آج مجھے فریاد کرنے دو،
واویلا کرنے دو ،
شکایت کرنے دو ،
چِلانے دو،
آنسوبہانے دو ،
چیخنے دوکہ میری چیخوں کو پُوری دنیا سُنے کہ میں مظلوم ہوں ۔
پُوری دنیا میں مظلوم کی آواز کو سُنا جاتا ہے ،
آج دنیا میں اظہار ِآزادئ رائے کی بات کی جاتی مجھے بھی آزادی دی جائے کہ
میں دنیا والوں کو بتا سکوں میرے دشمن نے ازل سے میرے پیچھا کیا کھربہا
کھرب مِیلوں کی پستی میں گِرا یا اور برابر پیچھا کرتا رہا ۔
کوئی تو بتائے میں نے اسکا بگاڑا کیا ؟ میں نے اسکے ساتھ کونسی زیادتی کی ؟
میں اپنے منزل کی طرف جانا چاہتا تھا منزل سے ہٹایا ۔
۔ میں اجنبی بن کہ رہنا چاہتا تھاکہ میرے محسن نے فرمایا : كن في الدنيا
كأنك غريب أو عابر سبيل(دنیا میں ایک اجنی یا رہ گُزر نے والے کی طرح رہ)
مجھے اجنبی بن کر رہنے سے عار دِلایا :یہ کہہ کر کہ تیرا کوئی سٹیٹس ہو
تاکہ لوگوں کی نظریں تجھ پر گڑھی رہیں۔
میں ایک مسافر کی طرح زندہ رہنا چاہتا تھا ۔ لیکن بد بخت نے دھوکھا دیا ۔
میں اپنا مقصدِ حیات حاصل کرنا چاہتا تھا ، مجھے مقصد سے ہٹایا ۔
منزل ِ مقصود (قبر) سے روزانہ بلا مبالغہ تین سے چار بار گُزرتا (اگر قسم
اٹھاؤں تو حانث نہ ہونگا ) اور اسکی تیاری کرنا چاہتا تھا آپﷺ کا فرمان
میرے سامنے تھا القَبْرُ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الجَنَّةِ أَوْ حُفْرَةٌ
مِنْ حُفَرِ النَّارِ(قبر یا تو جنت کا باغ ہے یا دوذخ کا گڑھا) لیکن
آنکھوں پہ پردہ ڈال دیتا۔
روزانہ پانچ بار ایک آواز دینے والےکی آواز سُنتا ، یہ کہکر اُس آواز سے
میری توجہ ہٹاتا بھئی روز یہ آواز سُن سُن کر تو تھک گیا ہے تھوڑا آرام کر
تونے بہت سارے کام کرنے ہیں ۔
میں گناہوں سے بچنا چاہا کہ مجھے یہ آیت(إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَاد ِ
تیرارب تیرے تاک میں ہے) صدا دے رہی تھی اللہ کی ذات سے ڈرا رہی تھی ، میں
اس ازلی دشمن کے دھوکھے میں آگیا اور منہ کالا کر بیٹھا ۔
لوگو آؤ !میری بدبختی پر تھوڑا آنسو تم بھی بہا لو آہ و بُکا تم بھی کرو
شاید اس آہ و بُکا کا شُور سُن کر دنیا والے اس ظالم کا درگت بنائیں۔
میں دنیا میں رہ کر آنے والی زندگی کو سُدھارنا چاہتا تھا کہ یہ آیت وَلَا
تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ
زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ ۚ وَرِزْقُ رَبِّكَ
خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ( اور تو اپنی نظر ان چیزو ں کی طرف نہ دوڑا جو ہم نے
مختلف قسم کے لوگوں کو دنیاوی زندگی کی رونق کے سامان دے رکھے ہیں تاکہ ہم
انہیں اس میں آزمائیں او رتیرے رب کا رزق بہتر اور دیرپا ہے) میرے سامنے
تھی ۔
مگر مجھے یہ کہکر ورغلایا : ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا ءَاِنَّا
لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِيْدًا(کیا جب ہم ہڈیاں اور چورا ہو جائیں گے
پھر نئے بن کر اٹھیں گے)۔
دنیا والے اپنے اپنے دشمنوں کا رونا روتے ہیں ، آواز بلند کرتے ہیں لوگ
اکٹھے ہوجاتے ہیں، جبکہ دنیا والے اپنے اپنے دشمنوں سے شکست کھا جائیں تو
اس شکست کے خاتمے کی امید ہوتی ہے۔ مجھے جس دشمن کا سامنا ہے اگر میں اس سے
شکست کھا گیا تو کھبی بھی فتح کی امید نہیں کھبی بھی فتح کی امید نہیں۔
ہے نا مجھے سب سے بڑے دشمن کا سامنا ؟
اب تو بنتاہے کہ لوگ میرے دشمن سے نمٹنے کیلئے میرا ساتھ دیں اور نہیں تو
کم از کم میرے رونے میں شریک ہوں ، دو چار آنسو ہی صحیح ، مگر کوئی بھی اس
کارِے خیر سے محروم نہ ہو ۔
جس نے مجھے برباد کیا ۔
تباہی کے کنارے کھڑا کیا ۔
آگ کے عین دَہانے پہ لاکھڑا کیا ۔
اللہ کی نارضگی کا تغمہ دِلایا ۔
اپنے مالک کا مبغوض بنانے کی کوئی کوشش ہاتھ سے نہ جانے دی ۔
دنیا والو ! میرا دشمن جسکے ظلم کا میں شکار ہوں اگر نہیں سمجھے تو سُنو!
وہ وہ ہے جسکا اعلانِ لم یزل میرے ربنے اپنے لاریب کتاب کے اندر یہ کہکر
فرمایا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ۚ
إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ( بے شک
شیطان تمہارا دشمن ہے اسے دشمن ہی پکڑو، بے شک شیطان اپنے لشکر کو پُکارتا
ہے تاکہ وہ دوذخ والوں میں سے ہو جائیں ) |