احتساب کا فروغ اورہماری ذمہ داریاں؟

 تعلیم عام ہونے سے نہ صرف عوامی شعور و آگہی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ عوام کی سوچ میں تبدیلی کیساتھ ساتھ اسمیں پختگی پیدا ہوتی ہے۔تعلیمی شعور کے ساتھ ہی وہ یہ سوچتے ہیں کہ چھ عشرے گذرنے کو ہیں لیکن ملک کو استحکام میسر نہیں آسکا1947ء میں جس سوچ کیساتھ اس ملک کو بنایا گیا وہ سوچ شاید بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی وفات کیساتھ ہی اس ملک سے رخصت ہو گئی اور موقع پرست سیاستدانوں کی چالبازیوں کی بدولت ملک دن بدن بدحالی کا شکار ہوتا چلا گیا اور اب صورتحال یہ ہے کہ کرپشن کے عفریت نے ملکی ترقی کو جکڑ رکھا ہے اور دن بدن اسکی جڑیں کھوکھلی ہو رہی ہیں ملک کا عام شہری بھی دن رات یہ سوچتا ہے کہ آخر اس ملک میں پائی جانیوالی کرپشن اور بد دیانتی کب ختم ہوگی اور کب سرکاری ادارے اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے لوگوں کے مسائل حل کریں گے۔

جہاں بھی کرپشن کی بات ہو تو وہاں احتساب کی بات چل نکلتی ہے اور عام شہری اکثر اوقات یہ بحث کرتے نظر آتے ہیں کہ آخر احتساب کب ہوگا اور کون کریگا۔ایک دوسرے پر احتساب کی ذمہ داری ڈال کر ہم خود کو اس مشکل کام سے علیحدہ کر لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شاید محکموں سے انکی کارکردگی اور ترقیاتی کاموں سے متعلق پوچھنا انکی ذمہ داریوں میں شامل نہیں ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے گھر،محلے،گاؤں اورشہروں میں جاری ترقیاتی کاموں میں دلچسپی نہیں لیتے جس کی وجہ سے ہی غیر معیاری میٹریل کے ذریعے غیر معیاری تعمیرات کیساتھ ساتھ نامکمل منصوبے ہمیں جا بجا نظر آتے ہیں اورپھر اس با ت کا رونا رویا جاتا ہے کہ ادارے کام نہیں کرتے،کرپشن بہت ہے،افسران کسی کی بات نہیں سنتے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔

احتساب۔۔۔۔۔ہاں جہاں احتساب کی بات کی جا ئے وہاں مختلف قوانین بارے بحث کی جاتی ہے کہ قانون تو موجود ہیں لیکن ان پر عمل نہیں کیا جاتا اور شہریوں کی شکایات پر کوئی شنوائی نہیں ہوتی اورلوگ مایوس ہوجاتے ہیں۔۔۔کسی حد تک یہ بات درست ہے کہ درخواست گذار کو ایک تھکا دینے والے عمل کا حصہ بنا کر مایوس کر دیا جاتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ کرپشن کے ناسور نے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔۔۔۔لیکن آخر اسکا کوئی تو حل موجود ہوگا یا ہونا چاہیے تاکہ احتسابی عمل تو شروع کیا جاسکے یا پھر اداروں سے انکی کارگذاری بارے پوچھا جا سکے،پورے ملک میں پھیلی افسران کی فوج ظفر موج کی کارکردگی کو جانچا جا سکے اور محکموں کی کارکردگی سے متعلق معلومات حاصل کی جاسکیں۔

معلومات کے حصول کے اسی حق کے تناظر میں حکومت پنجاب نے دسمبر2013ء میں ”پنجاب شفافیت و معلومات تک رسائی کا قانون“ منظور کیا تاکہ عوامی شمولیت کیساتھ احتسابی عمل کو فروغ دیا جاسکے۔اس قانون کے ذریعے جوابدہی کے عمل کو فروغ دیا جاسکتا ہے اور درخواست گذار کی جانب سے معلومات تک رسائی کی درخواست پرعملدرآمد کیلئے 14دن کامقررہ وقت اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اس میں درخواست گذار کو انتظار کی سولی پر نہیں لٹکنا پڑتا اور گھر بیٹھے ہی معلومات حاصل کر سکتا ہے۔

اس قانون کی منظوری کیساتھ ہی ملک بھر کی کئی ایک متحرک غیر سرکاری تنظیموں نے قانون کو استعمال کر نے کے سلسلہ میں عوامی شعور بیدا رکرنے کا بیڑا اٹھایا اوردیہاتی و شہری سطح پر مختلف پروگرامز،کارنر میٹنگز،کمیونٹی میٹنگز،تھیٹر اور طلبا و طالبات کیساتھ آگاہی سیشنز کے ذریعے انہیں یہ پیغام دیا کہ عوام ہی وہ طاقت ہے جو اس قانون کے ذریعے ملک میں پائی جانیوالی خرابیوں کے آگے بند باندھ سکتے ہیں عوام اس قانو ن کی طاقت سے محکموں یسے انکی کارکردگی سمیت ملک میں جاری اور نئے ترقیاتی منصوبو ں کی تفصیلات حاصل کر سکتے ہیں عوام اس قانون کی طاقت سے سرکاری محکموں میں احتساب کو فروغ دیکر کرپشن کیخلاف جنگ کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔لیکن اگر قانون موجود ہو لیکن اس کا استعمال نہ ہوتو ایسے قوانین کا کیا فائدہ کیونکہ قوانین عوام کے بہترین مفاد میں بنا ئے جاتے ہیں تاکہ وہ اسے اپنے اور ملک کے بہترین مفاد میں استعمال کریں۔پنجاب شفافیت و معلومات تک رسائی کا قانون 2013 بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جس کا مقصد حکومتی انتظام و انصرام میں عوامی شرکت کو یقینی بنانا ہے اس لیے اب عوام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس قانون کو کس حد تک اپنے اور ملک کے بہترین مفادمیں استعمال کرتے ہیں۔اور اب شاید یہی وہ وقت ہے جب ہم نے معلومات تک رسائی کے حق کو ایک فرض کے طور پر ادا کرنا ہے۔۔۔۔۔
Faisal Manzoor Anwar
About the Author: Faisal Manzoor Anwar Read More Articles by Faisal Manzoor Anwar: 21 Articles with 18962 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.