رب العالمین نے تمام بنی نوع انسان(بلا
امتیاز مذہب و عقیدہ) کو لباس پہننے کا حکم دیا اور لباس (Dress) پہننے کے
لئے بنیادی اور ضروری اصول بھی بتائے ۔ ان طریقوں کی رعایت رکھنا ضروری ہے۔
تاریخ اس بات پر متفق ہے کہ انسانی شعور نے ہوش میں آتے ہی سب سے پہلے شرم
و حیا کے فطری تقاضے کی تکمیل کی اور عریانی (ننگے پن) کے احساس سے پریشان
ہوکر اپنے جسم کے ستر ( شرم کی جگہ) کو چھپانے کے مختلف طریقے اپنائے ۔
جنگلیوں نے پتوں سے اپنی شرم گاہوں کو چھپایا ۔آج ترقی یافتہ کہے جانے والے
دور میں بھی ستر پوشی کی ضرورت پوری کرنے والی مختلف چیزوں کو شعور انسانی
نے لباس کا نام دیا۔ یہی لباس انسانی زندگی کی اہم ضرورت ہے کیونکہ لباس سے
ہی جسم کی پردہ پوشی ،زیب و زینت کے ساتھ ساتھ موسمی اثرات ،سردی گرمی
وغیرہ سے انسانی جسم اور کھال کو ماحول کی تابکاری کے اثرات و بیماری کے
جراثیم سے بچانا ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے: یٰبَنِیْ اٰدَمَ قَدْ
اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسً یُّوَارِیْ سَوْاٰ تِکُمْ وَرِیْشَا وَ
لِبَاسُ التَّقْوٰی ذَالِکَ خَیْرْ ،ذٰلِکَ مِنْ آیَاتِ اللّٰہ لَعَلَّہُمْ
یَذَّکَّرُوْن(سورہ الاعراف،آیت ۲۶) ترجمہ: اے اولاد آدم بے شک ہم نے
تمہاری طرف لباس اتارا تاکہ تم سب اپنی شرم گاہوں کو چھپاؤ اور لباس سے
آرائش ، زیب و زینت حاصل کرو۔ یہ اﷲ کی نشانیوں میں سے ہے کہ وہ نصیحت
مانیں(کنز الایمان)۔معلوم ہوا کہ ستر کا لباس فرض ہے اور لباس زینت مستحب
ہے۔ رب العالمین نے تین طرح کے لباس اتارے ۔ دو جسمانی ایک روحانی ۔ امام
فخرالدین راضی رحمتہ اﷲ علیہ نے عمدہ لباس کے علاوہ زیب و زینت کی تمام
اشیا کو اس آیت میں داخل فرمایاہے خواہ ان کا تعلق لباس کی نفاست ،جسم کی
نظافت، گھرکی صفائی و آرائش سے بشرطیکہ شریعت نے انہیں حرام نہ کیا ہو اور
فضول خرچی نہ ہو۔ علامہ آلوثی بغدادی علیہ الرحمہ بھی یہی نکتہ بیان فرماتے
ہیں۔
سورہ اعراف کی آیت مبارکہ ۱۹ نمبر سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیطان کے بہکاوے کا
شکار ہونے پر حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا کواپنی عریانی کا احساس
ہوا اور وہ درخت کے پتوں سے اپنے ستر کو چھپانے لگے ۔ عیسائیوں کی مقدس
کتاب بائبل کے عہد نامہ قدیم کے پہلے عنوان پیدائش کے باب (ب ۳) میں آدم
اور ان کی خاتون کو ہونے والے احساس ِ عریانی اور درخت کے پتوں کے لباس کا
واقعہ تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔
لباس کے بارے میں قرآن میں متعدد جگہ تفصیل کے ساتھ ذکر موجود ہے۔ لباس کا
اہم مقصد یہ ہے کہ ستر(شرم کی جگہوں) کے حصوں کو چھپائے۔ جو لباس اس مقصد
کو پورا نہ کرے سرے سے وہ لباس ہی نہیں ہے کیونکہ وہ لباس اپنا بنیادی مقصد
پورا نہیں کر رہا ہے جس کے لئے وہ سلایا ،بنایا گیا ہے۔ یہی لباس انسان اور
باقی تمام مخلوق و جانوروں میں فرق ظاہر کرنے کا پہلا اور آخری ذریعہ بھی
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیر مہذب جنگلی انسان جو غاروں ، جنگلوں میں رہا کرتے
تھے وہ بھی کپڑا میسر نہ ہونے کے باوجود اپنے سترکو ڈھانپنے کی کوشش میں
مصروف رہتے تھے۔ آجکل کا ننگا پہناوا موجودہ دور کے فیشن نے لباس کے اصل
مقصد ہی کو مجروح کر دیا ہے۔ آجکل مردوں اور عورتوں میں ایسے لباس رائج
ہوگئے ہیں جس میں اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ جسم (Body) کا کون سا حصہ کھلا
ہوا ہے اور کون سا ڈھکا ہوا ہے۔ حالانکہ اسلام میں ستر کا حکم یہ ہے کہ مر
د کے لئے مرد کے سامنے سترکھولنا جائز نہیں اور عورت کے سامنے عورت کو ستر
کھولنا جائز نہیں۔ مثلاً اگر کسی عورت نے ایسا لباس پہنا ہے جس سے سینہ
کھلا ہوا ہے ، پیٹ کھلا ہوا ہے ، بازو کھلے ہوئے ہیں تو اس عورت کو اس حالت
میں دوسری عورتوں کے سامنے آنا بھی جائز نہیں چہ جائیکہ اس حالت میں مردوں
کے سامنے آئے۔ اس لئے کہ یہ اعضا اس کے ستر کے حصے ہیں ۔آجکل شادی وغیرہ کی
تقریبات میں دیکھئے کیا حال ہورہا ہے۔ بے باکی ، بے حیائی کے ساتھ عورتیں
ایسے لباس پہن کر گھومتی پھرتی ہیں۔ مذہب سے دور ،اسلام بیزار ذہنیت لوگ
کہتے پھرتے ہیں ،صاحب اس ظاہری لباس میں کیا رکھا ہے ۔ اسلام اس کی نفی
کرتاہے۔
لباس میں پاکی و صفائی وقار اور متانت ضروری ہے:
لباس انسانی وقار و شرافت کی پہچان ہے ۔ اس سے انسان کی عزت ووقار کا بھی
پتہ چلتاہے۔ اسلام نے لباس کے ذریعہ خوبصورتی حاصل کرنے ہی پر زور نہیں دیا
ہے بلکہ نماز جیسی اہم عبادت کے لئے بھی حکم دیا کہ مسجد جاؤ تو بھی صاف
ستھرا ہوکر خوب زیب و زینت کرکے جاؤ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰبَنِیْ اٰدَمَ
خُذُوْ زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّ کُلُوْ وَ
شْرَبُوْ․․․․الخ(سورہ اعراف،آیت:۳۰) ترجمہ: اے اولاد آدم اپنی زینت
کرلو(کپڑے پہن لو) جب مسجد میں جاؤ اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ
بڑھو۔ بے شک حد سے بڑھنے والے کو اﷲ پسند نہیں کرتا۔اس آیت کریمہ سے معلوم
ہوا کہ جہاں تک ہو سکے نماز اچھے لباس میں پڑھے ، مسجد میں اچھی حالت میں
آوے، بدبو دار اور گندے کپڑے میں مسجد میں نہ آئے اور ننگا مسجد میں نہ
آئے،داخل نہ ہو۔ اور اسے انسانی طریقہ بھی کہا جاتا ہے(کفار و مشرکین خانہ
کعبہ میں ننگے طواف کرتے تھے) ۔اسلام نے اس سے منع فرمایا۔ بے شرمی و بے
حیائی روز اول سے انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ انسانی فطرت میں شرم و حیا روز
اول سے داخل ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا
علیہا السلام کے واقعہ سے ملتا ہے۔ جب حکم الٰہی کی خلاف ورزی کی وجہ سے وہ
بے ستر ہوگئے تو انہیں شرم محسوس ہوئی ۔ فوراً جنت کے درخت سے پتوں کو توڑ
کر اپنے آپ شرم کی جگہوں کو ڈھانپ لیا۔ اسلام کبھی بھی ادھ ننگے پن
یاعریانیت کی اجازت نہیں دیتا ۔ جہاں دوسری برائیوں کو دور کرنے پر زور
دیتا ہے وہیں لباس کے معاملے میں شائستگی ، وقار، نفاست، خوبصورتی کی تعلیم
دیتاہے۔ واضح رہے کہ خوبصورتی بدن ڈھاپنے کے معنی میں ہے نہ کہ کپڑوں کے
نام پر بدن پر صرف پٹی ڈالنا خوبصورتی نہیں بے حیائی و بے شرمی ہے۔ آج
آزادی و فیشن کے نام پر Publicمقامات پر ، اسکولوں ، کالجوں، یونیورسٹیوں
اور طرح طرح کی تقاریب میں عریانیت کا کھلے عام دکھاوا کیا جارہا ہے۔ انتہا
ئی شرمناک اور افسوس ناک ہے ۔ جوان لڑکیوں کے جسم پر ٹی شرٹ،جینس، بلاؤز کے
نام پر بیک سائیڈ پیٹھ پر صرف ایک پٹی اور اسکرٹ جیسے کپڑے پہننے کے باوجود
عورت بے لباس نظر آتی ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ لڑکے عموماً پورے کپڑے پہنتے
ہیں جبکہ لڑکیاں اور عورتیں کھلے عام نا مکمل مختصر اور کم کپڑے پہنتی ہیں۔
آج کے اس دور میں اخبارات ، ٹی وی کی ہیڈ لائن میں 37%قریب زناکاری ،
بدکاری ، ریپ کیس کی ہوتی ہیں۔(این ڈی ٹی وی انڈیاسروے:رویش کمار) ۔اسلام
نے ان چیزوں (بدکاری اور بد نگاہی) پر سخت پابندی لگائی ہے۔
اسبابِ زنا میں لباس کا حصہ:
آوارگی ،بے حیائی جو کہ زنا ، ریپ کیس کی پہلی سیڑھی ہے اس کو جڑ سے ختم
کرنے کے لئے اسلام نے نگاہ کی حفاظت کا سخت حکم صادر فرمایا ہے۔ ارشاد باری
تعالیٰ ہے:وَقُلْ لِلْمُؤمِنِیْنَ یَعُضُّوْ مِنْ اَبْصَارِ ہِمْ
وَیَحْفَظُوْ فُرُوْجَہُمْ ۔ذٰلِکَ اَزْکیٰ لَہُمْ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرُٗ
بِمَا تَعْلَمُوْن۔(سورہ نور،آیت :۳۰)ترجمہ: مسلمان مردوں کو حکم دو اپنی
نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ۔ یہ ان کے لئے
بہت ستھرا ہے بے شک اﷲ کو ان کے کاموں کی خبر ہے۔آج بازاروں میں ، تفریح
گاہوں میں بنت حوا اپنے تنگ اور کم کپڑوں میں کھلے عام عریانیت کا مظاہرہ
کر رہی ہیں ۔ افسوس اس بات پر ہے کہ ایسے شرمناک کپڑے پہن کر بچیاں اپنے
والدین کے ساتھ اور عورتیں اپنے شوہروں کے ساتھ گھومتی نظر آرہی ہیں جو
فتنہ و فساد کا سبب بنتے ہیں۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اسلام اس کے تعلق سے
بہت حساس ہے۔ اس کی تعلیمات پیش بندی سے تعلق رکھتی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے
مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی بد نگاہی سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد باری
تعالیٰ ہے: وَقُلِّ لِّلْمُؤمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ
وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ۔(سورہ نور ،آیت :۳۱) ترجمہ: اور مسلمان عورتوں
کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور پارسائی کی حفاظت کریں ۔ ان
آیتوں میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا کہ مردوں اور عورتوں سے کہو
کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں ۔ نگاہوں کے نیچی رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ
صنف نازک کی عریانیت اور بناؤ سنگار کا صنف مخالف پر اثر نہیں پڑے گا اور
سامنے والی کی عریانیت سے آنکھ و دل بھی متاثر نہیں ہوں گے اور جب یہ دونوں
چیزیں متاثر نہیں ہوں گی تودست درازی اور زناکاری کا بد ترین عمل بھی نہیں
ہوگا۔پیارے نبی ﷺ کا فرمان عالیشان ہے کہ اگر کسی خاتون پر اچانک نظر پڑ
جائے تو فوراً نگاہ پھیر لو ۔ دوسری حدیث حضرت بریدہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے
کہ حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم سے ارشاد فرمایا: اے
علی! اجنبی عورت پر اچانک نظر پڑ جائے تو فوراًنگاہ پھیر لو، دوسری نگاہ اس
پر نہ ڈالو، پہلی نگاہ معاف ہے لیکن دوسری نگاہ پر مواخذہ ہے۔ ہمارے آقا ﷺ
نے ارشاد فرمایا: اﷲ عز و جل اس قوم کی دعا قبول نہیں کرتا جس کی عورتیں
جھاجھنی پہنتی ہیں۔ (ابو داؤد، ترمذی) ۔ہم سب کو انتہائی سنجیدگی سے غور
کرنا چاہئے کہ جب زیور کی آواز دعانہ قبول ہونے کا سبب ہے تو خود عورت کی
آواز اور اس کی بے پردگی کتنی تباہی کا باعث ہوسکتی ہے۔اسلام کبھی بھی
عریانی اور کم لباسی کی اجازت نہیں دیتا۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں:زینت بناؤ
سنگار کی چیزوں میں لباس بھی داخل ہے اور زیورات بھی ۔ اس میں نہ توہر چیز
کا چھپانا ممکن ہے اور نہ ہی ہر چیز کا اظہار ناگزیر ہے۔ لباس کے استعمال
میں اس احتیاط کی سخت ضرورت ہے کہ لباس ایسا نہ پہناجائے جو ستر پوشی کے
مقصد کو پورا نہ کرے اور ایسی زیب و زینت نہ اختیار کرے کہ جذبات بھڑک
جائیں اور اس میں تکبر و غرور نہ شامل ہو۔ حدیث پاک میں حضرت عبد اﷲ ابن
عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہماسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ جو شخص دنیا
میں شہرت و ناموری کے لئے کپڑے پہنے گا اﷲ اسے قیامت کے دن ذلت کا لباس
پہنائے گا۔ (سنن ابن ماجہ، کتا ب اللباس ، باب من لبس شہرۃ من الثیاب)
۔احادیث میں اور کلامِ الٰہی میں لباس کا اصل مقصد جسم کے ان حصوں کو
چھپانا جو شرم کی جگہ ہیں، فرض عین ہے۔(۲) حالات و موسم کے لحاظ سے جسم کی
حفاظت کرنا زیب و زینت کے ساتھ ساتھ لباس میں وقار، متانت، شائستگی ہر حال
میں مطلوب ہے۔ ان باتوں کی مزید وضاحت ان احادیث سے ہوتی ہے۔ حضرت ابو
ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم طﷺ نے دو قسم کے لباس سے
منع فرمایا۔ایک اشتمال الصماء اور دوسرے احتباء۔ اشتمال الصماء سے مراد
ایسا لباس جو بالکل بدن پر ایسا لپٹا ہو کہ کوئی عضو بغیر تکلیف کے حرکت نہ
کر سکے۔ احتباء کا مفہوم یہ ہے کہ ایک کپڑے کو بدن پر ایسے لپیٹنا کہ ستر
کھلا رہے(پورا نہ ڈھکے) ۔(سنن ابن ماجہ ، کتاب اللباس ، باب مانہی عنہ من
اللباس) ۔ ان احادیث میں جن کپڑوں کے استعمال کی ممانعت کی گئی ہے ان کا
تعلق مردوں اور عورتوں دونوں سے ہے۔ موجودہ دور کے جدید فیشن میں جس قسم کے
لباس کا استعمال ہوتا ہے اس سے ان کپڑوں کی نوعیت اور زیادہ واضح ہو جاتی
ہے جن کی ممانعت اس احادیث میں کی گئی ہے اور ان کی وجہ سے سماج میں جو
خرابیاں وبرائیاں پیدا ہوتی ہیں وہ دنیا دیکھ رہی ہے۔ادھ ننگا لباس بھی سبب
زنا بنا ہوا ہے۔ اسلام نے ہر برے کام پر روک لگائی ہے۔ اسباب زنا پر قرآن
نے سخت پابندی کا اعلان کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَلَا تَقْرَبُوْ
الزِّنَا اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً ۔وَسَاءَ سَبِیْلاً(سورہ بنی اسرائیل،آیت
:۳۲) ترجمہ: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بیشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بری
راہ ہے۔اس آیت مبارکہ میں رب تعالیٰ نے زنا سے روکا ہے بلکہ زناکاری کے
اسباب سے بھی سختی سے منع فرمایا۔زناکاری کے اسباب میں آجکل سوشل میڈیا،
واٹس ایپ، یوسی بروزر، یو ٹیوب، انٹر نیٹ،انڈرائیڈ موبائیل(ہی بے پردگی اور
بد نگاہی) وغیرہ وغیرہ کا بڑا حصہ ہے۔ اسلام اس طرح کی چیزوں سے منع فرماتا
ہے اور یہ حکم مردوں اور عورتوں دونوں کو دیا گیاہے ۔ایک خاص قسم کے لباس
،تنگ لباس ، باریک لباس وغیرہ انتہائی شرمناک اور افسوس ناک ہے۔ ایک حدیث
میں بیان کیا گیا ہے :بہت سی لباس پہننے والی عورتیں بے لباس ، عریاں ہوتی
ہیں۔(نساء کا سیات العاریات) اس حدیث پاک نے انتہائی باریک لباس کی خرابی و
برائی نہایت اچھے انداز میں بتا دیا۔ اﷲ ہم تمام مسلمانوں کولباس کے احکام
جاننے اور اس پر شریعت کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!ثم
آمین!!, |