تاریخ گواہ ہے کہ ایک عرصہٴ دراز سے عورت
مظلوم چلی آرہی تھی۔ یونان میں، مصر میں، عراق میں، ہند میں، چین میں، غرض
ہرقوم میں ہر خطہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی، جہاں عورتوں پر ظلم کے پہاڑ
نہ ٹوٹے ہوں۔ لوگ اسے اپنے عیش وعشرت کی غرض سے خریدوفروخت کرتے ان کے ساتھ
حیوانوں سے بھی بُرا سلوک کیاجاتاتھا؛ حتی کہ اہلِ عرب عورت کے وجود کو
موجبِ عار سمجھتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔ ہندوستان میں
شوہر کی چتا پر اس کی بیوہ کو جلایا جاتا تھا ۔ واہیانہ مذاہب عورت کو گناہ
کا سرچشمہ اور معصیت کا دروازہ اور پاپ کا مجسم سمجھتے تھے۔ اس سے تعلق
رکھناروحانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔ دنیا کے زیادہ تر تہذیبوں
میں اس کی سماجی حیثیت نہیں تھی۔ اسے حقیر وذلیل نگاہوں سے دیکھاجاتا تھا۔
اس کے معاشی وسیاسی حقوق نہیں تھے، وہ آزادانہ طریقے سے کوئی لین دین نہیں
کرسکتی تھی۔ وہ باپ کی پھر شوہر کی اور اس کے بعد اولادِ نرینہ کی تابع اور
محکوم تھی۔ اس کی کوئی اپنی مرضی نہیں تھی اور نہ ہی اسے کسی پر کوئی
اقتدار حاصل تھا؛ یہاں تک کہ اسے فریاد کرنے کا بھی حق حاصل نہیں تھا۔
اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ بعض مرتبہ عورت کے ہاتھ میں زمام اقتدار بھی
رہا ہے اور اس کے اشارے پر حکومت وسلطنت گردش کرتی رہی ہے، یوں تو خاندان
اور طبقے پر اس کا غلبہ تھا؛ لیکن بعض مسائل پر مرد پر بھی ایک عورت کو
بالادستی حاصل رہی، اب بھی ایسے قبائل موجود ہیں، جہاں عورتوں کا بول بالا
ہے؛ لیکن ایک عورت کی حیثیت سے ان کے حالات میں زیادہ فرق نہیں آیا، ان کے
حقوق پر دست درازی جاری ہی رہی اور وہ مظلوم کی مظلوم ہی رہی۔
(مسلمان عورت کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ، سید جلال الدین عمری،
مطبع ادارہٴ تحقیق وتصنیفِ ا سلامی، مارچ۱۹۸۶ء،ص:۱۵)
لیکن اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے عورت پر احسان عظیم کیا اور اس کو ذلت
وپستی کے گڑھوں سے نکالا جب کہ وہ اس کی انتہا کو پہنچ چکی تھی، اس کے وجود
کو گو ارا کرنے سے بھی انکار کیا جارہا تھا تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ
وسلم رحمة للعالمین بن کر تشریف لائے اور آپ نے پوری انسانیت کو اس آگ کی
لپیٹ سے بچایا اور عورت کو بھی اس گڑھے سے نکالا۔ اور اس زندہ دفن کرنے
والی عورت کو بے پناہ حقوق عطا فرمائے اور قومی وملی زندگی میں عورتوں کی
کیا اہمیت ہے، اس کو سامنے رکھ کر اس کی فطرت کے مطابق اس کو ذمہ داریاں
سونپیں۔
مغربی تہذیب بھی عورت کوکچھ حقوق دیتی ہے؛ مگر عورت کی حیثیت سے نہیں؛ بلکہ
یہ اس وقت اس کو عزت دیتی ہے، جب وہ ایک مصنوعی مرد بن کر ذمہ داریوں
کابوجھ اٹھانے پر تیار ہوجائے؛ مگر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کالایا
ہوا دین عورت کی حیثیت سے ہی اسے ساری عزتیں اور حقوق دیتا ہے اور وہی ذمہ
داریاں اس پر عائد کی جو خودفطرت نے اس کے سپرد کی ہے۔
( اسلام میں عورت کامقام، مرتبہ: ثریابتول علوی، اسلامک بک فاوٴنڈیشن، نئی
دہلی ۱۹۹۳ء، ص: ۱۵)
عام طور پر کمزور کو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے کافی محنت وکوشش کرنی پڑتی
ہے۔ تب کہیں جاکر ان کو ان کے جائز حقوق ملتے ہیں، ورنہ تصور بھی نہیں کیا
جاتا ۔ موجودہ دور نے اپنی بحث وتمحیص اور احتجاج کے بعد عورت کے کچھ
بنیادی حقوق تسلیم کیے اوریہ اس دور کا احسان مانا جاتا ہے؛ حالاں کہ یہ
احسان اسلام کا ہے، سب سے پہلے اسی نے عورت کو وہ حقوق دیے جس سے وہ مدتِ
دراز سے محروم چلی آرہی تھی۔ یہ حقوق اسلام نے اس لیے نہیں دیے کہ عورت اس
کامطالبہ کررہی تھی؛ بلکہ اس لیے کہ یہ عورت کے فطری حقوق تھے اور اسے ملنا
ہی چاہیے تھا ۔ اسلام نے عورت کا جو مقام ومرتبہ معاشرے میں متعین کیا، وہ
جدید وقدیم کی بے ہودہ روایتوں سے پاک ہے، نہ تو عورت کوگناہ کا پُتلا بنا
کر مظلوم بنانے کی اجازت ہے اور نہ ہی اسے یورپ کی سی آزادی حاصل ہے۔
( اسلام میں عورت کامقام، مرتبہ: ثریابتول علوی، اسلامک بک فاوٴنڈیشن، نئی
دہلی ۱۹۹۳ء، ص: ۲۹۔۳۰)
یہاں پر ان حقوق کاذکر کیاجاتا ہے جو اسلام نے عورت کو دیے؛ بلکہ ترغیب و
ترہیب کے ذریعہ اسے ادا کرنے کا حکم بھی صادر کیا۔
عورتوں کو زندہ رکھنے کاحق
عورت کا جو حال عرب میں تھا وہی پوری دنیا میں تھا؛ عرب کے بعض قبائل
لڑکیوں کودفن کردیتے تھے۔ قرآن مجید نے اس پر سخت تہدید کی او راسے زندہ
رہنے کا حق دیا اور کہا کہ جو شخص اس کے حق سے روگردانی کرے گا، قیامت کے
دن خدا کو اس کاجواب دینا ہوگا۔ فرمایا:
وإذا الموٴدةُ سُئِلَتْ․ بأیِ ذنبٍ قُتِلَتْ (التکویر: ۸۔۹)
اس وقت کو یاد کرو جب کہ اس لڑکی سے پوچھا جائے گا جسے زندہ دفن کیاگیا تھا
کہ کس جرم میں اسے مارا گیا۔
ایک طرف ان معصوم کے ساتھ کی گئی ظلم وزیادتی پر جہنم کی وعید سنائی گئی تو
دوسری طرف ان لوگوں کوجنت کی بشارت دی گئی۔ جن کادامن اس ظلم سے پاک ہو او
رلڑکیوں کے ساتھ وہی برتاوٴ کریں جو لڑکوں کے ساتھ کرتے ہیں اور دونوں میں
کوئی فرق نہ کریں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کی لڑکی ہو وہ نہ تو
اسے زندہ درگور کرے اور نہ اس کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرے اور نہ اس پر
اپنے لڑکے کو ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔
( ابوداوٴد، باب فضل من عال یتامی، ابوداوٴد سلیمان بن الاشعث السجستانی،
مکتبہ معارف للنشر والتوزیع، ص:۹۳۰)
عورت بحیثیتِ انسان
اسلام نے عورت پر سب سے پہلا احسان یہ کیا کہ عورت کی شخصیت کے بارے میں
مرد وعورت دونوں کی سوچ اور ذہنیت کو بدلا۔ انسان کے دل ودماغ میں عورت کا
جو مقام ومرتبہ اور وقار ہے اس کو متعین کیا۔ اس کی سماجی، تمدنی، اور
معاشی حقوق کا فرض ادا کیا۔ قرآن میں ارشاد ربانی ہے :
خلقکم من نفسٍ واحدةٍ وخَلَقَ منہا زوجَہا (النساء: ۱)
اللہ نے تمہیں ایک انسان (حضرت آدم) سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو
بنایا۔
اس بنا پر انسان ہونے میں مرد وعورت سب برابر ہیں۔ یہاں پر مرد کے لیے اس
کی مردانگی قابلِ فخر نہیں ہے اور نہ عورت کے لیے اس کی نسوانیت باعثِ عار۔
یہاں مرد اور عورت دونوں انسان پر منحصر ہیں اور انسان کی حیثیت سے اپنی
خلقت اور صفات کے لحاظ سے فطرت کا عظیم شاہکار ہے۔ جو اپنی خوبیوں اور
خصوصیات کے اعتبار سے ساری کائنات کی محترم بزرگ ترین ہستی ہے۔ قرآن میں
ارشاد ربانی ہے کہ
وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِیْ الْبَرِّ
وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُم مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلٰی
کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلاً
(سورہ بنی اسرائیل: ۷۰)
ہم نے بنی آدم کو بزرگی وفضیلت بخشی اور انھیں خشکی اور تری کے لیے سواری
دی۔ انھیں پاک چیزوں کا رزق بخشا اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سی چیزوں پر
انھیں فضیلت دی۔
اورسورہ التین میں فرمایا:
لَقَدْ خَلَقْنَا الاِنْسَانَ فِی اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ
(التین: ۴)
ہم نے انسان کو بہترین شکل وصورت میں پیدا کیا۔
چنانچہ آدم کو جملہ مخلوقات پر فضیلت بخشی گئی اور انسان ہونے کی حیثیت سے
جو سرفرازی عطا کی گئی اس میں عورت برابر کی حصے دارہے۔
( اسلام میں عورت کا مقام ومرتبہ، ثریا بتول علوی، اسلامک بک فاوٴنڈیشن،
نئی دہلی ۱۹۹۳ء، ص: ۳۱)
عورتوں کی تعلیم کا حق
انسان کی ترقی کا دارومدار علم پر ہے کوئی بھی شخص یاقوم بغیر علم کے زندگی
کی تگ ودو میں پیچھے رہ جاتاہے۔ اور اپنی کُند ذہنی کی وجہ سے زندگی کے
مراحل میں زیادہ آگے نہیں سوچ سکتا اور نہ ہی مادی ترقی کا کوئی امکان نظر
آتاہے؛ لیکن اس کے باوجود تاریخ کا ایک طویل عرصہ ایسا گزرا ہے جس میں عورت
کے لیے علم کی ضرورت واہمیت کو نظر انداز کیاگیا اور اس کی ضرورت صرف مردوں
کے لیے سمجھی گئی اور ان میں بھی جو خاص طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں صرف وہی
علم حاصل کرتے تھے اور عورت علم سے بہت دور جہالت کی زندگی بسر کرتی تھی۔
لیکن اسلام نے علم دین کو فرض قرار دیا اور مرد وعورت دونوں کے لیے اس کے
دروازے کھولے اور جو بھی اس راہ میں رکاوٹ وپابندیاں تھیں، سب کو ختم
کردیا۔ اسلام نے لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کی طرف خاص توجہ دلائی اور اس کی
ترغیب دی، جیسا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طلب علم فریضة اور
دوسری جگہ ابوسعید خدی کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:
مَنْ عَالَ ثلاثَ بناتٍ فأدَّبَہُنَّ وَزَوَّجَہُنَّ وأحسنَ الیہِنَّ فلہ
الجنة
( ابوداوٴد، باب فضل من عال فی یتامی، مکتبہ معارف للنشر والتوزیع، ص:۹۳۱)
جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ان کو تعلیم (دین) تربیت دی، ان کی شادی کی
اور ان کے ساتھ (بعد میں بھی) حسنِ سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے۔
اسلام مرد وعورت دونوں کو مخاطب کرتا ہے اور اس نے ہر ایک کو عبادت اخلاق
وشریعت کا پابند بنایا ہے جو کہ علم کے بغیر ممکن نہیں۔ علم کے بغیر عورت
نہ تو اپنے حقوق کی حفاظت کرسکتی ہے اور نہ ہی اپنی ذمہ داریوں کو ادا
کرسکتی ہے جو کہ اسلام نے اس پر عائد کی ہے؛ اس لیے مرد کے ساتھ ساتھ
عورتوں کی دینی تعلیم بھی نہایت ضروری ہے۔
جیسا کہ گزشتہ دور میں جس طرح علم مردوں میں پھیلا، اسی طرح عورتوں میں بھی
عام ہوا۔ صحابہ کے درمیان قرآن وحدیث میں علم رکھنے والی خواتین کافی مقدار
میں ملتی ہیں، قرآن وحدیث کی روشنی میں مسائل کا استنباط اور فتویٰ دینا
بڑا ہی مشکل اور نازک کام ہے؛ لیکن پھر بھی اس میدان میں عورتیں پیچھے نہیں
تھیں؛ بلکہ صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مدِ مقابل تھیں، جن میں
کچھ کا ذکر کیا جاتاہے۔ مثلاً:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا ، حضرت ام عطیہ رضی
اللہ عنہا ، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا ، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا ،
اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا ، ام شریک رضی اللہ عنہا ، فاطمہ بنت قیس
رضی اللہ عنہا ، وغیرہ نمایاں تھیں۔
( مسلمان عورتوں کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ: سید جلال الدین
عمری، ادارہٴ تحقیق وتصنیفِ اسلامی، مارچ ۱۹۸۶ء، ص: ۲۹)
معاشرتی میدان
جس طرح دیگر معاشروں نے عورت کو کانٹے کی طرح زندگی کی رہ گزر سے مٹانے کی
کوشش کی تو اس کے برعکس اسلامی معاشرہ نے بعض حالتوں میں اسے مردوں سے
زیادہ فوقیت اور عزت واحترام عطا کیا ہے۔ وہ ہستی جو عالمِ دنیا کے لیے
رحمت بن کر تشریف لائی( محمد صلی اللہ علیہ وسلم) اس نے اس مظلوم طبقہ کو
یہ مژدہ جانفزا سنایا:
حُبِّبَ الَیَّ مِنَ الدُّنْیَا النِّسَاءُ والطِّیُبُ وَجُعِلَتْ قُرَّةُ
عَیْنِيْ فِی الصَّلوٰةِ
( نسائی ، ابی عبدالرحمن احمد بن شعیب بن علی الشہیر (النسائی)، مکتبہ
معارف للنشر والتوزیع، ۱۳۰۳ھ ص: ۶۰۹)
مجھے دنیا کی چیزوں میں سے عورت اور خوشبو پسند ہے اور میری آنکھ کی ٹھنڈک
نماز میں رکھ دی گئی ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت سے بیزاری اور نفرت کوئی زہد وتقویٰ کی دلیل
نہیں ہے، انسان خدا کا محبوب اس وقت ہوسکتاہے جب وہ اللہ کی تمام نعمتوں کی
قدر کرے جن سے اس نے اپنے بندوں کو نوازا ہے، اس کی نظامت اور جمال کا
متمنی ہو اور عورتوں سے صحیح ومناسب طریقے سے پیش آنے والا ہو۔ یہی وجہ ہے
کہ مرد اور عورت دونوں کے لیے نکاح کو لازم قرار دیا گیا ہے، اس سلسلے میں
آپ کا ارشاد ہے:
النکاحُ من سنتی فمن رغب عن سنتی فلیس منی
( بخاری، کتاب النکاح، کتب خانہ رشیدیہ، دہلی، ص: ۷۵۷۔۷۵۸)
نکاح میری سنت ہے جس نے میری سنت سے روگردانی کی اس کا مجھ سے کوئی تعلق
نہیں۔
( بخاری، کتاب النکاح، کتب خانہ رشیدیہ، دہلی، ص: ۷۵۷۔۷۵۸)
چنانچہ ایک عورت بیوی کی حیثیت سے اپنے شوہر کے گھر کی ملکہ ہے اور اس کے
بچوں کی معلم ومربی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے :
ہن لباس لکم وانتم لباس لہن (البقرہ: ۱۸۷)
عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا ۔
یعنی کہ تم دونوں کی شخصیت ایک دوسرے سے ہی مکمل ہوتی ہے۔ تم ان کے لیے
باعثِ حسن وآرائش ہو تو وہ تمہارے لیے زینت وزیبائش غرض دونوں کی زندگی میں
بہت سے تشنہ پہلو ہوتے ہیں جو کہ ایک دوسرے کے بغیر پایہٴ تکمیل تک نہیں
پہنچتے۔
( اسلام میں عورت کا مقاموم ومرتبہ: ثریا بتول علوی، اسلامک بک فاوٴنڈیشن،
نئی دہلی ۱۹۹۳ء، ص: ۳۵)
معاشی حقوق
معاشرہ میں عزت معاشی حیثیت کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ جو جاہ وثروت کامالک ہے،
لوگ اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جس کے پاس نہیں ہے لوگ اس کے قریب
سے گزرنا بھی گوارا نہیں کرتے، عزت کرنا تو دور کی بات ہے۔ اسے دنیا کے
تمام سماجوں اور نظاموں نے عورت کو معاشی حیثیت سے بہت ہی کمزور رکھا،
سوائے اسلام کے، پھر اس کی یہی معاشی کمزوری اس کی مظلومیت اور بیچارگی کا
سبب بن گئی۔ مغربی تہذیب نے عورت کی اسی مظلومیت کا مداوا کرنا چاہا۔ اور
عورت کو گھر سے باہر نکال کر انھیں فیکٹریوں اور دوسری جگہوں پر کام پر
لگادیا۔ اس طرح سے عورت کا گھر سے باہر نکل کر کمانا بہت سی دیگر خرابیوں
کا سبب بن گیا، ان حالات میں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے راہِ اعتدال
اختیار کیا۔
(۱)
عورت کا نان ونفقہ ہر حالت میں مرد کے ذمہ ہے۔ اگر بیٹی ہے تو باپ کے ذمہ۔
بہن ہے تو بھائی کے ذمہ ، بیوی ہے تو شوہر پر اس کانان و نفقہ واجب کردیا
گیا اور اگر ماں ہے تو اس کے اخراجات اس کے بیٹے کے ذمہ ہے، ارشاد باری
تعالی ہے کہ:
عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُہ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہ(البقرہ: ۲۳۶)
خوشحال آدمی اپنی استطاعت کے مطابق اور غریب آدمی اپنی توفیق کے مطابق
معروف طریقے سے نفقہ دے۔
(۲)
مہر: عورت کا حقِ مہر ادا کرنا مرد پر لازم قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ
قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ
وَآتُواْ النَّسَاءَ صَدُقَاتِہِنَّ نِحْلَةً فَإِن طِبْنَ لَکُمْ عَن
شَیْْءٍ مِّنْہُ نَفْساً فَکُلُوہُ ہَنِیْئاً مَّرِیْئاً(النساء: ۴)
عورتوں کا ان کا حقِ مہر خوشی سے ادا کرو اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے
کچھ حصہ تمھیں معاف کردیں تو اس کو خوشی اور مزے سے کھاوٴ۔
(۳)
وراثت: بعض مذہبوں کے پیشِ نظر وراثت میں عورت کا کوئی حق نہیں ہوتا؛ لیکن
ان مذہبوں اور معاشروں کے برعکس اسلام نے وراثت میں عورتوں کا باقاعدہ حصہ
دلوایا۔ اس کے لیے قرآن میں لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأنْثَیَیْنِ ارشاد
ہوا ہے یعنی مرد کو عورتوں کے دو برابر حصے ملیں گے۔ (النساء: ۱۱) یعنی
عورت کاحصہ مرد سے آدھا ہے، اسی طرح وہ باپ سے ، شوہر سے، اولاد سے، اور
دوسرے قریبی رشتہ داروں سے باقاعدہ وراثت کی حق دار ہے۔
(۴)
مال وجائیداد کا حق: اس طرح عورت کو مہر سے اور وراثت سے جو کچھ مال ملے،
وہ پوری طرح سے اس کی مالک ہے؛ کیوں کہ اس پر کسی بھی طرح کی معاشی ذمہ
داری نہیں ہے؛ بلکہ وہ سب سے حاصل کرتی ہے؛ اس لیے یہ سب اس کے پاس محفوظ
ہے۔ اگر مرد چاہے تو اس کا وراثت میں دوگنا حصہ ہے؛ مگر اسے ہر حال میں
عورت پر خرچ کرنا ہوتا ہے، لہٰذا اس طرح سے عورت کی مالی حالت (اسلامی
معاشرہ میں) اتنی مستحکم ہوجاتی ہے کہ کبھی کبھی مرد سے زیادہ بہتر حالت
میں ہوتی ہے۔
(۵)
پھر وہ اپنے مال کو جہاں چاہے خرچ کرے، اس پر کسی کا اختیار نہیں، چاہے تو
اپنے شوہر کو دے یا اپنی اولاد کو یا پھر کسی کو ہبہ کرے یا خدا کی راہ میں
دے یہ اس کی اپنی مرضی ہے اور اگر وہ از خود کماتی ہے تو اس کی مالک بھی
وہی ہے؛ لیکن اس کا نفقہ اس کے شوہر پر واجب ہے، چاہے وہ کمائے یا نہ
کمائے۔ اس طرح سے اسلام کا عطا کردہ معاشی حق عورت کو اتنا مضبوط بنادیتا
ہے کہ عورت جتنا بھی شکر ادا کرے کم ہے؛ جب کہ عورت ان معاشی حقوق سے
کلیتاً محروم ہے۔
تمدنی حقوق
شوہر کاانتخاب : شوہر کے انتخاب کے سلسلے میں اسلام نے عورت پر بڑی حد تک
آزادی دی ہے۔ نکاح کے سلسلے میں لڑکیوں کی مرضی اور ان کی اجازت ہر حالت
میں ضروری قرار دی گئی ہے۔ ارشاد نبوی ہے:
لَایُنْکَحُ الْاَیْمُ حَتّٰی تُسْتَأمَرُ وَلاَ تُنْکَحُ الْبِکْرُ حتی
تُسْتأذن
( مشکوٰة کتاب النکاح، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، ص: ۲۷۰)
شوہر دیدہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے مشورہ نہ
لیاجائے اور کنواری عورت کا نکاح بھی اس کی اجازت حاصل کیے بغیر نہ کیا
جائے۔
( مشکوٰة، باب عشرة النساء، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، ص: ۲۸۱)
اگر بچپن میں کسی کا نکاح ہوگیا ہو، بالغ ہونے پر لڑکی کی مرضی اس میں شامل
نہ ہو تو اسے اختیار ہے کہ اس نکاح کو وہ رد کرسکتی ہے، ایسے میں اس پر
کوئی جبر نہیں کرسکتا۔
ہاں اگر عورت ایسے شخص سے شادی کرنا چاہے جو فاسق ہو یا اس کے خاندان کے
مقابل نہ ہو تو ایسی صورت میں اولیاء ضرور دخل انداز ی کریں گے۔
خلع کا حق
اسلام نے عورت کو خلع کاحق دیا ہے کہ اگر ناپسندیدہ ظالم اور ناکارہ شوہر
ہے تو بیوی نکاح کو فسخ کرسکتی ہے اور یہ حقوق عدالت کے ذریعے دلائے جاتے
ہیں۔
حسن معاشرت کا حق
قرآن میں حکم دیا گیا: وعاشروہن بالمعروف عورتوں سے حسن سلوک سے پیش آوٴ
(النساء: ۱۹) چنانچہ شوہر کو بیوی سے حسن سلوک اور فیاضی سے برتاوٴ کرنے کی
ہدایت کی گئی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ خیرُکم خیرُکم
لاہلہ۔ تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں اچھے ہیں اور
اپنے اہل وعیال سے لطف ومہربانی کاسلوک کرنے والے ہیں۔
( مشکوٰة، کتاب النکاح، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، ص: ۲۷۰)
بیویوں کے حقوق
اسلام کے آنے کے بعد لوگوں نے عورتوں کو بے قدری کی نگاہوں سے دیکھا، اس بے
قدری کی ایک شکل یہ تھی کہ لوگ عبادت میں اتنے محو رہتے تھے کہ بیوی کی
کوئی خبر نہیں۔ حضرت عمرو بن العاس اور حضرت ابودرداء کا واقعہ کابڑی تفصیل
سے حدیث میں مذکور ہے کہ کثرتِ عبادت کی وجہ سے ان کی بیوی کو ان سے شکایت
ہوئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلا کر سمجھایا اور فرمایا کہ تم پر
تمہاری بیویوں کا بھی حق ہے، لہٰذا تم عبادت کے ساتھ ساتھ اپنی بیویوں کا
بھی خیال رکھو۔
بیویوں کے حقوق کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجة الوداع کے موقع پر
فرمایا:
”لوگو! عورتوں کے بارے میں میری وصیت قبول کرو وہ تمہاری زیر نگین ہیں تم
نے ان کو اللہ کے عہد پر اپنی رفاقت میں لیا ہے اور ان کے جسموں کو اللہ ہی
کے قانون کے تحت اپنے تصرف میں لیا ہے تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ گھر میں
کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جس کا آنا تمھیں ناگوار ہے اگر ایسا کریں تو تم
ان کو ہلکی مار مار سکتے ہو اور تم پر ان کو کھانا کھلانا اور پلانا فرض
ہے۔
( مشکوٰة بروایت صحیح مسلم ، فی قصة حجة الوداع، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند،
ص: ۲۲۵)
آپ نے ایک جگہ اور فرمایا:
خیرُکم خیرُکم لاہلہ وأنا خیرُکم لاہلي
( مشکوٰة، باب عشرة النساء، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، ص: ۲۸۱)
تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہترین ثابت ہو اور خود میں
اپنے اہل وعیال کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔
انَّ أکْمَلَ الموٴمنینَ ایماناً أحسنُہم خُلقاً وألطفُہم لأہلہ
( مشکوٰة، عن ترمذی، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، ص)
کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں اچھا ہو اور اپنے اہل وعیال کے لیے نرم
خو ہو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مردوں کو بیویوں کے
حق میں سراپا محبت وشفقت ہونا چاہیے اور ہر جائز امور میں ان کی حوصلہ
افزائی اور دلجوئی کرنی چاہیے۔ کچھ لمحوں کے لیے دوسروں کے سامنے اچھا بن
جانا کوئی مشکل کام نہیں حقیقتاً نیک اور اچھا وہ ہے جو اپنی بیوی سے رفاقت
کے دوران صبروتحمل سے کام لینے والا ہو اور محبت وشفقت رکھنے والا ہو۔
(اسلام میں عورت کامقام، مرتبہ: ثریا بتول علوی، اسلامک بک فاوٴنڈیشن، نئی
دہلی ۱۹۹۳ء، ص: ۶۰۔۶۱)
عورتوں کا معاشرتی مقام اسلام کی نظر میں
اسلام میں معاشرتی حیثیت سے عورتوں کو اتنا بلند مقام حاصل ہے کہ اس کا
اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ معاشرت کے باب میں اللہ تعالیٰ نے خاص
طور پر مرد کو مخاطب کرکے یہ حکم دیتا ہے کہ ان کے ساتھ معاشرت کے باب میں
”معروف“ کاخیال کیا جائے؛ تاکہ وہ معاشرت کے ہر پہلو اور ہر چیز میں حسن
معاشرت برتیں۔ ارشاد ربانی ہے کہ:
وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن کَرِہْتُمُوہُنَّ فَعَسَی أَن
تَکْرَہُواْ شَیْْئاً وَیَجْعَلَ اللّہُ فِیْہِ خَیْْراً کَثِیْراً
(النساء: ۱۹)
اور ان عورتوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کے ساتھ زندگی گزارو اگر وہ تم کو
ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم کوئی چیز ناپسند کرو اور اللہ اس میں خیر کثیر
رکھ دے۔
معاشرت کے معنی ہیں، مل جل کر زندگی گزارنا، اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے
قرآن کریم میں ایک تو مردوں کو عورتوں سے مل جل کر زندگی گزارنے کا حکم
دیاہے۔ دوسرے یہ کہ ”معروف“ کے ساتھ اسے مقید کردیا ہے، لہٰذا امام ابوبکر
جصاص رازی(المتوفی ۷۰ھ) معروف کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس میں
عورتوں کا نفقہ، مہر، عدل کا شمار کرسکتے ہیں۔
اور معروف زندگی گزارنے سے مطلب یہ ہے کہ گفتگو میں نہایت شائستگی اور
شیفتگی سے کام لیا جائے باتوں میں حلاوت ومحبت ہو حاکمانہ انداز نہ ہو اور
ایک بات کو توجہ کے ساتھ سنیں اور بے رخی بے اعتنائی نہ برتیں اور نہ ہی
کوئی بدمزاحی کی جھلک ظاہر ہو۔
( اسلام میں عورت کامقام، مولوی عبدالصمد رحمانی، دینی بک ڈڈپو اردوبازار،
دہلی، ص: ۱۷)
قرآن میں صرف معاشرت کے لیے ہی نہیں کہا گیا کہ عورتوں کے ساتھ معروف طریقے
سے پیش آنا مردوں پر خدا نے فرض کیاہے؛ بلکہ اسی کے ساتھ ہر طرح کے مسائل
کے بارے میں کہا گیا ہے۔ جیسے مطلقہ عورت کے باری میں صاف طور پر یہ اعلان
کیا گیا ہے کہ:
وَلاَ تُمْسِکُوہُنَّ ضِرَاراً لَّتَعْتَدُواْ
(البقرہ: ۲۳۱)
ایذا دِہی کے خیال سے ان کو نہ روک رکھو؛ تاکہ تم زیادتی کرو۔
آزادیِ رائے کا حق
اسلام میں عورتوں کی آزادی کا حق اتنا ہی ہے جتنا کہ مرد کو حاصل ہے خواہ
وہ دینی معاملہ ہو یا دنیاوی۔ اس کو پورا حق ہے کہ وہ دینی حدود میں رہ کر
ایک مرد کی طرح اپنی رائے آزادانہ استعمال کرے۔
ایک موقع پر حضرت عمر نے فرمایا کہ :”تم لوگوں کو متنبہ کیاجاتا ہے کہ
عورتوں کی مہر زیادہ نہ باندھو، اگر مہرزیادہ باندھنا دنیا کے اعتبار سے
بڑائی ہوتی اور عنداللہ تقویٰ کی بات ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے
زیادہ مستحق ہوتے۔
(ترمذی)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کواس تقریر پر ایک عورت نے بھری مجلس میں ٹوکا اور
کہا کہ آپ یہ کیسے کہہ رہے ہیں؛ حالاں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَآتَیْْتُمْ إِحْدَاہُنَّ قِنطَاراً فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْہُ شَیْْئاً
(النساء: ۲۰)
اور دیا ہے ان میں سے کسی ایک کو ڈھیر سا مان تو اس میں سے کچھ نہ لو۔
جب خدا نے جائز رکھا ہے کہ شوہر مہرمیں ایک قنطار بھی دے سکتا ہے تو تم اس
کو منع کرنے والے کون ہوتے ہو۔ حضرت عمر نے یہ سن کر فرمایا کُلُّکُمْ
أعْلَمُ مِنْ عُمَر تم سب تم سے زیادہ علم والے ہو۔اس عورت کی آزادیِ رائے
کو مجروح قرار نہیں دیا کہ حضرت عمر کو کیوں ٹوکا گیا اور ان پر کیوں
اعتراض کیا گیا؛ کیوں کہ حضرت عمر کی گفتگو اولیت اور افضیلت میں تھی۔ نفس
جواز میں نہ تھی۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کو اپنی آزادیِ رائے کا پورا حق ہے؛ حتی کہ
اسلام نے لونڈیوں کو بھی اپنی آزادانہ رائے رکھنے کاحق دیا۔ اور یہ اتنی
عام ہوچکی تھی کہ عرب کی لونڈی اس پر بے جھجھک بناتردد کے عمل کرتی تھیں
حتی کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی اس رائے سے جو بحیثیت نبوت ورسالت
کے نہیں ہوتی تھی، اس پر بھی بے خوف وخطر کے اپنی رائے پیش کرتی تھیں اور
انھیں کسی چیز کاخطرہ محسوس نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی نافرمانی کا۔
( اسلام میں عورت کامقام، مولوی عبدالصمد، رحمانی،دینی بک ڈپو، اردوبازار
دہلی، ص: ۲۲۔۲۳)
اس آزادیِ رائے کا سرچشمہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس تھی۔ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت نے ازواجِ مطہرات میں آزادیِ ضمیر کی روح
پھونک دی تھی، جس کااثر تمام عورتوں پر پڑتا تھا۔ |