حج بیت اﷲ اور سفر حجاز

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے حج ایک اہم رکن ہے جو ہر صاحب استطاعت شخص پرزندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے۔ ہر مسلمان کی دلی تمنا اورخواہش ہوتی ہے کہ وہ حج بیت اﷲ کی سعادت حاصل کرے اورتوبہ و استغفار کے ذریعہ اپنے دامن کو گناہوں سے پاک کر سکے۔حج کو مسلمانوں کی اجتماعی تربیت اور مسلم امہ کے معاملات کا جائزہ لینے کا وسیع و عریض پلیٹ فارم کہا جاسکتا ہے جہاں مسلمانوں کو ایک دوسرے کے مسائل سے آگاہی حاصل ہوتی ہے اور اتحادویکجہتی و اسلامی اخوت کا عظم مظاہرہ پوری دنیا کو دکھائی دیتا ہے۔ ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ حج کے موقع پر مسلم امہ کو اپنے اور دنیا بھر کے تعلقات و معاملات کا جائزہ لینے کیلئے سالانہ بین الاقوامی سٹیج مہیا ہوجاتا ہے تاکہ وہ حقوق اﷲ اور حقوق العباد کے حوالہ سے اپنی غلطیوں و کوتاہیوں پر نگاہ ڈالیں اورروح کی پاکیزگی و حالات کی درستگی کیلئے عملی اقدامات اٹھاسکیں۔ حج کے دوران مسلمانوں کے باہمی میل جول سے دلوں میں محبتیں پیدا ہوتی ہیں۔وہ اسلامی بھائی چارے کی بنیاد پر یہاں اکٹھے ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کا تعارف ہوتاہے۔ وہ آپس میں شفقت،انس اور صلہ رحمی کرتے ہوئے ایک دوسرے پر خرچ کرتے اوردین کی وجہ سے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوئے ہر قسم کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہاں لاعلم افراد کو اسلامی شریعت کے احکامات سیکھنے کیلئے اہل علم سے استفادہ حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے۔وہ سرزمین حرمین شریفین پر قبول ہونے والی دعاؤں سے مستفید ہوتے اور دنیا و آخرت کی کامیابی کیلئے اچھے نتائج لیکر واپس اپنے ملکوں کو روانہ ہوتے ہیں۔ یہ وہ فوائد ہیں جو حج بیت اﷲ کی سعادت حاصل کرنے والوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ نماز، روزہ ، زکوٰۃ وغیرہ صرف بدنی عبادت لیکن حج بدنی اور مالی ونوں طرح کی عبادت کا مجموعہ ہے جس پر اس کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے‘ یعنی اگر یہ کہا جاتاہے کہ حج بیت اﷲ کی سعادت حاصل کرنا دین کی اصل روح کی ترجمانی ہے..... تو غلط نہیں ہو گا۔ قرآن پاک اور احادیث رسول ﷺ میں حج کی فرضیت کے احکامات کی طرح اس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جو شخص سنت رسول ﷺکے مطابق مناسک حج ادا کرتا ہے‘ کسی قسم کی بے ہودگی اور فسق و فجور کا ارتکاب نہیں کرتا تو وہ ایسے واپس لوٹتا ہے جیسے اس کی ماں نے آج ہی اسے جنم دیا ہو۔ بخاری و مسلم میں نبی مکرم ﷺ کا یہ فرمان بھی ہے کہ حج مبرور کی جزا صرف جنت ہی ہے۔اسی طرح ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ جس طرح اسلام میں داخل ہونے سے تمام گناہ مٹا دیے جاتے ہیں اسی طرح حج بھی پچھلے تمام گناہوں کو صاف کردیتا ہے۔اسلام کے اس عظیم عمل کی یہی وہ فضیلت ہے جس کی وجہ سے یہاں مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے۔ مسلم حکمران، علماء، عوام الناس، مردوخواتین، چھوٹے بڑے، امیر و غریب، کمزور اور صحت مند سب کے سب یہاں جمع ہوتے ہیں اور دو سفید چادریں پہنے عاجزی و انکساری کے ساتھ اﷲ کے احکامات بجا لانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ دنیا بھر کے مختلف خطوں و علاقوں سے مختلف رنگ ونسل کے لوگ فرزندان توحید کے اس اجتماع میں شریک ہوتے ہیں۔ اگرچہ وہ ایک دوسرے کی زبان نہیں سمجھ سکتے‘ ان کا کلچر و ثقافت ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے مگرلبیک اللھم لبیک کی صدائیں بلند کرتے ہوئے ان کے درمیان باہمی الفت کا سماں یقینا آنکھوں کو خیرہ کردینے والا ہوتا ہے جسے دیکھ کر کوئی فرد متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح حج کیلئے سرزمین حجاز پر آنے والے لاکھوں انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کیلئے سعودی حکومت کے بہترین انتظامات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ ماضی میں حجاج کرام سے اسلامی اخوت کے جذبہ سے سرشار سعودی حکام اور شہریوں کی بے پایاں خدمت کے قصے سنا کرتے تھے لیکن امسال اﷲ تعالیٰ نے مجھے خود اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھنے کا موقع دیا جو یقینا میرے لئے بہت بڑی سعادت کی بات ہے۔

سعودی وزارت ثقافت و اطلاعات کی دعوت پر دنیا بھر سے جن 39صحافیوں نے شاہی مہمان کی حیثیت سے فریضہ حج ادا کیاان میں محترم سعید احمد آسی، حنیف خالداورشوکت پراچہ کی طرح راقم بھی شامل تھا۔ اس لئے خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیزکی قیادت اور ولی عہد محمد بن نائف، نائب ولی عہد محمد بن سلمان، وزیر حج و عمرہ ڈاکٹر محمد صالح ودیگر کی نگرانی میں لاکھوں ضیوف الرحمن کی آمد پران کی حفاظت، رہائش، خوراک اور طبی سہولیات کے سلسلہ میں کئے جانے والے انتظامات و اقدامات کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔سعودی وزارت اطلاعات کی جانب سے مذکورہ صحافیوں کو دعوت دینے کا مقصد بھی یہی تھا کہ وہ یہاں آکر سعودی حکام کی جانب سے کئے جانے والے انتظامات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرسکیں‘ یوں اﷲ تعالیٰ نے انہیں حج کی سعادت بھی عطا کر دی جو کہ ان کیلئے کسی اعزاز سے کم نہیں ہے۔ یہاں میں یہ ذکربھی کرتا چلوں کہ خادم الحرمین شریفین کی طرف سے اپنے ذاتی خرچ پر پاکستان سمیت دنیا بھر سے تمام مکاتب فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے چودہ سو سے زائد نمائندہ افراد کو ضیوف الملک کی حیثیت سے دعوت دی گئی جن میں ایک سو کے قریب سوڈان اوردوسرے نمبر پر 65پاکستانی شامل تھے۔بعض قوتیں مسلمانوں کے دینی مرکز سعودی عرب کیخلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کرتی ہیں لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ جس طرح وہاں سرکاری سرپرستی میں مسلمانوں کو درپیش مسائل مدنظر رکھتے ہوئے خلوص نیت سے امت میں وحدت اور اتحادویکجہتی کا ماحول پیدا کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ حج کے ایام میں جس طرح رنگ و نسل کی تفریق کے بغیرحجاج کرام کی خدمت کی جاتی ہے ا س میں فرقہ واریت کی کہیں بو نظر نہیں آتی اور پوری امت مسلمہ کو قرآن و سنت کی بنیاد پر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کا پیغام ملتا ہے۔سعودی عرب 34ملکی اتحاد کی قیادت کرتے ہوئے جس طرح دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے عملی کوششیں کر رہا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ میری کوشش ہو گی کہ خادم الحرمین شریفین کے منیٰ میں کنک رائل پیلس میں شاہی مہمانوں کے اعزاز میں دیے گئے ظہرانہ میں شرکت، وزیر اطلاعات عادل بن زید الطریفی اور دیگر سعودی حکام سے ملاقاتوں، مدینہ منورہ میں مسجد نبوی میں گزری ہوئی قیمتی ساعتوں، شہدائے احد،مسجد قبا ، مسجد قبلتین کی زیارتوں اور اس مقدس سرزمین پر گزارے گئے یادگارشب و روز سے متعلق تمام حالات و واقعات کو قلمبند کروں۔اس کیلئے میں اﷲ تعالیٰ کی توفیق اوراستقامت کا طلبگار ہوں۔ ہم سرزمین حرمین شریفین سے واپس تو آگئے ہیں لیکن ہمارے دل ابھی تک وہیں اٹکے ہوئے ہیں اور دل میں پھر سے بیت اﷲ اور مسجد نبوی کی زیارت اور رکوع و سجود کی خواہش مچل رہی ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہر مسلمان کو اپنے گھر کی بار بار زیارت نصیب فرمائے۔ آمین۔ پچھلے سال حج کے موقع پر ایک گروہ کی عجلت پسندی اور سعودی حکام کی طرف سے دی گئی ہدایات نظر انداز کرنے پر منیٰ میں پیش آنے والے بھگدڑ جیسے افسوسناک سانحہ اور مدینہ منورہ میں خود کش حملہ کی مذموم سازش کے سبب امسال سعودی حکومت اور سکیورٹی فورسز کی جانب سے زبردست حفاظتی اقدامات کئے گئے تھے۔ جدہ ایئرپورٹ سے لیکر مدینہ منورہ اور مکۃ المکرمہ تک ہر طرف بہترین انتظامات دیکھنے کو ملے۔سعودی سکیورٹی فورسز کے اہلکار جگہ جگہ چاق و چوبند نظر آئے تو غیر سرکاری تنظیمیں، طلباء اور دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی رضاکار بن کر حجاج کرام کی خدمات میں حصہ لیتے دکھائی دیے۔ ایسا محسوس ہوتا تھاکہ پوری سعودی قوم نے حج کیلئے آنے والے ضیوف الرحمن کی خدمت کو اپنی زندگی کاسب سے بڑا نصب العین بنا رکھا ہے۔ مجھے محترم سعید احمد آسی اور حنیف خالد صاحب کے ہمراہ مکۃ مکرمہ میں سعودی فوج کے ہیڈکوارٹر میں پریڈ کی تقریب میں شرکت کا بھی موقع ملا جہاں حج کے دوران کسی قسم کی بھگدڑ جیسی ہنگامی صورتحال، دہشت گردوں کے مذموم عزائم ناکام بنانے اور آتشزدگی جیسے کسی قسم کی ناگہانی حالات سے نمٹنے کیلئے سعودی فورسز نے اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے عملی مظاہرے دکھائے تو وہاں موجود کوئی شخص ان کی زبردست عسکری تربیت کو داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔اس دوران سعودی فورسز کی جانب سے جنگی طیاروں، گن شپ ہیلی کاپٹروں ،ٹینکوں و دیگر عسکری سازوسامان کا مظاہرہ دیکھنے کے لائق تھا۔ شرکاء نے سعودی ولی عہد محمد بن نائف و دیگر اعلیٰ حکام کی موجودگی میں سکیورٹی فورسز کی مہارت اورجنگی صلاحیتوں کے مظاہرے دیکھے تو دلی اطمینان ہوا کہ اﷲ تعالیٰ نے حرمین شریفین کے تحفظ کیلئے جن لوگوں کا انتخاب کیا ہے وہ یقینی طور پر اپنے فریضہ کا حق ادا کر رہے ہیں۔

Habib Ullah Salfi
About the Author: Habib Ullah Salfi Read More Articles by Habib Ullah Salfi: 194 Articles with 141274 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.