رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بحثیت سپہ سالار، غزوات اور جنگوں کا احوال - 17

پیغمبر اسلام کی بیوی پر تہمت (حدیث افک)
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم جب سفر میں جانا چاہتے (حتیٰ جنگ ک ےلئے سفر میں بھی) تھے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ نکالتے تھے جس کے نام قرعہ نکل آتا تھا اس بیوی کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ غزوہ بنی مصطلق میں جناب عائشہ کے نام قرعہ نکلا آپ انہیں اپنے ساتھ لے گئے۔ جنگ سے واپسی کے وقت جب مدینہ کے قریب پہنچے تو وہیں ٹھہر گئے اور آرام کرنے لگے۔ اسی اثنا میں عائشہ اس بات کی طرف متوجہ ہوئیں کہ ان کا گلوبند گم ہوگیا ہے اس کو ڈھونڈنے کے لئے آپ خیمہ گاہ سے دور چلی گئیں جب واپس پلٹیں تو لشکر اسلام کا قافلہ وہاں سے کوچ کرچکا تھا اور تنہا عائشہ رہ گئیں تھیں۔ ایک متقی اور ایک نیک شخص جس کا نام ”صفوان بن معطل“ تھا وہ لشکر اسلام کے پیچھے پیچھے اطلاعات حاصل کرنے کے لئے چلا کرتے تھے وہاں پہنچے اور جناب عائشہ کو دیکھا کہ وہ وہاں تنہا ہیں۔ نہایت ادب سے وہ اونٹ سے نیچے اترے، اونٹ کو زمین پر بٹھایا اور خود دور کھڑے ہوگئے یہاں تک کہ آپ اونٹ کی پشت پر سوار ہوگئیں انہوں نے اونٹ کی مہار پکڑی اور راستہ میں ایک حرف بھی گفتگو کئے بغیر ان کو مدینہ لے آئے۔ جب یہ لوگ مدینہ پہنچے تو منافقین نے عبداللہ بن ابی کی قیادت میں صفوان اور عائشہ کے بارے میں تہمتیں تراشیں۔ ناواقف ان تہمتوں کو لے اڑے مدینہ میں تہمتوں اور افواہوں کا بازار گرم تھا اور ہر آدمی ایک الگ بات کہتا تھا۔ جناب عائشہ اس تہمت کے غم میں جو بے گناہی کے باوجود ان پر لگایا گیا تھا شدید علیل ہو گئیں، روتی تھیں اور کسی وقت ان کو چین نہ تھا قریب تھا کہ اس موضوع پر فتنہ برپا ہو جائے کہ سورہ نور کی ۱۱ سے ۲۷ تک آیات نازل ہوئیں اور جناب عائشہ کو یہ خوش خبری سنائی گئی کہ خدا تمہاری پاکیزگی پر گواہ ہے۔ (طبری ج۲ ص ۶۱۱)

پھر رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے تہمت لگانے والوں پر حد جاری کی۔ جن لوگوں پر حد جاری کی گئی ان میں حسان بن ثابت اور حمنہ کا نام نظر آتا ہے۔(سیرت ابن ہشام ج۲ ص ۳۰۹)

ابن اسحاق کہتا ہے کہ بعد میں معلوم ہوا کہ صفوان بن معطل دراصل مردانگی ہی سے عاری تھا اور عورتوں کے ساتھ نزدیکی نہیں کرسکتا تھا۔ یہ مرد پارسا کسی جنگ میں شہید ہوگیا۔(حوالہ سابق ج۳ص ۳۱۹)

صلح حدیبیہ کا پیمان۔۔۔ذیقعدہ ۷ ہجری۔۔۔راہ مکہ میں
لشکر اسلام کی پے درپے کامیابی اور مشرکین مکہ کی گوشہ گیری نے پیغمبر کو اس بات پر آمادہ کیا کہ دوسری بار جزیرة العرب میں مسلمانوں کی حیثیت و وقار کے استحکام کے لئے اقدام کریں۔ آپ نے حکم دیا کہ مسلمان سفر حج کے لئے تیار ہو جائیں اور ہمسایہ قبائل جو ابھی تک حالت شرک پر باقی تھے ان سے آپ نے مسلمانوں کے ساتھ اس سفر میں چلنے کی خواہش ظاہر کی۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے عذر پیش کیا اور ساتھ چلنے سے انکار کر دیا۔

اس سفر میں عبادی اور معنوی خصوصیتوں کے علاوہ مسلمانوں کے لئے وسیع اجتماعی اور سیاسی مصلحتیں بھی تھیں۔ اس لیے کہ عرب کے متعصب قبائل نے مشرکین کے غلط پروپیگنڈہ کی بنا پر یہ سمجھ رکھا تھا کہ خانہ کعبہ کےلئے جو سلف کی یادگار اور ان کے افتخار کا مظہر ہے، رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کسی طرح اس کی قدر و منزلت کے قائل نہیں اور اس وجہ سے اسلام کی اشاعت سے شدت کے ساتھ ہراساں تھے۔ اب غلط خیالات کے پردے چاک ہوئے اور انہوں نے دیکھ لیا کہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم حج کو ایک فریضہ واجب جانتے ہیں ایک طرف اگر قریش مانع نہیں ہوئے اور زیارت کعبہ کی توفیق ہوگئی تو یہ مسلمانوں کے لئے بڑی کامیابی ہوگی کہ وہ چند سال کے بعد ہزاروں مشرکین کی آنکھوں کے سامنے اپنی عبادت کے مراسم ادا کریں گے۔ دوسری طرف قریش مسلمانوں کے مکہ میں داخل ہونے سے اگر مانع ہوئے تو اعراب کے جذبات طبعی طور پر مجروح ہو جائیں گے کہ ان لوگوں نے مسلمانوں کو فریضہ حج انجام دینے کے لئے کیوں نہ آزاد چھوڑا۔ یہ سفر چونکہ جنگی سفر نہ تھا اس لیے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ ایک مسافر صرف ایک تلوار اپنے ساتھ رکھے اور بس۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کے لیے70 اونٹ مہیا کئے پھر رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم 1400 مسلمانوں کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور مقام ذوالحلیفہ میں احرام باندھا۔ آپ نے عباد بن بشر کو40 مسلمانوں کے ساتھ ہراول دستہ کے عنوان سے آگے بھیج دیا تاکہ جو راستے میں تھے ان لوگوں کے کانوں تک لشکر اسلام کی روانگی کی خبر پہنچا دیں اور اگر ان لوگوں نے کوئی سازش کی تو اس کی خبر رسول خدا کو دیں۔ (طبقات ابن سعد ج۲ ص ۹۵)

قریش کا مؤقف
جب قریش رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی روانگی سے آگاہ ہوئے تو انہوں نے بتوں (لات و عزیٰ) کی قسم کھائی کہ ان کو مکہ میں آنے سے روکیں گے۔ قریش کے سرداروں نے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو روکنے کے لئے خالد بن ولید کو200 سواروں کے ساتھ مقام ”کراع الغیم“ بھیجا جہاں اس نے مورچے سنبھال لیے۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم قریش کے مؤقف سے آگاہی کے بعد چونکہ یہ چاہتے تھے کہ خونریزی کے ذریعہ اس مہینہ اور حرم کی حرمت مجروح نہ ہو اس لیے آپ نے رہنما سے فرمایا کہ کارواں کو اس راستہ سے لے چلو کہ جس راستہ میں خالد کا لشکر نہ ملے۔ رہنما قافلہ اسلام کو نہایت دشوار گزار راستوں سے لے گیا یہاں تک کہ یہ لوگ مکہ سے22 کلومیٹر دور حدیبیہ کے مقام پر پہنچ گئے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے سب کو یہ حکم دیا کہ یہیں اتر پڑیں اور اپنے خیمے لگا لیں۔ (سیرت ابن ہشام ج۳ ص ۲۲۳)

قریش کے نمائندے پیغمبر کی خدمت میں
قریش نے چاہا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے آخری مقصد سے باخبر ہو جائیں اس لیے انہوں نے اپنی اہم شخصیتوں کو رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بھیجا۔ قریش کی نمائندگی میں پہلے گروپ میں ”بدیل بن خزاعی“ قبیلہ خزاعہ کے افراد کے ساتھ آیا۔ جب وہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے ملا تو آپ نے فرمایا میں جنگ کے لئے نہیں خانہ خدا کی زیارت کےلئے آیا ہوں۔ نمائندے واپس چلے گئے اور انہوں نے یہ اطلاع قریش کو پہنچا دی لیکن قریش نے کہا خدا کی قسم ہم ان کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ خواہ زیارت خانہ خدا ہی کی غرض سے کیوں نہ آئے ہوں۔ دوسرے اور تیسرے نمائندے بھیجے گئے اور انہوں نے بھی بدیل ہی والی رپورٹ پیش کی۔

قریش کے تیسرے نمائندہ حلیس بن علقمہ عرب کے تیر اندازوں کے افسر نے کہا کہ ہم نے ہرگز تم سے یہ معاہدہ نہیں کیا کہ ہم خانہ خدا کے زائرین کو روکیں گے، خدا کی قسم! اگر تم لوگ محمد کو آنے نہ دو گے تو میں اپنے تیر انداز ساتھیوں کے ساتھ تمہارے اوپر حملہ کر کے تمہاری اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا۔ قریش اپنے اندر اختلاف رونما ہونے سے ڈر گئے اور انہوں نے حلیس کو اطمینان دلایا کہ ہم کوئی ایسا راستہ منتخب کریں گے جو تمہاری خوشنودی کا باعث ہوگا۔

قریش کا چوتھا نمائندہ عروة بن مسعود تھا، جس پر قریش اطمینان کامل رکھتے تھے۔ وہ جب رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے ملا تو اس نے اس بات کی کوشش کی کہ اپنی باتوں میں قریش کی طاقت کو زیادہ اور اسلام کی قوت کو کم کرکے پیش کرے اور مسلمانوں کو جھک جانے اور بلاقید و شرط واپس جانے پر آمادہ کرلے لیکن جب وہ واپس گیا تو اس نے قریش سے کہا کہ میں نے قیصر و کسریٰ اور سلطان حبشہ جیسے بڑے بڑے بادشاہوں کو دیکھا ہے مگر جو بات محمد میں ہے وہ کسی میں نہیں ہے۔ میں نے دیکھا کہ مسلمان ان کے وضو کا ایک قطرہ پانی بھی زمین پر گرنے نہیں دیتے وہ لوگ تبرک کے لئے اس کو بھی جمع کرتے ہیں اور اگر ان کا ایک بال بھی گر جائے تو ان کے اصحاب اس کو فوراً تربک کےلئے اٹھا لیتے ہیں۔ لہٰذا اس خطرناک موقع پر نہایت عاقلانہ ارادہ کرنا۔ (سیرت ابن ہشام ج۳ ص ۳۲۵)

رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے سفراء
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ایک تجربہ کار شخص کو جس کا نام ”خراش“ تھا اپنے اونٹ پر سوار کیا اور قریش کے پاس بھیجا لیکن ان لوگوں نے اونٹ کو پئے کر دیا اور نمائندہ پیغمبر کو قتل کرنے کا منصوبہ بنالیا۔ مگر وہ حادثہ تیر اندازان عرب کے ایک دستہ کی وساطت سے ٹل گیا۔ قریش کی نقل و حرکت یہ بتا رہی تھی کہ ان کے سر میں جنگ کا سودا سمایا ہوا ہے۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم مسئلہ کو صلح کے ذریعہ حل کرنے سے مایوس نہیں ہوئے۔ لہٰذا آپ نے قریش کے پاس ایسے شخص کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا جس کا ہاتھ کسی بھی جنگ میں قریش کے خون سے آلودہ نہ ہوا ہو۔ لہٰذا آپ نے عمر بن خطاب کو حکم دیا کہ وہ قریش کے پاس جائیں۔ انہوں نے عذر ظاہر کیا رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے عثمان بن عفان کو جن کی اشراف قریش سے قریب کی رشتہ داری تھی۔ اشراف قریش کے پاس بھیجا۔ عثمان قریش کے ایک آدمی کی پناہ میں مکہ میں وارد ہوئے اور پیغمبر کے پیغام کو قریش کے سربرآوردہ افراد تک پہنچایا۔ انہوں نے پیشکش رد کرنے کے ساتھ عثمان کو بھی اپنے پاس روک لیا اور انہیں واپس جانے کی اجازت نہیں دی۔ مسلمانوں کے درمیان یہ افواہ اڑ گئی کہ قریش نے عثمان کو قتل کر دیا ہے۔(ایضاً ص ۳۲۸،۳۲۹)
۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہوگی
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 112068 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More