مکہ مکرمہ: مناسک حج کا آغاز…… لاکھوں مسلمان حج ادا کریں گے

حج اسلام کا پانچواں رکن ہے۔ عاقل، بالغ اور صاحب استطاعت مسلمانوں پر زندگی میں ایک مرتبہ حج بیت اﷲ فرض ہے۔ حکم خداوندی کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے ہر سال دنیا بھر سے مسلمان جوق در جوق بیت اﷲ کا رخ کرتے ہیں۔ پہلے سفر کی سہولیات میسر نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اونٹ، گھوڑوں اور پیدل سفر کر کے حج کے لیے آیا کرتے تھے، لیکن اب ہوائی سفر کی وجہ سے حاجیوں کا مکہ تک کا سفر بہت آسان ہو گیا ہے اور پوری دنیا سے لوگ فریضہ حج ادا کرنے آتے ہیں۔ نتیجتاً حاجیوں کی تعداد مسلسل بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ 1950ء سے قبل ہر سال دوران حج ایک لاکھ افراد حج کے لیے آتے تھے، لیکن آج یہ تعداد تیس لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ ماہرین کے مطابق 2030ء تک ہر سال پچاس لاکھ افراد حج کرنے آیا کریں گے۔ اس وقت دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد سوا دو ارب ہوگی، جبکہ اب ان کی آبادی ایک ارب ساٹھ کروڑ ہے۔ حج دنیا کا سب سے بڑا اجتماع ہے۔ حج سیکورٹی، حفاظت، صحت و علاج، نقل و حمل، رہائش اور کھانے پینے کی چیزوں کی فراہمی کے حوالے سے سعودی حکام کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بھی ہے۔ ہر سال عازمین حج کی اتنی بڑی تعداد کے لیے خوراک، رہائش، نکاسی آب اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے سعودی حکومت کو تیار رہنا پڑتا ہے اور سعودی حکومت عازمین کے لیے غیر معمولی انتظامات کرتی ہے۔ دنیا بھر سے فریضہ حج کی ادائی کے لیے عازمین حج کی حجاز مقدس آمد جاری و ساری ہے۔ مسجد حرام عازمین حج سے کھچا کھچ بھر رہی ہے اور فرزندان توحید بیت اﷲ کے طواف میں مصروف ہیں۔ مسجد حرام میں مقامی نمازیوں اور اندرون اور بیرون ملک سے آئے عازمین حج کے رش میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ سعودی حکومت کے مطابق عازمین حج کی رہ نمائی اور ان کی ہر ضرورت پوری کرنے کے لیے تسلی بخش انتظامات کیے گئے ہیں۔ حجاج کرام کی خدمت پر مامور رضاکار اور سیکورٹی ادارے چوکس ہیں اور پوری تن دہی سے اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں۔

سعودی عرب میں حج کے موقع پر سیکورٹی کے انتظامات مکمل کرلیے گئے ہیں۔ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے ایک لاکھ سے زاید اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے، جبکہ ایلیٹ فورس، ٹریفک اہلکار اور سول ڈیفینس کے اہلکاروں کو بھی فرائض سونپے گئے ہیں۔ سعودی عرب میں فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے دنیا بھر سے مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ مکہ مکرمہ میں مناسک حج کا آغاز آج سے ہورہا ہے۔ رواں برس 30 لاکھ کے قریب مسلمان حج کی سعادت حاصل کریں گے۔ سعودی حکام نے گزشتہ برس ہونے والے سانحہ منیٰ کے پیش نظر اس سال سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے ہیں۔ سیکورٹی کی ذمہ داری کے لیے ایک لاکھ سے زاید اہلکاروں کو چوکنا کردیا گیا ہے۔ عازمین حج کے ساتھ 30 ہزار سے زاید ڈاکٹرز اور طبی عملہ بھی مکمل طور پر تیار ہے۔ روزانہ 100ہیلی کاپٹرز کی پروازوں کے ذریعے حج کے مقامات کی نگرانی کی جائے گی۔ 5ہزار کلوز سرکٹ کیمرے نصب کیے گئے ہیں، حاجیوں کی مدد کے لیے ہیلپ لائن بھی قائم کی گئی ہے۔ 25 ہسپتالوں میں 5 ہزار دوسو بستر لگائے گئے ہیں، جبکہ 141 ہیلتھ سینٹرز اور 100سے زاید ایمبولینس کسی بھی ایمرجنسی کے لیے تیار ہیں، آگ بجھانے والے 450 یونٹ اور 3ہزار سے زاید بھاری مشینری کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے موجود ہے۔ ذرائع کے مطابق سعودی عرب میں سیکورٹی کے غیر معمولی اور سخت حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں اور مکہ، منیٰ، مزدلفہ، عرفات سمیت دیگر اہم مقامات کی سیکورٹی پر ایک لاکھ سے زاید اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ سخت سیکورٹی کے باعث ہی بغیر اجازت کے آنے والے ایک لاکھ کے لگ بھگ افراد کو واپس بھیجا جا چکا ہے۔مکہ مکرمہ پولیس کے ڈائریکٹر میجر جنرل سعید القرنی کا کہنا ہے کہ اب تک مختلف چیک پوائنٹس سے ایک لاکھ 88 ہزار 747 غیر مجاز افراد کو واپس کیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ان افراد نے حج کے اجازت ناموں کے بغیر مکہ مکرمہ میں حج کے لیے داخل ہونے کی کوشش کی تھی۔ میجر جنرل سعید القرنی کا مزید کہنا تھا کہ 84965 گاڑیوں نے غیر قانونی طور پر مکہ میں داخل ہونے کی کوشش کی، مگر انھیں شہر میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ ان کے علاوہ غیرقانونی طور پر اور کسی قسم کی دستاویزات کے بغیر حج کے لیے افراد کو لانے والی 48 منی بسوں کو ضبط کر لیا گیا ہے۔ سعید القرنی نے کہا کہ معمول کی معائنے کی کارروائیوں کے دوران 22 جعلی حج مہموں کا سراغ لگایا گیا ہے۔مکہ مکرمہ کے ارد گرد حج کے لیے غیر قانونی طور پر آنے والے افراد کے داخلے کو روکنے کے لیے 109 سیکورٹی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ سعودی حکومت سیکورٹی کے علاوہ بھی حاجیوں کو تمام سہولیات فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کرتی ہے اور اس حوالے سے نت نئے اقدامات بھی کرتی رہتی ہے، تاکہ عازمین آسانی سے حج ادا کرسکیں۔ سعودی عرب کی حکومت کے زیراہتمام مسجد حرام اور مسجد نبوی کے امور کے ذمہ دار ادارے کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ مسجد حرام میں دوران حج حجاج کرام کو موبائل فون چارج کرنے کی منفرد سہولت مہیا کی گئی ہے۔ شاہ فہد بن عبدالعزیز کے دور میں توسیع شدہ مسجد کے حصے میں تمام منزلوں میں آٹھ آٹھ پلگوں پر مشتمل بجلی کے بورڈ نصب کیے گئے ہیں، جہاں سے حجاج کرام اپنے موبائل فون با آسانی ری چارج کرسکیں گے۔ موبائل چارچنگ کا سسٹم خود کار طریقے سے عمل کرتا ہے۔ موبائل فون کو دیوار کے ساتھ لٹکا کر یا اسٹینڈ پر رکھ کر چارج کیا جاسکتا ہے۔ چارجنگ سسٹم LED بیکلیٹ (BackLit) سسٹم سے لیس ہے، جس کی مدد سے یہ معلوم کرنا آسان ہے کہ آیا یہ سسٹم کیسے کام کرتا ہے۔سعودی عرب کی جانب سے عازمین حج کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔گزشتہ سال کرین کا حادثہ پیش آنے کے بعد سے ایران کی جانب سے سعودی انتظامات پر انگلی اٹھائی جاتی ہے، اس سال بھی ایران نے سعودی عرب سے حج انتظامات میں شراکت کا مطالبہ کیا ہے جو کسی طور بھی درست نہیں ہے کیونکہ سعودی عرب ایک عرصے سے حاجیوں کی خدمت کرتا آرہا ہے، اس دواران اگر کبھی ایک آدھ بار کوئی حادثہ پیش آجاتا بھی ہے تو اس کو سعودی حکومت پر ڈالنا درست نہیں ہے، کیونکہ کبھی کبھار ایسے واقعات تو رونما ہوہی جاتے ہیں۔ گزشتہ چند دہائیوں میں سعودی حکومت کی طرف سے خانہ کعبہ کے توسیعی منصوبوں کے نتیجہ میں حجاج کرام کو جو سہولتیں مہیا کی گئیں، ان کو عالم اسلام میں سراہا گیا۔ توسیع کے کام کی وجہ سے سعودی عرب نے عازمین حج کی تعداد بھی محدود کی ہے۔ 2011ء میں تیس لاکھ افراد نے سنت ابراہیمی ادا کی تھی، جبکہ اس کے بعد بیرونی حجاج کی 20 فیصد اور مقامی حجاج کی تعداد میں 50 فیصد کمی کی گئی تھی، جس کا مقصد توسیعی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا۔ تعمیراتی کام مکمل ہونے کے بعد مسجد کے علاقے میں چار لاکھ مربعہ میٹر اضافہ ہوجائے گا۔ 2011ء سے مسجد الحرام کا توسیعی منصوبہ شروع ہوا۔ اس کے ذریعے مطاف(خانہ کعبہ کے صحن )کا رقبہ ساڑھے تین لاکھ سے بڑھ کر ساڑھے سات لاکھ مربع میٹر ہو جائے گا۔ پورا منصوبہ 2020 ء میں ختم ہو گا۔ دراصل دنیا بھر سے مسلمان چند گھنٹے قیام کرنے کی خاطر مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ نہیں آتے، وہ کئی دن بلکہ ہفتوں قیام کرتے ہیں۔ چناں چہ انہیں رہائش، غذا، صفائی اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات درکار ہوتی ہیں۔ انہیں یہ سہولیات مہیا کرنے کی غرض سے مکہ مکرمہ اور مدینہ میں ہوٹلوں، مہمان خانوں اور ریستورانوں کا جال بچھ چکا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کا حج کوٹہ ایک لاکھ 79 ہزار 210 افراد پر مشتمل تھا، جو 2013ء سے حرم کی توسیع کی وجہ سے 20 فیصد کمی کے بعد ایک لاکھ 43 ہزار 368 کردیا گیا۔ 2016ء میں یہی کوٹہ برقرار ہے۔ حج 2016ء کا نفاذ 60 فیصد (86,021) کے تناسب سے گورنمنٹ سکیم اور 40 فیصد (57347) پرائیویٹ سکیم، پرائیویٹ گروپ آرگنائزر کی وساطت سے پایا تکمیل کو پہنچنا قرار پایا۔ پاکستانی حجاج کے لیے بھی حج کمیشن نے اس سال بھرپور انتظامات کیے ہیں، تقریبا سارے حاجیوں کو پچھلے سال کی طرح حرمین کے انتہائی قریب رہائشیں فراہم کی گئی ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل حج ڈاکٹرساجد یوسفانی کا کہنا تھا کہ امسال جو عازمین حج براہ راست مدینہ منورہ تشریف لائے ہیں،وہ حج کی ادائیگی کے بعد جدہ کے کنگ عبد العزیز انٹرنیشنل ائیرپورٹ سے واپس جائیں گے، اسی طرح جو عازمین حج جدہ ائیرپورٹ سے مکہ مکرمہ پہنچے ہیں، ان کی واپسی مدینہ منورہ ائیرپورٹ حج ٹرمینل سے ہو گی، اس طرح حجاج دوطرفہ سفر سے بچ جائیں گے۔ امسال مدینہ منورہ میں تمام حجاج کو رہائش مرکزیہ کے علاقے میں فراہم کی گئی۔ اسی طرح پوسٹ حج مدینہ منورہ جانے والے تمام حجاج کو بھی مرکزیہ کے علاقے میں رہائش دی جائے گی، جبکہ مکہ مکرمہ میں العزیزیہ کے علاقے میں زیادہ بڑی اور بہتر تمام سہولتوں سے آراستہ عمارتیں لی گئی ہیں۔ گزشتہ سال کے تجربے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے امسال حجاج کو کھانے کی فراہمی میں معیار کو ترجیح دی گئی ہے اور پاکستانی طرز کے پکوان سے استفادہ کیا گیا ہے، خاص طور پر تندور کی بنی روٹیاں ، مرغی کا سالن اور گوشت بھی مینو میں شامل کیا گیا ہے۔ وزارت کے ترجمان اور جوائنٹ سیکرٹری (انتظامیہ ) نور زمان کے مطابق گزشتہ سال کی تجاویز کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بار کھانے، رہائش اور ٹرانسپورٹ پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ عازمین حج کو پاکستانی معیار کے مطابق تازہ کھانا بلا تاخیر مہیا کیا جا رہا ہے۔ اس مقصد کیلئے خصوصی ٹیمیں ڈاکٹر کے ہمراہ رہائش گاہوں اور کچن پر جا کر کھانے کے معیار کو یقینی بنارہی ہیں۔ اس سال بھی عازمینِ حج کو نئے ماڈل کی بسوں کی فراہمی یقینی بنائی گئی ہے۔ترجمان کا کہنا تھا کہ وزارتِ مذہبی امور کے اعلیٰ حکام سے لے کر ملازمین تک سبھی عازمین حج کو بہتر سے بہتر سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے پر عزم ہیں۔ اس سلسلے میں کسی فرد یا ادارے کی کوتاہی ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی۔ ترجمان نے کہا کہ وزارت نے پاکستان اور سعودی عرب میں کسی بھی قسم کی مشکل یا پریشانی کی صورت میں مدد یا رہنمائی کیلئے ہیلپ لائنیں اور حج انکوائری سیل قائم کئے ہیں جو 24 گھنٹے کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں، اس کے علاوہ وزارت کی ویب سائٹس اور فیس بک پیج پر بھی بیشتر معلومات اور رہنمائی مہیا کی گئی ہیں۔ دوسری جانب یہ افسوس ناک خبر بھی ہے کہ سرکاری اسکیم کے ذریعے حج کا فریضہ انجام دینے والے29 پاکستانی عازمین حج وفات پا گئے۔ حج مشن ہسپتالوں میں زیر علاج مریضوں کی تعداد 1234 ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ 340 مریض عازمین سعودی عرب کے ہسپتالوں میں منتقل کر دیے گئے جب کہ اب تک سرکاری اسکیم کے تحت 71 ہزار 512، جبکہ پرائیویٹ اسکیم کے تحت 62 ہزار 908 عازمین سعودی عرب پہنچ چکے ہیں۔ عازمین کے سامان گم ہونے کے حوالے سے اب تک 530 شکایات درج کی گئیں، جن میں سے 494 شکایات کا ازالہ کرتے ہوئے عازمین کا سامان واپس دلوا دیا گیا، جبکہ 24 شکایات پر کارروائی جاری ہے۔ سعودی عرب میں موجود وفاقی حکومت کے اعلیٰ حکام کو خوراک کا معیار بہتر نہ ہونے کی 62 اور تاخیر سے کھانا ملنے کے سلسلے میں کچھ شکایات موصول ہوئی ہیں۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 631059 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.