ کے غروب آفتاب سے پہلے پہلے تک طواف زیارت کرنا[ایضا)۔
عورت کو اگر حیض آ رہا ہے تو وہ پاک ہونے بعد طوافِ زیارت کرے گی۔ اگر ان تین فرائض میں سے ایک فرض بھی چھوٹ گیا تو دم دینے سے بھی حج ادا نہ ہوگا بلکہ آئندہ سال دوبارہ حج کرنا پڑے گا ۔
حج کے واجبات ۶ ہیں (۱) صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا ۔ (۲) مزدلفہ میں ٹھہرنا۔(۳) شیطان کے نشانات پر کنکری مارنا ۔ (۴)۔ قربانی کرنا ۔(۵) سر کے بال نکالنا ۔(۶) وداعی طواف کرنا۔[ایضا]
اگر حج کے زمانہ میں عورت کو حیض آجائے تو طواف زیارت کے سوا سارے ارکان ادا کر سکتی ہے ۔
دعا کیجئے کہ اﷲ رب العزت حجاج کرام کی حرمین شریفین کی حاضری کو قبول فرمائے اور ہمیں بھی بار بار حج بیت اﷲ کی توفیق عطا فرمائے ۔( آمین یا رب العالمین )
 
Sajid Hussain Nadvi
About the Author: Sajid Hussain Nadvi Read More Articles by Sajid Hussain Nadvi: 11 Articles with 8920 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.