سلامک سوشیالوجی (دین ِ رحمت کا خلاصہ ۔انسان سے محبت )
(Ahsan Sailani, FAISAL ABAD)
سلامک سوشیالوجی
(دین ِ رحمت کا خلاصہ ۔انسان سے محبت )
احسان سیلانی |
|
|
سلامک سوشیالوجی (دین ِ رحمت کا خلاصہ ۔انسان سے محبت ) احسان سیلانی |
|
دین ِ اسلام ''دین ِ رحمت '' ہے ۔ ہمارا
اللہ رب العزت ہمارا مالک ''خدائے رحمت ''اور خدائے محبت '' ہے ۔اللہ
تعالیٰ نے قرآن ِ کریم میں ارشاد فرمایا کہ ''میں سب کے سب گناہ معاف
کردیتاہوں '' ۔ اس سے بڑھ کر خدا کی محبت اور سخاوت کی دلیل کیا ہوگی ۔جب
رسول ِ کریم ﷺنے جنگ ِاحد کے موقع پرفرمایا:''وہ قوم کیسے فلاح پاسکتی ہے
جو اپنے نبی کا چہرہ زخمی کرتی ہے ''۔اللہ نے فرمایا :''آپ کو کچھ اختیار
نہیں اللہ چاہے تو ان کی توبہ قبول کرے ''۔یہ ایسے ہے جیسے سپریم کورٹ
فیصلہ سنادے اور اس کے بعد صد ر کے پاس آخری اختیارہوتاہے۔اللہ کی مہربانی
،انسان پر شفقت اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتی ہے کہ فائنل اختیار میں رحمت کا
چانس باقی رکھا ۔حالانکہ کائنات میں اس سے بڑھ کر کسی انسان کا گناہ کیا
ہوسکتاہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کا چہرہ زخمی کرے اور ہوں بھی مشرک اور اللہ
،رسول کے ساتھ جنگ کررہے ہوں ۔یہاں بھی اللہ نے اپنی رحمت ِ عامہ سے کافروں
کو مایوس نہیں کیا ۔بعض کم ظرف لوگ اس بات کو رسو ل اللہ ﷺ کا مقام عامیانہ
ثابت کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں حالانکہ اس آیت میں اللہ نے اپنے آپ کو
رسول اللہ ﷺ سے بڑا ''رحمۃالعالمین "ثابت کیا ہے کہ جس پر درِ رسول بند
ہوجائے ،اُس کیلئے اللہ کی رحمت ِ عامہ کاکھلا ہے
خبطِ عظمت ،اقتدار اور رشتہ دار ی
فھل عسیتم اِن تولیتم ان تفسدوا فی الارض و تقطعوا ار حامکم۔ اولئک الذین
لعنھم اللہ فاصمھم واعمی ابصٰراھم۔ (سورہ محمد، ۲۳،۲۲)
ترجمہ : ''تو کیا تم اس بات کے قریب ہو کہ اگر تم حکومت حاصل کرلو تو زمین
میں فساد ہی پھیلاؤاور اپنے رشتہ داروں سے قطع تعلق کرو ۔یہ وہ لوگ ہیں جن
پہ اللہ تعالیٰ لعنت کی ہے ۔
اللہ نے لعنت کیوں کی ہے ؟
کم اصل کی اوقات بدلتی دیکھی۔۔۔۔۔دن ہی نہ پھرے ،رات بدلتی دیکھی
پیسے کی کرامت پہ یقیں آہی گیا ۔۔۔۔۔۔۔بدذات کی جب ذات بدلتی دیکھی
یزید اس کی عملی مثال ہے ۔ہوس ِ اقتدا ر میں اُس نے اٰل ِ رسول ﷺ کی حرمت
کو پامال کیا ۔کائنات کے عظیم محسن ﷺ کی اولاد پر ظلم کیا اور اسی وجہ سے
وہ اس آیت کے تحت ''لعنھم اللہ ''میں داخل ہے۔
انسان کی شخصیت میں سب سے شدید چیز اقتدار کی ہوس ہے ۔انسان بڑا بن کر اور
دوسروں کو چھوٹا ثابت کرکے ایسا مزہ لیتاہے جیسے کوئی درندہ خون پی کر مزہ
لیتاہے ۔جب غریب رشتہ دار زیادہ دباؤ کا شکار ہوتے ہیں تو اُس کے ردِ عمل
میں ایک تحریک جنم لیتی ہے جو غریب طبقے میں ظلم وبربریت کا عنصر پیدا کر
کے اُسے ہٹلر بننے پر مجبور کردیتی ہے ۔جب اتحادیوں نے فتح کے بعد جرمنی سے
شرمناک معاہدہ ء شکست پر دستخط کروائے تو اُس کی کوکھ سے ہٹلر نے جنم لیا
۔ہٹلر کوئی جرنیل نہیں تھا ایک معمولی کارپورل ۔اُس نے ظلم و بربر یت کی وہ
مثالیں قائم کیں کہ ہلاکو و چنگیز کو پیچھے چھوڑگیا ۔۔اللہ نے حکومت اقتدار
،فساد اور رشتہ داروں سے تعلق توڑنے کا ایک ترتیب میں اکھٹے ذکر کیا ہے ۔ان
تینو ں کا آپس میں گہر ا تعلق ہے ۔خاص کر جب پست ذہنیت کے بندے کے پاس طاقت
آجائے تو وہ جاپان پر ایٹم بم گر ا دیتاہے حالانکہ جنگ جیتنے کے اور بھی
راستے تھے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے اکثر حقیقت میں بھی اور فلموںمیں بھی دیکھا ہے کہ جب کوئی چھوٹا آدمی
امیر ہوجاتاہے تو جب اُس کےرشتہ دار اُس سے ملنے آتے ہیں تو ان کے بوسیدہ
لباس دیکھ کر دوستوں سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ ہمارے گاؤ ں کا مزارعہ ہے ،یہ
دھوبی ہے یا کوئی معمولی نوکر ۔اس ردِ عمل میں کوئی غرت مند غریب ہٹلر کا
روپ دھار کر فساد فی الارض کا باعث بنتاہے ۔رحمتۃ العالمین نے غریبوں کی
نفسیات کا یہاں تک خیال رکھا کہ امیر سے کہہ دیا کہ پھلوں کے چھلکے غریب
ہمسائے کے گھر کے قریب نہ پھینکے ۔مبادا اُس کے بچے دکھی ہوں ،احساسِ
محرومی کا شکارہوں ۔اسلئے فرمایا کہ اپنے ہمسائے کے گھر کچھ بھیج دیا کرو
اگرچہ وہ بکری کا ایک کھر ہی کیوں نہ ہو ۔اسلام نےغریبوں کے احسا س کو ٹھیس
پہنچانے کی بھی اجازت نہیں دی ۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ اسلام کے نزدیک انسان
قیمتی ہے ۔
ایک عظیم عبادت Polite behavior
اسلام انسان کے احساسات اور اُس کی عزت ِ نفس کو جتنی اہمیت دیتاہے کسی اور
چیز کونہیں دیتا۔رویوں کے امتحان میں ناکام انسان کا ایمان بھی ضائع
کردیتاہے اور اُس کی عظیم عبادات بھی ۔حضرت ابوہریرۃرضی اللہ تعالی عنہ
بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺکے پاس بیان کیا گیا کہ فلاں عورت رات کو
نوافل پڑھتی ہے اور دن کو روزہ رکھتی ہے اور کام کرکے صدقہ دیتی ہے البتہ
وہ اپنے ہمسایوں کو اپنی زبان سے اذیت پہنچاتی ہے ،رسول اللہﷺ نے فرمایا اس
عور ت میں کوئی بھلائی نہیں ہے ،وہ دوزخیوں میں سے ہے۔آپ ﷺ کے سامنے ایک
دوسری عورت کا ذکر کیاگیا کہ فلاں عورت فرض نمازیں ادا کرتی ہے ،رمضان کے
روزے رکھتی ہے اور صدقہ دیتی ہے اور اس کے سوا اس کے دوسرے عمل کوئی نہیں
ہیں اور وہ کسی ایک کو بھی تکلیف نہیں پہنچاتی ،آپ نے فرمایا ؛ وہ جنت میں
جائے گی ۔حدیث سے ثابت ہوا اچھا رویہ نہ ہونے کی وجہ سے ایمان ،روزہ ،نماز
اور صدقہ و خیرات کے باوجود وہ عورت جہنم میں جائےگی ۔اچھے رویے اور آداب ِ
معاشرت نہ ہونے کی وجہ سے ایمان جیسی نعمت بھی کوئی فائدہ نہیں دیتی ۔ اس
سے ثابت ہوا کہ ایمان سے بھی بڑی دولت اچھے رویے اور حسنِ آدابِ معاشرت ہے
۔
اچھے رویے اور معاشرتی زندگی کی کامیابی
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے
فرمایا : بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ ایک قوم کے شہروں کو آباد رکھتا اور ا
ن کے اموال میں کثرت فرماتاہے اور جب سے اس قوم کو پیدا فرمایا ، کبھی ان
کی طرف غصہ اور ناراضی کی نظر سے نہیں دیکھا ۔صحابہ رضی اللہ تعالیٰ علھیم
نے عرض کیا : یارسول اللہ ایسا کیونکر ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اُن کے صلہ
رحمی کرنے کی وجہ سے
بین الاقوامی سفارتی نظریہ
(International diplomatic theory of Islam )
کفر اورشرک کے باوجود پرامن انسانوں سے حسن ِ سلوک سے پیش آیا جاسکتاہے
۔ہمارا مولوی مسلک کے اختلاف کی بنیاد پر امت میں ''فی سبیل اللہ فساد
''کروا رہا ہے ۔بھائی کو بھائی سے جدا کررہاہے ۔غیر مسلموں کے اچھے کاموں
کی تحسین کی جاسکتی ہے جس سے بین الاقوامی امن اور بھائی چارہ کو فروغ ملتا
ہے ۔ایک جنگ میں حضور نبی کریم ﷺ کی طرف سے لڑتے ہوئے ایک یہودی مارا گیا
تو آپ ﷺ نے اُس کی تعریف کی اور اُس کا نام لیکر فرمایا کہ وہ اچھا یہودی
تھا ۔حضرت اسمائ بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میرے
پاس میری امی آئی اور وہ دین سے بیزار اور مشرکہ تھی ،میں نے رسول اللہ ﷺ
سے عرضی : یار سو ل اللہ ! میری امی میرے پاس آئی ہے اور دینِ اسلام سے
رغبت نہیں رکھتی ،مشرکہ ہے تو آیا میں اس سے مل لوں ؟ رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا : اپنی ماں سے ضرور ملو ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ رریشمی چادروں کا
جوڑا اہل ِ مکہ میں سے اپنے ایک بھائی کو بھیجا تھا ،یہ اُن کے اسلام لانے
سے قبل کی بات ہے ،جب وہ مشرک تھے ۔اور نبی کریم ﷺ نے جس آدمی کی مہمان
نوازی کی تھی وہ مسلمان نہیں تھا ۔چنانچہ پرامن اور سمجھ دار غیرمسلموں سے
حسن ِ سلوک کے ذریعے ہم بین الاقوامی تعلقات میں ایک خوشگوار باب کا اضافہ
کرسکتے ہیں ۔
اس سے یہ بھی پتہ چلتاہے کہ کہ کافر کو گفٹ دیاجاسکتاہے۔
معاشرے میں خوشیاں بانٹنے کا مقام
حضرت عبداللہ ابن ِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں رسو ل اللہ ﷺ
نے فرمایا :''جس شخص نے میرے بعد کسی مسلمان کو خوش کیا اس نے مجھے میری
قبر میں خوش کیا اور جس نے میری قبر میں مجھے خوش کیا ،اللہ عزوجل قیامت
کےدن اس کو خوش کرے گا ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جو شخص کسی انسان کو خوشی
پہنچاتاہے ،اللہ تعالیٰ اس سرور اور خوش سے ایک فرشتہ پیدا فرمادیتاہے ،پھر
جب اس خوشی پہنچانے والے شخص کو اس کی قبر میں رکھا جاتاہے تواس کے پاس وہ
فرشتہ آتاہے اور اس سے پوچھتاہے : کیا آپ مجھے نہیں پہچانتے ؟ میں وہ سرور
اور خوشی ہوں جوت م نے دنیا میں فلاں شخص کو پہ پہنچائی تھی ،میں تیرے پاس
اسلئے آیا ہوں تاکہ تجھے وحشت سے بچاؤ ں اور تیری غم خواری کروں اور تجھے
حجت کی تلقین کروں اور تجھے قیامت کے مشاہدات کا مشاہدہ کرائوں اور تیرے
لیے تیرے پروردگار کی بارگاہ میں سفارش کروں اور تجھے تیری وہ منزل دکھاؤں
جوتجھے جنت میں ملے گی ''۔کسی نے ایک شعر میں سچ بیان کیا اور پورے دین کا
خلاصہ بیان کیا کہ ''انسان کو دردِ دل کے واسطے پیدا کیا ہے ''۔انسان سے
محبت کواپنی عبادت قرار دیا اور انسان کیساتھ بدسلوکی کو اپنی ناراضگی کہا۔
معاشرے کے امن اور استحکام کی حساسیت
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
جنت میں قطع تعلق کرنے والا داخل نہ ہوگا۔(بخاری ومسلم)
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں ہے کہ میں نے رسول
اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ،فرمایا اللہ تعالیٰ نے کہ میں رحمن ہوں اور یہ(
جس سے رشتہ داروں کا تعلق بنتا ہے) رحم ہے میں نے اس کا نام اپنے نام میں
سے نکالا ہے(کیونکہ رحمن اور رحم کا مادہ ایک ہی ہے اور وہ رحمت پر دلالت
کرتا ہے) جو شخص صلہ رحمی کرے گا( یعنی رشتہ داروں کے حقوق ادا کرتا رہے
گا) میں اس کو اپنے سے ملالوں گا (یعنی اسے اپنا بنالوں گا) اور جو شخص قطع
رحمی کرے گا اس کو کاٹ دوں گا۔( یعنی میری رحمت اسے شامل نہ ہوگی)( ابو
دائود،ترمذی)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریمﷺ کو ارشاد
فرماتے ہوئے سنا :جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں وسعت دی جائے اور اس
کی عمر درازہو اس کو چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔ (بخاری)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: بے
شک اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پید افرمایا، یہاں تک کہ جب اس کی پیدائش سے
فارغ ہوگئے تو رحم نے کہا( اے رب) یہ تیری پناہ کا مقام ہے قطع رحمی سے،
اللہ پاک نے فرمایا: ہاں! کیا تو راضی ہے اس بات سے کہ میں اس کو ملائوں گا
جو تجھ کو ملائے گا( یعنی جو رشتہ داروں کے حقوق ادا کرتا رہے گا میں اسے
اپنا بنالوں گا) اور میں اس کو کاٹ دوں گا جو تجھ کو کاٹے گا(یعنی جو رشتہ
داروں کے حقوق ادا نہیں کرے گا تو میں بھی اسے اپنا نہیں بنائوں گا) رحم
کہنے لگا: ہاں اے پیدا کرنے والے! اللہ تعالیٰ نے فرمایا: پس یہ تیرے لئے
ہے۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر چاہو تو تم ( اس آیت کو) پڑھ لو
فھل عسیتم ان تولیتم ان تفسدوا فی الارض وتقطعواارحامکم
تو کیا تم سے یہ توقع ہے کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو زمین میں فساد کرو
اور اپنی رشتہ داریوں کو قطع کرو۔ (بخاری ومسلم)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: بے
شک رحم کا نام اللہ کے نام رحمن میں سے ہے(یعنی لفظوں کے اعتبار سے لفظ رحم
اور رحمن کا مادہ ایک ہی ہے اور معنوی اعتبار سے رحم اللہ کی رحمت کا ایک
مظہر ہے جس کی وجہ سے رشتہ دار ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں اور رحم کے تعلق
کی وجہ سے آپس میں ایک دوسرے پر مہربان ہونا چاہئے) اس وجہ سے اللہ تعالیٰ
نے ارشاد فرمایا: اے رحم! جو تیرے تعلق کا خیال کرتے ہوئے رشتہ داروں سے
تعلق جوڑے رہے گا میں اس کو اپنے سے ملالوں گا( یعنی اس کو اپنا لوں گا)
اور جو شخص تجھے کاٹے گا(یعنی رشتہ داروں سے تعلق توڑے گا) تو میں ( بھی)
اس کو کاٹ دوں گا(یعنی میری رحمت اسے شامل حال نہ ہوگی) (بخاری)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: رحم
کا نام( لفظوں کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے نام رحمن سے نکلا ہے او ردونوں
کا مادہ ایک ہے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک صلہ رحمی کی بہت اہمیت ہے ارشاد
خداوندی ہے کہ ) جو شخص صلہ رحمی کرے گا میں اس کو جوڑ لوں گا( یعنی اپنا
بنالوں گا) اور جو شخص اس کے تعلق کو توڑے گا گا(یعنی قطع رحمی کرے گا) اس
کو( اپنے سے) کاٹ دوں گا۔( یعنی رحمت سے محروم کردوں گا) (بخاری ومسلم)
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد
فرمایا: وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے جو برابر سرابرکا معاملہ کرنے
والا ہو۔ (یعنی صلہ رحمی کرنے والے کے ساتھ صلہ رحمی کرتا ہو اور قطع رحمی
کرنے والے کے ساتھ قطع رحمی کابرتائو کرتا ہو)بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ
ہے جو اس صورت میں(بھی) صلہ رحمی کرے جبکہ( اس سے ) قطع رحمی کا برتائو کیا
جائے۔ (بخاری)
ف:بالکل صاف اور ظاہر بات ہے کہ جب دوسرا شخص آپ پر احسان کرے گا تو آپ
خود اس پر احسان کرنے پر مجبور ہیں۔ صلہ رحمی تو درحقیقت یہی ہے کہ اگر
دوسرے کی طرف سے بے التفاتی، بے نیازی اور قطع تعلق ہو تو آپ اس کے جوڑنے
کی فکر میں رہیں، اس کو مت دیکھو کہ وہ کیا برتائو کرتا ہے اس کو ہر وقت
سوچو کہ میرے ذمہ کیا حق ہے؟ مجھے کیا کرنا چاہئے؟ دوسرے کے حقوق ادا کرتے
رہو ایسا نہ ہو کہ اس کا کوئی حق اپنے ذمہ رہ جائے جس کا قیامت میں اپنے سے
مطالبہ ہوجائے۔( از فضائل صدقات)
حضرت ابو ہریرہؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے عرض کیا: یارسول اللہ!
میرے رشتہ دار ہیں میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کرتا ہوں، وہ قطع رحمی کرتے ہیں
میں ان پر احسان کرتا ہوں وہ میرے ساتھ بری طرح پیش آتے ہیں میں ہر معاملے
میں تحمل سے کام لیتا ہوں اور وہ جہالت پر اترتے رہتے ہیں۔ حضور اقدسﷺ نے
ارشاد فرمایا: اگر یہ سب کچھ صحیح ہے تو تو ان کے منہ میں خاک ڈال رہا ہے(
یعنی وہ خود ذلیل ہوں گے) اور تیرے ساتھ اللہ کی مدد شامل حال رہے گی جب تک
کہ تو اپنی اسی حالت پر جما رہے گا۔( مسلم)
اسلام رویوں کا دین
(The religion of manners and etiquettes)
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام دین ِ محبت اور دین ِ امن ہے ۔مولوی اگر
اخلاق بیان کررہے ہیں تو بندے کو اتنا اخلاق والا بنا دیتے ہیں کہ وہ بالکل
ہی گائے بن جاتاہے اور اگر جہاد پر ابھارتے ہیں تو وہ طالبان ہی بن جاتے
ہیں ۔ان رویوں کے نظا م کو سمجھنے اور سمجھا نے کیلئے ان کے درمیان توازن
قائم کرنا بہت ضروری ہے ۔جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ رشتہ داروں سے قطع
تعلق کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا ۔اب سوال یہ ہے کہ اگر خاندان کا
ایک لڑکا یا لڑکی اپنی مرضی سے باہر کسی ''گھٹیا خاندان ''میں شادی کر کے
اپنی بیوی یا اپنے شوہر کو رشتہ دار بنالیتاہے تو کیا اُس کو برداشت کرنا
ہم پر فرض ہے ؟ کیا اُس کے ساتھ تعلق رکھنے پر اسلام ہماری مرضی کے خلاف
ہمیں مجبور کرتاہے ۔بالکل نہیں ۔رشتہ دار کون ہے ؟ اب ساری اولادِ آدم کا
ایک ہی باپ ہے تو کیا یہ سب رشتہ دارہوئے ۔میری ماسی ،کی تائی کے سسر کے
بیٹے کے سسرال ۔
رشتہ دار کون ہیں ؟
تو میں نے سوال کیا کہ رشتہ دار کون ہیں جن سے تعلق نہیں توڑا جاسکتا؟ یہ
حدود ہیں ۔لا محدود رشتہ داری نہیں ہے ۔اس طرح تو ایک انسان پاگل ہوجائے
گاکہ میں کس کس کے ساتھ صلہ رحمی کروں ۔اسلام انسان کو پر سکون اور باوقار
بناتاہے ،مداری والے کا بندر نہیں جو کبھی اس طرف اشاروں پر ناچتاہے ،کبھی
اُس طرف ۔ہر وہ رشتہ دار جس سے نکاح حرام ہو ،اس سے صلہ رحم واجب ہے ،اس
قول پر چچا زاد ،پھوپھی زاد ،ماموں زاد اور زاد بھائی بہنوں سے صلہ رحم
واجب نہیں ہے ۔
انسانوں کیساتھ اُن کے مرتبوں کے مطابق سلوک
حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ہمیں نبی کریم ﷺ نے حکم
دیا کہ لوگوں سے اُن کے مرتبوں کے مطابق سلوک کیا کرو ''۔مثلا ً ایک جاہل
ہے آپ حسن ِ سلوک کی احادیث پڑھ کر اُسے اس کی اوقات سے بڑھ کر مقام دے
دیتے ہیں تو یہ آپ کیلئے فتنہ بن جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں
فرمایا کہ جب جاہلوں سے ان کا سامنا ہوتاہے تو کہتے ہیں بس سلام ۔ سو جاہل
بھی انسان ہیں صلہ رحمی کی روسے تو ان سے بھی اچھا برتائو کرنا چاہیے ۔ان
کے ساتھ اچھا برتاؤ یہی ہے کہ انہیں سلام کہہ کر چلتے بنو اور ان سے ملنا
تو دور کی بات زیادہ بات بھی نہ کرو ۔اب ظالم بھی معاشرے کے انسان ہیں تو
کیا ان کے ساتھ بھی اچھا سلو ک کیا جائے کیونکہ وہ بھی انسان ہیں ۔اگر حسن
ِ سلوک کا اطلا ق ان پر بھی کیا جائے تو پھر قاتلوں کو جیلوں سے نکال کر
ہمیں ان کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالنے پڑیں گے ،اُن کیلئے ضیافتوں کا
اہتما کرنا پڑے گا ۔اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ دس بیس اور بندے مار دیں
گے ۔شیخ سعدی ؒ کا قول ہے کہ بروں کیساتھ نیکی کرنا ایساہی ہے جیسا کہ
نیکوں کیساتھ برائی کی جائے ۔ایک حکایت ہے ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک باز
جنگل کے اوپر پرواز کرتاہوا جارہاتھا ۔کیا دیکھتا ہے کہ شیر ایک بکری کے
اردگرد بیٹھے ہوئے ۔وہ دو تین بار ادھر سے گزرا ۔ہر بار اُس نے یہی دیکھا
کہ شیربکری کے اردگرد بیٹھے ہوئے ہیں ۔باز نیچا اترا اور قریبی چٹان پر
بیٹھ کر شیروں سے مخاطب ہوا ۔''یہ بکری تو تمہارا شکار ہے اور تم اسے کھاتے
کیوں نہیں ہو ؟''۔شیروں نے جواب دیا یہ ہماری ماں ہے ۔جب ہماری ماں شکار
ہوگئی تھی ۔تو یہ اپنے ریوڑسے جدا ہوکر ہمیں دودھ پلاکے جاتی تھی ۔آج یہ
کمزوری کی وجہ سے ریوڑ سے پیچھے رہ گئی ۔اس نے ہم پر احسا ن کیا ،یہ ہماری
ماں ہے اور ہم اس کی حفاظت کرتے ہیں ۔باز کے دل میں آئی کہ میں بھی شیروں
کی طرح کسی پر احسان کروں ۔باز اُڑتے ہوئے ایک دریا کے کنارے پہنچا ۔وہاں
اُس نے ایک چوہا دیکھا جو پانی میں ڈوب رہا تھا ۔باز نے اپنے پنجوں سے پکڑ
کر چوہے کو باہر نکالا ۔اب چوہا سردی سے ٹھٹھر رہا تھا ۔باز کو پھر ترس آیا
اُس نے چوہے کو اپنے پروں میں چھپالیا ۔کچھ دیر بعد جب اُس نے اُرنے کیلئے
جست بھری تو اُسے معلوم ہوا کہ اُس کے پر چوہے نے کاٹ دیے ہیں ۔شدت ِ غضب
میں اُس نے چوہے کو پھاڑ دیا ۔پھر ادھر اُدھر سے جانور شکارکر کے گزر اوقات
کیا ۔جب ذرا اڑنے کے قابل ہوا تو پھر شیروں کے پاس گیا ۔ساری داستان ِ
احسان سنائی ۔شیروں نے اُسے کہا ''نیکی اصل دیکھ کر کرنی چاہیے ''۔ بکری کی
نسل پاکیزہ ہے اسلئے اُس نے شیروں سے نیکی کی ۔شیروں کی نسل پاکیزہ ہے
اسلئے شیروں نے بکری کے احسان کا اچھا بدلہ دیا ۔چوہے کی اصل اور نسل ہی
گندی تھی ،اُس نے ایسا ہی کرنا تھا ۔
اصلاں نال جو نیکی کرئیے تے عمراں تیک نہ بھلدے
بداصلاں نال نیکی کرئیے تے اُلٹیاں چالاں چلدے
متوازن معاشرتی تعلقات
Balanced social relations
٭ لوگوں سے احسن انداز سے بات کریں ۔آپ مخاطب کیساتھ ٹو دا پوائنٹ گفتگو
کریں ۔آپ کی گفتگو یک طرفی نہیں ہونی چاہیے ۔
Your comments should be reciprocal and monopolarize
٭ دوستوں اور رشتہ داروں سے کبھی بھی امید مت رکھیں نہ ہی اپنے مستقبل کے
کیرئیر کیلئے ان کو سنگ ِ میل بنائیں ۔اپنے ذات پر ،اپنی صلاحیتوں پر
انحصار کریں ۔جہاںتک استطاعت ہو ،ان کے ساتھ اپنی طرف سے اچھا کرنے کی کوشش
کریں ۔
٭ خوشی اور غمی کے موقع پر مختصر جذبات کا اظہارکریں ۔جذباتی اور لمبی بات
مت کریں ۔
٭ کسی کے ذاتی معاملات میں دلچسپی نہ لیں ۔بلاوجہ ذاتیا ت کے بارے میں سوال
مت کریں ۔کسی کی زندگی کے بارے میں سراغ مت لگائیں ۔
٭ اجنبی خواتین جب تک آپ کو سلام نہ کہیں ،ان کو سلام مت کہو ۔
٭ بازار میں کھانا کھانے سے گریز کرنا چاہیے ۔اگر کھانا ہی پڑ جائے تو کسی
معقول ریسٹورنٹ میں کھاناکھائیں ۔ریڑی اور چھاپڑی سے کھانا مت کھائیں ۔
٭ اپنے راز کسی سے مت شئیر کریں ۔ایسا کرنے سے فتنے جنم لیتے ہیں ۔حسد بھی
آجاتاہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :''جس نے اپنا راز چھپایا ،جلد مراد کو
پہنچا ۔
٭ کسی پروگرام میں جب تک مہمان ِ خصوصی یا بڑے کھانا شروع نہ کریں ،کھانا
مت شروع کریں ۔
٭ کسی شاپ سے کوئی چیز خریدیں تو پہلے خوب سوچ سمجھ کر خریدیں ۔بعد میں
فیصلہ بدل کر چیز واپس مت کریں ۔ہاں کسی نقص کی وجہ سے ایسا کرسکتے ہیں ۔
٭ اگر کھانا کھانے کے دوران ویٹر یا کسی مہمان سے غلطی سے آپ کے کپڑوں پر
سالن یا کوئی دوسری چیز گر جائے ،یا آپ کے ٹیبل کی پلیٹ یا گلاس گر جائے
،تو بجائے غصہ میں آنے کے ایک مسکراہٹ کے ساتھ کہیںNo mention ,its ok
٭ چھوٹے لوگوں ،ورکروں ،مزدوروں ،دوکانداروں ،راہ چلتے لوگوں اور دورانِ
سفر کسی سے مت الجھیں ۔اگر کوئی الجھنے کی کوشش کرے تو اُس سے کہیں ''ایسا
کرنا میرے شایان ِ شان ،نہیں I’m a gentleman student or cadet
٭ سیاسی ،مذہبی ،علاقائی یا رنگ ونسل کی بحث میں مت حصہ لیں ۔ایسے ماحول
میں پروقار خاموشی بہترین ہتھیارہے۔
٭ لین دین کے معاملات میں زبانی کلامی وعدوں پر انحصار نہ کریں ۔بلکہ
باضابطہ تحریری شکل میں اس معاہدے کو محفوظ بنائیں ۔
٭ کسی بھی شخص کے دعویٰ اور وعدہ دونوں پر یقین مت کریں ۔ہر چیز کو ابتداء
میں زمینی حقائق کی روشنی میں ، کامن سینس کی روشنی میں ،بڑوںسے مشورہ کی
روشنی میں ،کیلکلولیشنز کی روشنی میں واضح کرلیں ۔کسی بھی چیز کو چانس پر
مت چھوڑیں ۔
٭ اللہ کے سوا اور اپنی ذات کے سوا کسی اور پر اعتماد مت کریں ۔
٭ لوگوں کیساتھ نہ زیادہ فری ہونا چاہیے نہ زیادہ خشک مزاج ۔بلکہ متوازن
جاری ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |
|