شعبہ لائبریری و انفرمیشن سائنس جامعہ کراچی کے سابقہ طلباء کی تقریب فزیرائی

ایک SMSکے ذریعے مجھے اطلاع ملی کہ کراچی یونیورسٹی شعبہ لائبریری انفارمیشن سائنس 10اگست کو اپنے تمام سابقہ طلبہ کے ساتھ ایک پروگرام ترتیب دے رہا ہے جس کا مقصد باہمی ملاقات اور ایک ڈائریکٹری کا اجراء ہے بہت خوشی ہوئی کہ اپنے ساتھیوں سے ملاقات ہوگی اگر چہ چھٹی کا دن نہیں تھا پھر بھی کافی طلبہ آئے بہت سے نہیں بھی آئے جو انٹرنیٹ استعمال نہیں کرتے انہیں معلوم ہی نہ ہوسکا ۔میں نے اپنے کئی ساتھیوں کو SMSکیا ۔ ہم وقت پر پہنچ گئے ۔پروگرام حسب روایت آدھا گھنٹہ دیر سے شروع ہوا مگر پھر بھی جلدی شروع ہوگیا اگر کوئی نامی گرامی سرکاری شخصیت تشریف لاتی تو دو گھنٹے لیٹ بھی ہوسکتا تھا مگر ادارے کے سابق پروفیسر اور ملاحت کلیم شیروانی نے یہ فرائض انجام دیئے ۔اسٹیج پر ان کے علاوہ منیرہ نسرین انصاری صدر کی حیثیت سے موجود تھیں ۔سب سے پہلے کلام الہٰی سے پروگرام کا آغاز ہو ا۔یونیورسٹی کی مسجد کے مولانا یامین قادری نے بہت پرسوز آواز میں تلاوت کی اس کے بعد نعت بہت ہی پیارے انداز میں سنائی ۔تلاوت کے بعد سانحہ کوئٹہ کے مرحومین کے لئے فاتحہ خوانی کروائی۔خطبہ/ استقبالیہ ڈاکٹر منیرہ نسرین انصاری نے پیش کیا ۔انہوں نے کہا کہ کافی عرصہ سے پیشہ ورانہ ساتھیوں کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جارہا تھا کہ یونیورسٹی کے المنائی کو دوبارہ منظم کیا جائے اور ساتھیوں کو ملاقات کا موقع فراہم کریں ۔لہٰذا یہ اس سلسلے کی پہلی کاروائی ہے جسکا مقصد سب کو جمع کرنا ہے ۔انہوں نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا کہ سب لوگ ورکنگ ڈے میں آئے انہوں نے کہا کہ ہمارے ڈیپارٹمنٹ کو ماں کا درجہ حاصل ہے یہاں سے فارغ التحصیل طلبہ نے نہ صرف ملک میں بلکہ ملک سے باہر بھی اس کا نام روشن کیا داکٹر محمد فاضل ، حامد رحمان ، میر حسن جمالی، یعقوب چوہدری جنہوں نے اپنے صوبوں میں ڈیپارٹمنٹ قائم کئے ۔ ہمارے شعبے کی تعلیم ملک میں آنے والی تبدیلیوں کو مدنظر رکھ کر دی جاتی ہے ۔نصاب میں اضافہ اور تبدیلیاں کی جاتی ہیں ہم انفارمیشن پروفیشنل تیار کرتے ہیں تا کہ قارئین کہیں بھی بیٹھ کر لائبریری سے استفادہ حاصل کرسکیں ۔10اگست 1956میں اس شعبہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔چراغ سے چراغ جلتا رہیگا ہم نہیں ہونگے ڈیپارٹمنٹ قائم رہے گا۔

اس کے بعد انور شعیب نے ایک پریذینٹیشن کے ذریعے 60سالہ تاریخ کو پیش کرنا چاہا جو ناممکن تھا لہٰذابنیادی نکات پیش کئے۔ ڈیپارٹمنٹ کے راشد علی نے اس کو تیار کیا جس میں یہ بتایا کہ کن کن افراد کی کوشش سے یہ قائم ہوا۔انہوں نے بتایا 05فروری 1954کو کراچی لائبریرین ایسوسی ایشن کی تقسیم اسناد کے موقع پر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کو مدعو کیا گیا تھا اس موقع پر انہوں نے لائبریرین حضرات کہا کہ کراچی میں شعبہ لائبریری سائنس کیوں نہ قائم کردیا جائے لہٰذالوگوں نے یونیورسٹی سے رابطہ کیا اس طرح۔
ڈاکٹر ہاشمی ، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی ، ابوبکر، اے ۔بی حلیم اور ڈاکٹر محمود حسین کی کوششوں سے یہ ڈیپارٹمنٹ قائم ہوا۔شعبہ لائبریری سائنس کے قیام کے بعد پہلا ڈپلومہ نصاب کی تیاری میں آسٹریلیا کے لائبریرین Canraمشیر کے فرائض انجام دے رہے تھے۔Business Administrationکے Donald Smith، نوالصباح ڈائر یکٹر ارکائیوز، نور محمد خان اسٹیٹ بینک کے لائبریرین نے سلیبس کی تیاری میں حصہ لیا 1956میں ڈپلومہ تعلیم کا آغاز ہوا۔1962میں M.Aشروع ہوا اور ڈیپارٹمنٹ کو لائبریری سے الگ کیا گیاپہلے دونوں ڈیپارٹمنٹ ساتھ ساتھ تھے۔1967سےPHD، 1982سے DLISسےBLISہوا۔ 1983سے M.Aسے MLISہوا،2009سے BSشروع ہوا۔1982میں شعبہ کا نام تبدیل کیا گیا یعنی لائبریری سائنس ڈیپارٹمنٹ سے ڈیپارٹمنٹ لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس کا نام دیا گیا۔

2013سے شام کی کلاسوں کا آغاز کیا گیا جن میں BLISاور MLISکی کلاسس شروع ہوئیں اب تک 2200لوگوں کو ڈگریاں دی گئیں جن میں 1800MLS اور MLIS کی ہیں۔DLIS/BLISکے کورس پر 2002, 1982, 1980, 1973, 1966, 1961اور2013میں نظر ثانی ہوئی۔

MLISکے کورس میں تبدیلی 1983, 1980, 1978, 1973, 1966اور 2002میں ہوئی۔

1974میں سیمینار لائبریری قائم ہوئی اس میں5000کتابیں ہیں اس کا نام ڈاکٹرعبد المعید لائبریری ہے۔1985میں کمپیوٹرلیب جو آرٹس فیکلٹی کی پہلی لیب تھی۔2014میں اس کا نام ڈاکٹر انیس خورشید مینجمنٹ لیب رکھا گیا اب اس میں 30کمپیوٹر ہیں ڈاکٹرعبد المعیداس شعبے کے بانی تھے۔اساتذہ میں پہلے PHDڈاکٹرعبد المعید، خواتین میں ڈاکٹر نسیم فاطمہ ہیں ، انیس خورشید صاحب کو صدارتی ایوارڈ ملا۔اس کے بعد ڈاکٹر رائیس احمد صمدانی نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ انہوں نے سرگودھا میں اور منہاج یونیورسٹی میں ایسو سی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیں ۔آپ نے 500سے زائد آرٹیکل اور 30کتابیں لکھیں انہوں نے ڈاکٹرعبد المعید، انیس خورشید ، ڈاکٹر جلال حیدر کو خراج تحسین پیش کیا انہوں نے کہا کہ آج میں جو کچھ بھی ہوں اسی ڈیپارٹمنٹ کی وجہ سے ہوں تعلیم، اولاداور رتبہ سب کچھ اسی کی وجہ سے ہے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم بھی اسے کچھ دیں مطلب یہ ہے کہ اس ڈیپارٹمنٹ کی نمائندگی کریں جہاں جس حیثیت میں بھی جائیں انہوں نے مزید کہا کہ جلال حیدر، میڈم ممتاز جز وقتی ٹیچرز تھیں اختر حنیف اور پچھلے اور موجودہ اساتذہ کو خراج تحسین پیش کیا۔

اس کے بعد ڈاکٹر نسیم فاطمہ کا پیغام پڑھ کر سنایا جو شعبہ کی سابقہ طالبہ آمنہ خاتون نے پڑھ کر سنایا ڈاکٹر نسیم فاطمہ نے اپنے پیغام میں شعبہ لائبریر ی سائنس کے اساتذہ اور سابقہ طلبہ و طالبات کو مبارک باد پیش کی اور فرمایا کہ اس شعبے نے ملک میں لائبریری کی تعلیم و تدریس ، تحقیق اور ادب کی فراہمی میں نمایاں کردار ادا کیا۔پاکستان لائبریر ی سائنس المنائی ایسوسی ایشن کی بنیاد یہیں رکھی گئی۔اس شعبہ سے فارغ التحصیل طلباء وطالبات نے اپنی لائبریری خدمات ، تحریروں ، تقریروں اور تحقیقات سے ملک میں اور بیرون ملک نام پیدا کیا اور شعبہ کے وقار میں اضافہ کیا ۔اس شعبے کے المنائی محمد عادل عثمانی اور ڈاکٹر غنی الاکرم سبز واری نے پاکستان لائبریری بلیٹن کے نام سے رسالے کا اجراء کیاجو اب "پاکستان لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس "کے نام سے اپنے ۵۰سال پورے کرچکا ہے۔لائبریر ی پروموشن بیورو کے المنائی نے جو ادارہ قائم کیا اس نے اب تک اردو اور انگریزی میں ۷۲کتابیں شائع کیں ۔ درسی ، حوالہ جاتی ، معلوماتی اور معاونین شائع کرنے والا یہ ملک کا واحد ادارہ ہے ۔المنائی ڈا ئریکٹری پہلی بار۱۹۷۱میں زین صدیقی نے اور دوسری بار۱۹۸۰میں ڈاکٹر نسیم فاطمہ نے مرتب کی اب یہ تیسرا موقع ہے کہ ڈائریکٹری کی اشاعت کا قصد کیا گیا ہے۔ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی نے پہلی بار انٹرمیڈیٹ پھر بی اے کی نصابی کتب شائع کیں ما بعد تحقیق کی اور سوانح و خاکہ نگاری کا فن اختیار کیا ۔ علم کتب خانہ میں ان کی کتابیں Best Selling Booksکہلائیں آخر میں انہوں نے کہا کہ میری دعا ہے کہ شعبہ دن دونی رات چوگنی ترقی کرے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں اپنی آئندہ کتاب کو جس میں نسرین شگفتہ شریک مصنف ہیں اس موقع پر شعبہ کے نام کرتی ہوں۔

اس کے بعد بریگیڈئیر ریٹائرڈ خوش محمد خان کا پیغام رابعہ اسلم نے پڑھ کر سنایا۔اس کے بعد شاہین عتیق اسٹیج پر آئیں آپ این ای ڈی یونیورسٹی کی لائبریرین ہیں ان کے تحت 15اسسٹنٹ لائبریرین خدمات انجام دے رہے ہیں انٹرن شپ بھی کراتی ہیں انہوں نے کہا کہ لائبریری Ocean of Knowledgeہے۔انہوں نے اپنے اساتذہ اور ڈیپارٹمنٹ کی کارکردگی کو سراہا اور کہا کہ میں جو کچھ ہوں اس ادارے کا عکس ہوں۔
اس کے بعد خواجہ مصطفےٰ آئے انہوں نے نے بڑی صاف گوئی سے کہا کہ اس شعبے میں اس لئے آگیا کہ بغیر سفارش اور رشوت کے نوکری مل جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں 90%اداروں میں لائبریری نہیں ہیں ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہئے انہوں نے اس بات کی تعریف کی پاکستان میں چھ جامعات میں لائبریر ی سائنس ڈیپارٹمنٹ ہیں مگر صرف جامعہ کراچی میں میڈیکل لائبریرین شپ کی تعلیم دی جاتی ہے۔میڈیکل لائبریرین شپ کو آگے بڑھانے میں جامعہ کا بڑا کردار ہے وہ میڈیکل لائبریرین شپ پر مقالے بھی تیار کراتے ہیں انہوں نے کہا کہ شخصیت سازی میں ساتذہ کا بڑا کردار ہے۔بیتی یادوں کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ہم جلال حیدر کے گھر جاتے تو بڑی خاطر مدارت کرتے اپنے ہاتھوں سے چائے بنا کر پلاتے تھے۔صدیق صاحب مرحوم وسیع مطالعہ رکھتے تھے جب وہ بولتے تھے تو ہم پلک جھپکنا بھول جاتے تھے کبھی کبھی ہمارا پوائنٹ بھی نکل جاتا تھا۔انہوں نے کہا کہ میری ماں نہیں میں ڈیپارٹمنٹ کو اپنی ماں کا درجہ دیتا ہوں یہ کہہ کر وہ آبدیدہ ہو گئے۔سلمان عابد نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے بھائی نے مشورہ دیا تھا کہ لائبریری سائنس میں داخلہ لے لو۔ انہوں نے اپنے اساتذہ کی تعریف کی میڈم ملاحت کی شخصیت کی تعریف کی انہوں نے کہا کہ مجھے لیڈر شپ کی تربیت میڈم ملاحت سے ملی اور بہت کچھ سیکھا ۔

خورشید عالم نے بھی اپنا پیغام بھیجا وہ ملک سے باہر ہیں ۔انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ میں اس موقع پر موجود نہیں ہوں سب لوگ بہت یاد آرہے ہیں مجھے اپنے اس عظیم شعبے کے لئے کچھ کہتے ہوئے الفاظ کم اور چھوٹے نظر آرہے ہیں ۔خورشید عالم نے ۱۹۵۸میں ڈپلومہ کیا پھر برٹش کونسل میں ملازم ہوئے۱۹۶۳میں ماسٹرز کیا کچھ عرصہ کراچی یونیورسٹی کے لائبریرین بھی رہے ۔انہوں نے کہا کہ میں تمام افراد اور اساتذہ کو سیلوٹ کرتا ہو ں ۔ان کا پیغام نوید سحر نے پیش کیا۔

فرحت حسین صاحب نے اپنے ڈیپارٹمنٹ کے طلبہ پر بڑی گہری نظر رکھی ہوئی تھی انہوں نے بتایا کہ ہمارے پروفیشن میں ہر طرح کے رشتے موجود ہیں 2500طلباء میں 100خاندان ایسے ہیں جن کے رشتے دار اس پروفیشن میں آئے۔انہوں نے ۱۹۷۳سے اب تک ان تمام لوگوں کا تذکرہ کیا جنہوں نے یہاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے کاندان کے افراد کو MLISکرایا ۔ان کا موضوع بڑا پر لطف رہا جن میں چند خاندانوں کے انہوں نے نام بتائے اور ترتیب بتائی اور ان کے ذریعہ معلوم ہوا کہ بعض خاندانوں میں میاں بیوی سب لائبریرین ہیں ہر قسم کا رشتہ پایا جاتا ہے ۔داماد اور ساس،ساس اور بہو کے علاوہ۔آخر میں آصف عکاشہ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا وہ آرمی سے لائبریر ی سائنس میں آئے انہوں نے بتایا کہ میں سب سے بڑا تھا ۱۸سال میجر کی پوسٹ پر رہا سب کلا س فیلو چھوٹے تھے مگر بعد میں اس میں بہت مزہ آیا مجھے کتاب سے پیار کرنا استادوں نے سیکھایا مجھے آرمی میں سب سے زیادہ عزت اسی تعلیم کی وجہ سے ملتی ہے جتنی نالج میری ہے کسی کی نہیں ہر مشورہ مجھ سے کیا جاتا ہے۔سب پڑھا لکھا افسر کہتے ہیں اور سب مجھ سے بہت متاثر ہیں ۔

آخر میں میڈم ملاحت نے اپنے خیالات کا اظہار کیا انہوں نے اپنے اساتذہ کو خراج تحسین پیش کیا انہوں نے کہا کہ میری ساری عمر اسی ڈیپارٹمنٹ میں گزری سوائے ۱۸ سال کے مجھے نہیں معلوم کہ ڈیپارٹمنٹ کے بغیر کیسے رہی اور ڈیپارٹمنٹ میرے بغیر کیسا رہا راستہ جب ہی بنتا ہے جب لوگ چلتے ہیں لو گ راستہ صاف کرتے ہیں تو پیچھے آنے والوں کو آسانیاں ملتی ہیں ۔طلبہ کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھا ہم سب ایک راہ کے مسافر ہیں ایک ساتھ سفر کر رہے ہیں انہوں نے سب کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا اور کھانے کی دعوت کا اعلان کیا یوں پروگرام اختتام کو پہنچا۔
Amna Khatoon
About the Author: Amna Khatoon Read More Articles by Amna Khatoon: 17 Articles with 36214 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.