مدینہ طیبہ کی عظمت

مدینہ طیبہ کائنات ارض و سماوات کا وہ نگینہ ہے جہاں ہر لمحہ آسمان سے رحمت کی رم جھم برستی ہے۔ اس کا پرانا نام یثرب تھا۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شہر میں سکونت فرمائی تو اس کا نام "مدینۃ النبی" [نبی کا شہر] ہوگیا۔تاریخی حیثیت سے یہ بہت پرانا شہر ہے۔

شہر نبی جس کی قسمیں رب ذوالجلال کھائے اس کے فضائل و محاسن یقیناً انسان کے ادراک سے کہیں زیادہ ہیں۔ فیض و برکات کا اندازہ لگانا انسان کے بس کی بات نہیں۔ حضرت انس بن مالک سے روایت ہے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ، "اے اللہ مدینہ طیبہ کو مکہ مکرمہ سے دو گنا اور دو چند فیوض و برکات سے نواز"۔ جس طرح سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ اسلام نے وادی ام القریٰ یعنی مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیا اسی طرح تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نےمدینہ طیبہ کو حرم کا رتبہ دیا۔ یوں ارض مدینہ طیبہ حرم نبوی شریف بن کر بلدالسلام اور بلدالایمان قرار پائی۔یہ دعا مقبول کا اثر تھا کہ یثرب کی آلودگیاں اور آلائش دھل گئیں اور خود رب ذوالجلال سبحانہ تعالیٰ نے اس کا نام "طیبہ" اور "طابہ" رکھ دیا۔[جس کا مطلب "پاک کر دیا" اور "طاہر و خوشبودار"ہے]

حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک آتے ہی یہ شہر "مدینہ النبی"کہلانے لگ گیا اور پھر"مدینہ المنورہ" ہو گیا۔حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں،"جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی معیت میں مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس شہر کا حسن و جمال ایسے چمک اٹھا جیسا کہ پہلے کبھی بھی نہیں تھا۔فرمان رب کریم ہے،ترجمہ"اے نبی ہم نے آپ کو شاہد بنا کر اور خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والے کے طور پربھیجا اور اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا اور چمکتا ہوا اور دوسروں کو منور کرنے والا چراغ بنا کر بھیجاہے"۔

اسی "سراج منیر "کے دائمی اور ابدی انوار و تجلیات سے مدینہ طیبہ منور ہو گیا۔ یثرب کی ظلمتیں قصہ پارینہ ہو گئیں اور یہ بلد روشن و تاباں ہو گیا۔شہر نبی سے ہر لحظہ انوار الہیہ کے کثیرالجہتی اور مافوق ادراک سوتے پھوٹتے ہیں۔ وجہ ہے کہ حرم نبوی شریف ہونے کی وجہ سے اسے تقدس اور تفاخر کا وہ مقام ملا ہے کہ یہاں کی ہر چیز واجب الاحترام ٹہری ہے۔اس کے درختوں کے پتے نہیں توڑے جاسکتے،اس ارض مقدس میں شکار کی بھی ممانعت ہے۔ کیونکہ یہاں کے چرند پرند حرم نبی کی امان میں ہیں اور یہاں کی ہوائیں اور فضائیں بھی پاک ہیں اور غبار و تراب بھی شفابخش ہیں۔

صفحہ ہستی پر مدینہ طیبہ ایک ایسا مقدس بقعہ نور ہے جہاں ہر لحظہ ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں قدسی عشاق رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا درود وسلام لے کر کرہ ارض کے کونے کونے سے حاضر ہوتے ہیں۔ ہماری کثیف آنکھیں چونکہ ان قدسیوں کی موجودگی کا مشاہدہ نہیں کر پاتیں اس لئے ان کی تعداد اور ان کی حاضری ہمارے فہم و ادراک سے ماورا ہے۔

صدیوں سے ذہنوں میں چند سوالات اٹھتے رہے ہیں جنکا جواب ندارد۔ کیا پورے کائنات میں حجرہ مطہرہ کے علاوہ کوئی اور بقعہ مبارکہ ہے جہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تا بہ ابد محو استراحت ہیں؟ کیا مدینہ طیبہ کے علاوہ کوئی اور بقعہ ارض بھی ہے جہاں جنت کے باغوں میں سے ایک باغ [ریاض الجنہ] ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے اور جہاں محشر حوض کوثر سجایا جائے گا جس کے کنارے بیٹھ کر شافع محشر صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے عاصیوں کی شفاعت فرمائیں گے؟ مدینہ طیبہ کے علاوہ کیا کوئی اور بھی مقام ہےجہاں جبل احد ہے جو نہ صرف جنت کے دروازے پر واقع ایک پہاڑ ہے بلکہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرتا ہو اور جس سے تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم خود محبت فرماتے ہوں؟کیا مدینہ طیبہ کے علاوہ اور بھی کہیں وادی عقیق ہے جو جنت کی وادیوں میں سے ایک وادی ہے؟ کیا ارض طیبہ کے علاوہ کہیں اور بھی مسجد قبا واقع ہے جہاں کی دو رکعت نماز آپ کے مکمل عمرے کا ثواب دے سکتی ہو؟اگر مسجد قبا کی یہ فضیلت ہے تو مسجد نبوی شریف میں دوگانہ نماز ادا کرنے کا کیا صلہ ملے گا؟ اس کا اندازہ عقلمند انسان خود کر سکتا ہے۔

حدیث پاک ہے ،"میری مسجد میں ایک نماز پڑھنا دوسری کسی مسجد میں ہزار نمازیں پڑھنے سے بہتر ہے سوائے مسجد الحرام کے،یہاں ایک نماز جمعہ کی ادائیگی دوسری مساجد میں ہزار جمعہ ادا کرنے سے بہتر ہے سوائے مسجد الحرام کے اور میری اس مسجد میں ایک ماہ کے روزے رکھنا دوسری مساجد میں ہزار ماہ کے صیام سے بہتر ہے سوائے مسجد الحرام کے"۔

قرآن کریم کو عملی طور پر نافذ کرنے اور اس کی تعلیمات کو عملی جامہ پہنانے کا مرحلہ بھی مدینہ طیبہ میں ہی سر ہوا۔ چونکہ اسی ارض مقدس میں دولت اسلامیہ قائم ہوئی جہاں شہنشاہ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم دربار رسالت لگایا کرتے تھے اس لئے عاصمتہ الاسلام ہونے کا شرف بھی مدینہ منورہ ہی کے حصے میں آیا۔

مدینہ طیبہ کی دینی و دنیوی عظمت، فضیلت اور اہمیت پر ان گنت مضامین اور کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں مشاہیر آئمہ کرام سے لے کر ناقدین تک سب نے خامہ فرسائی کی ہے ان سب کا احاطہ کرنا محال ہے۔ اس شہر حبیب کو ننانوے ناموں سے پکارا گیا ہے۔کرہ ارضی کا کوئی شہر اسمائے گرامی کے تعداد اور تکاثر میں مدینہ طیبہ کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ احادیث مبارکہ میں مدینہ طیبہ کے اتنے فضائل بیان ہوئے ہیں کہ تقریباً تمام کی تمام کتب احادیث نے فضائل مدینہ منورہ سے الگ الگ باب قائم کئے ہیں جو اس کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔